عطاءالرحمن عطائی
اندرونی ذہنی خوف کا عذاب اور معاشی بے چینی کی تھڑپ نے نوجوانوں پر بے بسی کی فضا طاری کر دی ہے۔ سرمایہ داریت کے ریاستی جبر نے مختلف اقوام کی نئی نسل کو زندگی کے ہر تعلق سے بیگانہ بنا رکھا ہے۔
اور محکوم اقوام کا پورا سماج ان کے بنیادی فلسفہ آزادی سے پرے ہٹتا جا رہا ہے۔ ہر محکوم قوم کی نوجوان نسل اپنی ہی قوم کو قصور وار گردانتیہے ۔ ان میں خود کو حاکم طبقات کے مقابلے میں کم تر سمجھنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔
ایک طرف تو نئی نسل اپنے وسائل سے یکسر محروم و نا آشنا دکھائی دے رہی ہے دوسری طرف ان کے اس سیاسی معیار میں بھی مکمل غیر آگہی کی حالت موجود ہے جو انہیں ان کے قومی راہنمایان سیاست(باچاخان بابا) نے مہیا کیا تھا۔ جس کے نتیجے میں جمود کے مزید طویل ہونے کے امکانات ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محکوم اقوام کی نئی نسل کیوں اس بات پر مجبور ہوئی کہ وہ اپنے فکری وجود سے انکاری ہو،؟ وہ کیا رجحانات تھے جس نے ہماری نوجوان نسل کو ریاستی سیاسی بیانیوں کے حوالے کیا جس کی بھٹی کے دہکتے انگاروں نے ہمارے نوجوانوں کو مذہبی اور ریاستی سیاست پر قربانی کے بھینٹ چڑھایا۔؟
وہ کیا سیاسی جبر تھا؟ جس نے ہمارے ہی لوگوں گمراہی کی وہ عینک لگوائی ہے جس میں انہیں سراج الحق صاحب پاکیزگی کا منبع دکھائی دیتے ہیں جس کی یہی پاکیزگی بالواسطہ طور پر ریاستی پتلے اور سرمایہ داریت کے خادم کا کردار ادا کرتی ہے۔
اور وہ کونسی سیاسی وباء ہے جو ریاستی بیانئے اور ریاستی اداروں کے تعاون سے محترم عمران خان کو ہماری محکوم نسلوں کے سامنے مسیحا کے روپ میں پیش کرتی ہے۔؟ جس کی پیروی کر کے نئی نسل مزید سیاسی انحطاط کی اسیر بن کر انہی حاکم طبقات کی حمایت میں نکل پڑتی ہے جن کے دئے ہوے عذابوں سے تنگ آکر انہوں نے لاشعوری طور پر عمران خان کی پیروی کی تھی۔
ان تمام سوالات کا جواب بڑے آسان طریقے سے یوں دیا جاسکتا ہے کہ جیسے مولانا فضل الرحمن کے سیاسی بیانئے کے پیروکار کبھی بھی اپنے وسائل سے محرومی کا دکھڑا نہیں روئیں گے کبھی اپنی بے بسی کی شکایت اپنے استحصالی طبقات سے نہیں کریں گے بلکہ ان کا پورا زور مولانا کی عقیدت اور اسلام کی سربلندی پر صرف ہوگا۔ جس کے نتیجے میں اسلام تو نافذ ہونے سے رہا مگر ریاستی جبر اور حاکم طبقات کو بغیر کسی مزاحمت کے کام کرنے کا موقع ملتا ہے یہی حال جماعت اسلامی اور دیگر تمام مذہبی جماعتوں کا ہے۔
ہاں موجودہ حالات میں ریاستوں اور سمایہ داریت کو اگر کوئ ڈر ہے تو وہ ان قوم پرست سیاسی پارٹیوں سے ہے جو عوام کو پہلے مرحلے میں انکے وجود کا ادراک کراتی ہیں اور جو طبقاتی جدوجہد کی ایک بنیادی شکل ہے۔
اسی لئےاستحصالی طبقات اور ریاستیں باچاخان بابا جیسے عظیم راہنماوں کے راہ عمل کو ہر حربے سے کچلنے کی کوشس کرتی ہیں اور اس کے متبادل میں بیگانگی کے سیاسی اڈوں کی کی بھرپور ترویج کرتی ہیں۔
مذہبی و دیگر ریاست گرد سیاستوں کو اس قدر رنگین بنا کر پیش کرتی ہیں کہ جس کے ذریعے نئی نسل اور طبقاتی سیاست کے درمیان فاصلہ حائل ہوجاتا ہے ۔ ریاست کے تشریح کردہ بیانئے ہماری نوجوان نسل کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے ۔ لیکن ان مگرمچھ نما سیاسی پارٹیوں سے اپنے نوجوانوں کو دلیل کی بنیاد پر روکنا باچاخان کے پیروکاروں کا بنیادی فریضہ ہے اگر یسا نہ کیا گیا تو خدا نخواستہ ہماری قومی غلامی مزید طوالت اختیار کر سکتی ہے۔
♠
2 Comments