پنجاب کے وزیرہائر ایجوکیشن نے تجویز پیش کی ہے کہ حجاب اوڑھنے والی طالبات کو پانچ نمبر اضافی دیے جائیں گے؟ جس پر اس کے حق اور مخالفت میں میں ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے۔
سوشل میڈیا میں سینئر صحافی حسین نقی نے کمنٹ کرتے ہوئے دو سوال اٹھائے
حجاب اہم ہے یا لڑکیوں کی تعلیم؟
حجاب اہم ہے یا صوبے میں صحت کی سہولتوں کی فراہمی؟
ایک مولانا نے لکھا کہ
حافظ قرآن کے دس نمبر ہوں یا حجاب کے پانچ ۔۔۔۔۔ یہ درست اقدام نہیں کہلایا جا سکتا۔
دستور پاکستان میں ریاست جہاں اسلامی اقدار کو فروغ دینے کی پابند ہے وہیں اس کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔منصب کا تعلق اہلیت سے ہے تقوے سے نہیں۔ ہمیں ایسا ڈاکٹر انجینئر وکیل جج وغیرہ چاہئیں جو اپنے شعبے میں مہارت رکھتے ہوں۔
ہم ایک قابل ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے جاتے ہیں بھلے وہ حافظ قرآن ہو یا نہ ہو اور حجاب لے یا نہ لے۔ اسلام آباد میں اپنے۔ بچوں کے علاج کے لیے میری ہی نہیں اکثریت کی اولین ترجیح ڈاکٹر جے کرشن ہوتے ہیں۔ جے کرشن واقعی ایک مسیحا ہیں۔ لوگ سفارشیں تلاش کرتے پھرتے ہیں کہ جے سے وقت مل جائے۔ سوال ہے کہ۔ کیوں؟ اور جواب ہے اس کی دیانت اور قابلیت۔ سوچیے اگر کوئی بچی قابلیت کی بنیاد پر میرٹ پر پورا نہیں اترتی تو کیا اسے اس وجہ سے ڈاکٹر بنا کر لوگوں کی زندگی سے کھیلنے کا موقع دیا جاءے کہ وہ حجاب کرتی تھی اور حافظ قرآن تھی؟
حجاب کیجیے اچھی چیز ہے اور قرآن بھی حفظ کیجیے کہ سعادت کی بات ہے لیکن نمبروں کے لالچ میں نہیں۔ لالچ سے بے نیاز ہو کر۔ ریاست کو سمجھنا ہو گا کہ مذہبی اقدار کے فروغ کے لیے تربیت کا میدان موجود ہے ادھر کا رخ کرے۔ ایسے اقدامات کا کوئی فائدہ نہیں۔ نہ دنیا میں نہ دین میں۔۔پانچ نمبروں کی خاطر حجاب لینے والی بہنیں بیٹیاں صرف قوم کی اجتماعی منافقت اور مفاد پرست رویے میں فروغ کا باعث بنیں گی۔ ان سے خیر کی توقع عبث ہے۔
سوال یہ ہے کہ حکومت کی کیا ترجیحات ہیں؟ مذہب کے نام پر عوام کو بے وقوف بنانا یا انہیں صحت و تعلیم کی سہولیات مہیا کرنا۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ شہباز شریف جو کہ ایک لمبے عرصے سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ چلے آرہے ہیں اپنے صوبے میں تعلیم اور صحت کی سہولیات مہیا کرنےمیں ناکام رہے ہیں۔ان کی تمام تر توجہ پنجاب کے چند بڑے شہروں میں سڑکیں تعمیر کرنا ہے۔
پاکستان خاص کر صوبہ پنجاب میں تعلیم کی صورتحال انتہائی دگرگوں ہے۔ سکولوں کو بند کیا جارہا ہے اور دیہاتوں میں تو ان کی عمارتیں مویشی باندھنے کے کام آرہی ہیں۔بی بی سی نے پنجاب کی ایک طالبہ سے تعلیم حاصل کرنے کے متعلق پوچھا تو وہ کہنے لگی کہ
‘میں نے تو ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ میرا یہ خواب اس وقت ٹوٹ گیا جب میرا سکول بغیر بتائے بند کر دیا گیا۔ ہم سکول جاتے مگر اساتذہ نہیں آتے، کئی دن ایسا چلتا رہا اور بلآخر سکول بند کر دیا گیا۔ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی مجھے نہیں بتایا کہ کیا میں کبھی سکول جا سکوں گی یا نہیں۔ اب تو میری سکول جانے کی عمر بھی نکلتی جا رہی ہے۔‘۔
چودہ سالہ غزالہ چوتھی جماعت میں تھیں جب ان کے گاؤں رام نگر میں قائم لڑکیوں کا سرکاری سکول بند کر دیا گیا۔ اس علاقے کی لڑکیوں کے لیے یہ واحد سکول تھا جسے انتظامیہ نے آٹھ برس پہلے بند کر دیا۔ پہلے سے خستہ حال سکول کی عمارت اب ایسے ڈھانچے کی مانند ہے جو کسی وقت بھی مکمل منہدم ہو جائے گی۔ گاؤں کی لگ بھگ تمام لڑکیاں ہی اب سکول کی سہولت سے محروم ہیں۔
غزالہ کا شمار ان ڈھائی کروڑ بچوں میں ہوتا ہے جن کے پڑھنے لکھنے کا خواب ادھورا رہ گیا۔ان میں بیشتر کو تو سکول کا منہ کھبی دیکھنا نصیب ہی نہیں ہوا اور بعض کے علاقے میں سکول نہ ہونا یا غربت کی وجہ سے سکول کی فیس کا نہ ہونا ان پڑھ رہنے کی وجہ بن رہی ہے۔
پنجاب حکومت کی ترجیح کبھی بھی تعلیم نہیں رہی ۔وزیر ہائر ایجوکیشن کو چاہیے کہ وہ مذہب کے نام پر عوام کو لولی پاپ دینے کی بجائے انہیں باشعور بنائیں اور پنجاب میں تعلیم کی فراہمی اور اس کے معیاربہتر کرنے پر توجہ دیں ۔
♦