پاکستان میں فوجی عدالتوں کی میعاد میں توسیع کا بل منظور ہو گیا ہے۔ پاکستان میں اُس دو سالہ قانون کی مدت سات جنوری کے روز پوری ہو گئی تھی، جس کے تحت انسداد دہشت گردی کی خاطر خفیہ فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے خبردار کرنے کے باوجود پاکستانی پارلیمان نے منگل 21 مارچ کو فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کا بل منظور کر لیا۔ ان تنظیموں کا موقف ہے کہ فوجی عدالتوں کے ذریعے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
فوجی عدالتوں میں دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتار مجرموں کے خلاف مقدمے چلائے جا رہے ہیں۔ پاکستانی حکومت اور فوج کا موقف ہے کہ ملک کے عدالتی نظام کا بنیادی ڈھانچہ کمزور ہے اور اس طرح کے مقدموں سے نمٹنے کے قابل نہیں ہے۔ ججوں کو دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ سنانے کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔
پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد 2015ء کے اوائل میں فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں۔ اس عدالتی نظام میں ملزم کو اپنا وکیل خود چننے کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ فوج اسے دفاع کے لیے اپنی مرضی سے وکیل دیتی ہے۔ اس کے علاوہ ذرائع ابلاغ کو بھی مقدمے کی کارروائی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جاتا جبکہ سماعت کا مقام اور وقت بھی اُس وقت تک خفیہ رکھا جاتا ہے، جب تک کے اس عدالت کی جانب سے فیصلہ نہ سنا دیا جائے۔
فوجی عدالتوں میں اپیل کا حق بھی نہیں دیا جاتا اور یہاں پر تعینات ججوں کے پاس قانون کی ڈگری ہونا بھی لازمی نہیں ہوئی۔ ساتھ ہی ججوں پر یہ پابندی بھی نہیں ہوتی کہ وہ یہ بتائیں کہ انہوں نے کس بنیاد پر فیصلہ دیا ہے۔
ان عدالتوں کی جانب سے سنائے گئے 275 فیصلوں میں سے 161 مجرموں کو سزائے موت دی گئی ہے۔ ان میں سے سترہ سزاؤں پر عمل درآمد بھی کیا جا چکا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے جنوری میں کہا تھا کہ وہ فوجی عدالتوں کی میعاد میں توسیع چاہتے ہیں۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ فوجداری عدالتوں کے نظام میں خرابی ہے، جس میں فوری طور پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔
پیپلزپارٹی کے رہنما سید نوید قمر نے دوران بحث کہا کہ یہ حکومت کی نااہلی ہے کہ وہ عدلیہ میں مطلوبہ اصلاحات کرنے میں ناکام ہو گئی ہےجس کی وجہ سے حکومت فوجی عدالتوں میں توسیع کرنے جارہی ہے۔
پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ کے بعد سپریم کورٹ کے ججز نے ذمہ داروں کا تعین کیا تھا لیکن اس کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔