جمیل خان
ہمیں یاد ہے کہ جب ہمارا بچپن تھا، تو ہمارے محلّے میں ایک مخبوط الحواس شخص کبھی کبھار دکھائی دیتا تھا، جو خود کو مغل شہنشاہ اکبر سمجھتا تھا۔ شاید فلم مغلِ اعظم دیکھنے کے بعد پاگل ہوا تھا یا پھر اس کی یادداشت میں اس فلم کا تاثر اور اس کے مکالمے ہی محفوظ رہ سکے تھے۔
بہرحال وہ جب بھی ہمارے محلے میں نمودار ہوتا بچوں کی ایک پلٹن اس کے پیچھے چل پڑتی….کبھی وہ خود کو حالتِ جنگ میں محسوس کرکے اپنی سپاہ کو مختلف احکامات جاری کرتا رہتا، کبھی اپنے بیٹے شہزادہ سلیم کی بغاوت پر اس کو لعن طعن کیا کرتا….بچے اسے مغل اعظم کہا کرتے….اسے چھیڑتے اور جب وہ ان کے پیچھے دوڑتا تو اس کو پتھر مارا کرتے….وہ اکثر زخمی ہوکر نہیں معلوم کہاں چلا جاتا، اور بہت دنوں تک دکھائی نہیں دیتا۔
کافی عرصے بعد جب اس کا گزر ہمارے محلے سے ہوتا تو پھر وہی تماشہ دُہرایا جاتا….!
ایک روز بچوں کی سنگباری کے جواب میں اس نے جب ان کی طرف پتھر اُچھالا تو وہ کچھ زیادہ ہی بھاری بھرکم پتھر تھا، جو ایک کم سِن بچے کے سر میں جا لگا، اس کا سر پھٹ گیا اور وہ بیہوش ہوگیا….!
اس حادثے کے بعد اس پاگل کی لوگوں نے پہلے تو اچھی طرح پٹائی کی، پھر اسے پولیس کے حوالے کردیا….اپنی پٹائی کے دوران بھی وہ اپنی تیموری شان کے قصے سناتا رہا اوراپنی نامعلوم فوج کو یلغار کا حکم دیتا رہا…. لوگوں کا چونکہ غصّہ اور بھڑاس نکل گئی تو وہ اس کی ان باتوں پر ہنسنے لگے۔ پولیس نے اسے پاگل خانے پہنچوا دیا۔
بالفرض ایسی ہی کسی حرکت کے بعد وہ پاگل قومی تشخص یا ملّی عقائد کی عظمت کا اعلان کرنے لگتا یا اُن کی عظمت کو لاحق کسی خطرے کا اعلان کردیتا تو شاید اِنہی بہت سے لوگوں میں سے جنہوں نے اُس کی خوب اچھی طرح مرمت کرڈالی تھی، اس کے ہمراہ اس کے نعروں کا جوش و خروش اور ایمان کی بھرپور توانائیوں کے ساتھ جواب دیتے اور وہ بچہ جو اس پاگل شخص کے پتھر کی ضرب سے زخمی ہوکر بیہوش ہوگیا تھا، لعین قرار دے دیا جاتا….پھر وہ کچھ ہوتا جو شایدآپ اور میرے لیے اب نیا نہیں رہا….!
یہ تو انفرادی معاملہ تھا، اگر کوئی قوم اس طرز کے پاگل پن کا شکار ہوجائے تو پھر اس کا جنون بھی اسی ‘‘مغل اعظم’’ کی مانند ہوجائے گا، جو خود کو مغل شہنشاہ اکبر خیال کرتا تھا اور دوسرے لوگوں کو اپنی رعایا….پھر ایسی کسی قوم یا ملت کو عقل و شعور کی راہ کون دکھا سکتا ہے….!
‘‘مغل اعظم’’ کی طرزکے پاگلوں یا نفسیاتی مریضوں کا علاج یہ ہوتا ہے کہ ایسے تمام حقائق جو اُن کی یادداشت سے محو ہوگئے ہیں کو بار بار یاد دلایا جائے….ان مریضوں کا شعور حقائق پر توجہ مرکوز نہیں کرتا اور محض اپنی عظمت کا اعلان کرتا رہتا ہے ….انہیں بتایا جائے کہ تم مغل اعظم نہیں بلکہ ایک عام آدمی ہو….دنیا بھر کے لوگ تمہارے حکم کے منتظر نہیں ہیں، نہ ہی انہیں تمہاری ان بے سروپا باتوں میں کوئی دلچسپی ہے….!
یہ عمل ایسے مریضوں کے ساتھ باربار دہرایا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس طرز کے نفسیاتی مریضوں کو یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ وہ مغل اعظم یا اکبر اعظم نہیں….انہیں رفتہ رفتہ یاد آنے لگتا ہے کہ وہ محمد مستقیم ہیں یا گلو بھائی یا کچھ اور….طویل اور صبرآزما علاج سے صحت یاب ہونے کے بعد بہت سے مریض اپنے شہر، اپنے اہل و عیال کے پاس لوٹ جاتے ہیں اور نارمل زندگی گزارنے لگتے ہیں۔
لیکن اگر کسی قوم کی مجموعی نفسیاتی حالت کچھ اسی طرز کی ہوجائے تو پھر اس کا علاج شاید ناممکن ہو جاتا ہے، یعنی پھر یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ قوم یا ملت کے ایسے کسی مرض کی نشاندہی کرتے ہیں اور علاج تجویز کرتے ہیں تو پوری قوم ہی ایسے لوگوں کی دشمن بن کر ان کی جان کے درپئے ہوجاتی ہے۔
لامحالہ ایسی قوم کی باگ ڈور بھی اُن لوگوں کے ہاتھ میں آجاتی ہے جن کی نفسیاتی سطح ‘‘مغل اعظم’’ کی ذہنی سطح سے بھی پست ہوتی ہے۔ وہ انہیں جذباتی نعروں اور جھوٹی شان کے قصوں کے سراب کے پیچھے دوڑاتے رہتے ہیں۔ جبکہ پوری قوم کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ وہ حقیقی یا مفروضہ دشمن کو ہی اپنی تمام کی تمام خرابیوں کا ذمّہ دار سمجھتے ہیں اور اس کے سوا کوئی بھی معقول بات سننے کو تیار نہیں ہوتے۔