سلمیٰ اعوان
اخبارات میں چھپنے والی اِس خبر کو کتنے لوگوں نے پڑھ کر کیا کیا نہیں سوچاہوگا۔کہ ماضی کی اِس عظیم انقلابی شخصیت کو ایک دن یہ بھی دیکھنا تھا کہ حکمران یونائیٹڈ رشیا پارٹی کے بیشتر ارکان کی جانب سے چلائی جانے والی اِس مہم میں یہ مطالبہ کہ دارلحکومت کے مرکز میں لینن کے مقبرے کی موجودگی انتہائی بے ہودہ امر ہے۔
ہائے کیا انقلابات زمانہ ہیں۔
ایک وہ بھی وقت تھا۔جب لینن کی بیوی کرپسکایا حیرت زدہ سی اِس تماشے کو دیکھتی تھی۔ پوری دنیا سے اُسے تعزیتی پیغامات وصول ہو رہے تھے۔وہ جسدِ خاکی کے ساتھ گورکی سے ماسکو آچکی تھی۔اور منتظر تھی کہ اُسے پوچھا جائے کہ لینن کو کہاں دفنانا ہے؟ جب اُسے معلوم اور محسوس ہوا کہ سٹالن نے اپنے سیاسی عزائم کیلئے اس کے مردہ وجود پر عقیدتوں کے مینارے کھڑے کرتے ہوئے اُسے اوتار کا درجہ دے کر اُس کے لاشے کو دفنانے سے انکار کرتے ہوئے اُسے مصریوں کی طرح ممی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
کرپسکایا نے مخالفت کی ۔وہ اُس کی فکرکی پُوجا چاہتی تھی۔اُس کے وجود کی نہیں۔اُس نے کہا۔اپنے رنج کا اظہار اس طریقے سے مت کرو اس کے نام پر کچھ مت بناؤ اپنی زندگی میں اُس نے کبھی ظاہراً چیزوں پر اہمیت نہیں دی تھی۔پر اُسے سُنا کِس نے؟ جوزف سٹالن اور اس کے حواری اُس کی لاش پر اپنی سیاست چمکانے کا فیصلہ کر بیٹھے تھے۔پورے ماسکو میں ایک ہنگامہ برپا تھا۔
اخبارات ریڈیو کِس کِس طرح پرچار کر رہے تھے۔اُس کی قد آدم تصاویر۔اُس کے مجسمے اُس کے استعمال کی اشیاء شہروں ،شاہراہوں، درسگاہوں اور تفریحی پارکوں کے نام لینن کے نام پر رکھے جا رہے تھے۔اُس کے افکار کو اقوالِ زریں بنا کر پیش کیا جا رہا تھا۔اُسے ایک عظیم دیوتا، ایک عظیم لیڈر،عظیم مفکر اور جانے کِن کِن خطابات سے نوازا جا رہا تھا۔آغاز میں جب تک موجودہ مقبرہ کی تعمیر نہیں ہوئی تھی۔لاش کہیں اور رکھی گئی۔بعد میں اِسے ریڈ سکوائر لے جایا گیا۔
چھ عرصہ تو سٹالن بھی اُس کے ہمراہ لیٹا۔پر جب خروشیف نے اُس کے مظالم پر زبان کھولی تو لوگ بھوکے کتوں کی طرح اُس کی لاش پر پل پڑے۔اور یہاں سے اٹھا کر لے گئے۔
البتہ لینن بہت دہائیوں تک لوگوں کے دلوں کی دھڑکن رہا۔
اُن کی محبتوں اور عقیدتوں کا محور رہا۔اُسے دیکھنے کیلئے منفی درجہ حرارت میں بھی لمبی لمبی لائنیں لگتی رہیں۔اور ابھی بھی لگتی ہیں۔
آغاز میں تو عقیدتوں کے اظہار کے بڑے انوکھے اور نرالے ڈھنگ تھے۔روس کے دُور افتادہ علاقوں سے آنے والے لوگوں کی اکثریت خاموش آنسو بہاتی ہوئی مقبرہ سے نکلا کرتی۔
رفتہ رفتہ جذبات میں کمی آتی گئی۔تاہم ریڈ سکوائر آکر یہ ممکن ہی نہ تھا کہ کوئی اس کی زیارت نہ کرے۔
سنہ2008 میں جب میں روس گئی تو کم از کم 1/4 کلومیٹر لمبی لائن میں ہمیں کھڑا ہونا پڑا تھا۔احترام میں ٹوپی پہن کر اندر نہیں جایا جا سکتا تھا۔باتیں کرنے ہنسنے کی سخت ممانعت تھی۔میں نے چلتے چلتے اک ذرا رُک کر اپنی ساتھی سے ہنستے ہوئے کچھ کہا تھا۔میرے خدایا۔اُس بے حد پراسرار سے ماحول میں مجسموں کی طرح کھڑے نوجوان سپاہی لڑکوں نے میری طرف خاموش تنبیہی انداز میں دیکھا تھا۔میں نے ہونٹوں کو فی الفور بھینچ لیا۔
یہیں مِلنے والی دلّی یونیورسٹی کی پروفیسر انیتا کور نے مجھے بتایا تھا کہ ان کے اخبارات میں اب یہ بحث چھڑنے لگی ہے کہ لینن کو دفنا دیا جائے۔مگر ایک طبقہ ابھی بھی اِس خیال کا حامی نہیں۔
اِس سوال پر میں نے چند رُوسیوں سے بھی پوچھا تھا۔چند ایک نے تو بڑی نخوت سے کہا تھا۔
ریڈ سکوائر روسی عظمت کا سِمبل ہے کِس قدر بیہودہ حرکت کی اِن کیمونسٹ باگڑ بلّوں نے مار قبرستان بنا دیا۔
دو ایک نے کہا۔انقلاب نے عام آدمی کو کچھ نہیں دیا۔اُس کی امیدیں ملیا میٹ ہوئیں۔یوں بھی کوئی نظام زیادہ عرصہ تک نہیں چلتا۔کچھ عرصے بعد اس کی خامیاں اُسے لے ڈوبتی ہیں۔
سرمایہ داری نظام کی کشش نے لوگوں کو کھینچ لیا ہے۔عام آدمی کو لینن یا اس کی فکر سے کوئی دلچسپی نہیں۔اُس کا عملی مظاہرہ مجھے کئی مواقع پر ہوا۔پیٹرز برگ کیلئے گائیڈ بک پڑھتے ہوئے مجھے ایک سرخی نظر آئی تھی۔
If Lenin is your man.
یعنی اگر وہ آپ کا پسندیدہ ہے تو آپ انقلاب کے گڑھ مسولینی جا سکتے ہیں۔اُس کا پتہ درج ذیل ہے۔
کچھ رُوسیوں کا یہ بھی کہنا تھا۔“ارے بھئی۔اب پڑا رہنے دو۔کیا حرج ہے
ریڈ سکوائر خوبصورت لگتا ہے۔اس کے بغیر ادھورا ہو جائے گا۔
دو نے کندھے اچکائے تھے۔جس کا مطلب تھا ہماری بلا سے بھاڑ میں جائے لینن اور اُس کا مقبرہ۔
تو اب وقت کا فیصلہ دیکھتے ہیں کہ کب اُسے ریڈ سکوائر سے اُٹھا کر لحد میں اُتارا جاتا ہے۔
**
روس کا سفرنامہ
One Comment