ظفر آغا
ذرا ملاحظہ فرمایئے کہ ابوبکر البغدادی نے اپنے چاہنے والوں کو آخری پیغام کیا دیا۔ البغدادی نے موصل سے ایک ویڈیو نشر کیا جس میں اس کا آخری پیغام داعش کے جہادیوں کے نام یوں تھا: ’’ تم لوگ اپنے اپنے وطن چلے جاؤ یا خودکشی کرلو‘‘۔
یہ ہے البغدادی کا مکمل اسلام اور اسلامی ریاست کا تصور کہ جس میں جہادیوں کو 70 حوروں کا لالچ دے کر اسلام کے نام پر دہشت کا راج قائم کیا جائے۔ یہ وہ البغدادی ہیں جن کی دعوت جہاد پر دنیا بھر سے ہزاروں نوجوان اپنا گھر بار ترک کرکے شام اور عراق پہنچ گئے اور اب یہ حال ہے کہ موصل میں گھرے جہادی زندگی کی آخری سانسیں لے رہے ہیں اور ان کا خلیفہ انہیں وطن واپس ہونے یا خودکش حملہ کرنے کا مشورہ دے رہا ہے۔
اللہ رے ، یہ اسلامی حکومت اور البغدادی جیسے خلیفہ ، لیکن سوال یہ ہے کہ البغدادی جیسے خود ساختہ اسلامی قائدین کے اعلان جہاد پر ہزاروں مسلمان آج ھی کیوں لبیک کہنے کو تیار ہیں اور البغدادی پہلا مسلمان نہیں جس نے ایک خلافت اور اسلامی حکومت کے قیام کا اعلان کیا ۔
ہمارے پڑوسی پاکستان میں مرحوم جنرل ضیاء الحق کسی البغدادی سے کیاکم تھے،اسی کا نتیجہ ہے کہ آج لاہور کی سڑکوں پر خودکش حملے اور جہاد کے نام پر معصوم بچوں اور عورتوں کی جان لے رہے ہیں۔ آج پاکستان میں اسکول، مزار اور مسجد بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اسی طرح افغانستان میں1990کی دہائی میں طالبان نے اسلامی حکومت قائم کی تھی، تقریباً تیس برس ہونے کو آرہے ہیں اور آج بھی افغانستان طالبانی دہشت کا شکار ہے۔
لب لباب یہ ہے کہ دور جدید میں جہاد محض دہشت کا ایک آلہ کار بن کر رہ جاتا ہے اور پاکستان، افغانستان و داعش جیسی اسلامی حکومتیں خود اپنے عوم کے لئے ایک عذاب بن جاتی ہیں۔ لیکن پھر بھی عالم اسلام میں کہیں نہ کہیں ایک البغدادی پیدا ہوجاتا ہے جس کو لبیک کہنے کو ہزاروں آج بھی تیار رہتے ہیں۔ آخر یہ جہاد اور حکومت قائم کرنے کا اس قدر ولولہ کیوں۔؟
مسلمان آج بھی یہ خواب دیکھتا ہے کہ وہ جہاد کے زور پر کب خلافت قائم کرلے گا۔ آخر یہ خواب کیوں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلی خلافت جس کا قیام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے بعد مدینہ میں ہوا تھا تب سے آخری خلافت جس کا مرکز ترکی تھا یعنی شروع سے آخر تک دور خلافت تک مسلمان دنیا میں عروج پر تھا۔
اس پورے دور میں تقریباً ایک ہزار برس مسلم ریاستیں اور حکومتیں دنیا پر بطور سوپر پاور اپنا ڈنکا بجارہی تھیں۔ وہ شام میں اموی خلافت رہی ہو یا بغداد کی عباسی خلافت یا پھر آگرہ و دہلی کی مغل سلطنت یا پھر ترکوں کی خلافت، ان تمام ریاستوں نے یورپ، ایشیاء اور افریقہ جیسے تمام علاقوں پر اپنا پرچم بلند کررکھا تھا۔ ان تمام ریاستوں میں علم و دولت کا ڈنکا بجتا گیا۔ دنیا بھر سے لوگ ان ریاستوں میں اسی طرح روزگار تلاش کرنے آتے تھے جیسے آج دنیا بھر سے لوگ امریکہ اور یورپ میں تلاش روزگار میں جاتے ہیں۔
الغرض، مسلمان کا ماضی تابناک تھا، خلافتوں اور ریاستوں کے پرچم تلے دولت کی ریل پیل میں مسلمان عیش کررہے تھے۔ لیکن اٹھارویں صدی میں یورپ نے انگڑائی لی اور مغربی دنیا نے سائنس و ٹیکنالوجی کا ایک انقلاب برپا کیا، جس نے یورپ میں ایک انڈسٹریل تہذیب کو جنم دیا۔ اس تہذیب نے یورپ میں ایک نئی سیاست، نئی معیشت ، نئی تعلیم اور نئے اداروں کو جنم دیا۔ اس تہذیب نے یورپ میں ایک نئی سیاست، نئی معیشت ، نئی تعلیم اور نئے اداروں کو جنم دیا۔
اس کے نتیجہ میں یورپ میں انسانی برابری کانعرہ اٹھا جس نے جمہوری سیاست انڈسٹریل معیشت اور سائنسی تعلیم کے راستے ہموار کئے۔ ان تمام نئے ریاستوں کو اپناکر یورپ یعنی مغرب نے پہلے اپنے ممالک مثلاً فرانس جیسی جگہوں پر انقلاب بپا کیا۔ ان انقلاب کے دو اہم پہلو تھے اولاً ان انقلاب کے ذریعہ یوروپ نے شاہی نظام ختم کرنے صرف جمہوری سیاست کی داغ بیل ڈالی بلکہ اپنے معاشروں سے زمین دارانہ قدروں کو اکھاڑ پھینکا جب ایک نئی انڈسٹریل تہذیب نے اپنی ٹیکنالوجیکل ترقی کی بنیاد نے جنم لے لیا تو نئی دولت اور تعلیم کی ترقی سے مالا مال ہوکر یورپ نے دنیا پراپنا تسلط قائم کیا۔
یورپ کی اس انقلابی ترقی کا سب سے بڑا نشانہ مسلم ریاستیں اور حکومتیں ہوئیں جو سائینس وٹیکنیکل ترقی سے محروم زمیندارانہ اور شاہی نظام کا شکار تھیں۔ اب یورپ عالم اسلام سے آگے نکل چکاتھا۔ ستم یہ ہوا کہ کبھی مغل سلطنت نے دم توڑا تو کبھی ترکی خلافت نے مغر ب کے آگے ہتھیار ڈالے اور اس طرح پلی جنگ عظیم کے خاتمہ تک1920 کی دہائی تک ساری دنیا میں مسلمان مغرب کا کم و بیش غلام ہوگیا کیونکہ مسلم عروج کا پرچم دور خلافت میں بلند ہوا تھا جس میں ایک خلیفہ حاکم الوقت ہوتا تھا۔ اس لئے اپنے زوال کے بعد بھی مسلمان یہی خواب دیکھتا ہے کہ مغرب کے خلاف جہاد کے ذریعہ ایک بار پھر سے خلافت قائم کرلی جائے تو مسلمان پھر دنیا پر ویسے ہی چھا جائے گا جیسے دیرینہ دور خلافت میں عروج پر تھا۔
افسوس کہ مسلمان کو یہ نہیں سمجھ میں آتا کہ اب دنیا بدل چکی ہے، یہ سائینس وٹیکنالوجی کا دور ہے، اس دور میں آج طالبانی اور جہادی دہشت سے حکومتیں اور ترقی حاصل نہیں ہوتیں۔ آج عالم اسلام کو ویسے ہی ایک نظریاتی اور پھر سماجی انقلاب کی ضرورت ہے جیسے انقلاب نے یورپ کو تبدیل کیا، کیونکہ ایسا انقلاب ہی عالم اسلام کو سائینسی و ٹیکنیکل انقلاب کے ذریعہ اصل ترقی سے ہمکنار کرواسکتا ہے اور پھر جب ترقی ہوگی تو مغرب کی غلامی سے نجات حاصل ہوگی۔
خلافت یا دہشت چند لمحوں کیلئے خوف تو پیدا کرسکتے ہیں لیکن ان کا حشر آخر وہی ہوتا ہے جو اسامہ بن لادن اور ابوبکر البغدادی جیسوں کا ہوا۔ کیا عالم اسلام ایک ایسے انقلاب کے لئے تیار ہے کہ جہاں سے وہ سائینس و ٹیکنالوجی، تہذیب کے دور میں داخل ہوسکے۔ ابھی ایسے آثار نظر نہیں آتے۔ تاہم آج بھی ماضی میں زندہ ہیں تب ہی تو ہمارے یہاں البغدادی جیسے قائد پیدا ہورہے ہیں جو آخر میں خود اپنے ہمنواؤں کو خودکشی کی دعوت دیتے ہیں۔
روزنامہ سیاست، حیدرآباد انڈیا
♥
One Comment