پاکستان بھارت کے ساتھ کشمیر کے مسئلہ پر تخلیق کے روز اول سے ہی نبرد آزما ہے مگر افغانستان میں ثور انقلاب اور روس اور امریکہ کی جنگ میں فرنٹ لائن کا کردار اور بعدا زاں نائن الیون کے ہولناک واقعہ نے اسے ایک مرتبہ پھر جنگ کی آگ میں دھکیل دیا تین دہائیوں پر محیط اس مسلسل جنگی صورت حال نے ملک اور عوام کی زندگی کے ہر شعبہ حیات کے تار و پود بکھیر کر رکھ دئیے اور پاکستان کا کوئی ایسا شعبہ نہیں رہا جو اس صورت حال سے متاثر نہیں ہوا ہو بلکہ صحیح بات تو یہ ہے کہ اس نے ہماری معاشی،تجارتی، تعلیمی سمیت تمام سرگرمیوں کی سمت بھی اسی ایک جانب کردی اور حکومتی پالیسیوں میں ہی یہ سب کچھ نمایاں نظر نہیں آنے لگا بلکہ عوام کی روزمرہ بات چیت کے مرکز و محور بھی پاک بھارت کے تنازعہ کشمیر کے ساتھ پاک افغان تعلقات،مجاہدین،طالبان،انتہا پسندی، دہشت گردی، دینی مدارس، نصاب تعلیم میں تبدیلی، ملک کے اندر دہشت گرد گروہ، عالمی سطح پر ہونے والی دہشت گردی سے اس کے رشتے و روابط اور اس نوعیت کے مسائل شامل ہوگئے۔
بلاشبہ قوموں کی زندگی میں یہ نشیب و فراز آتے رہتے ہیں کبھی یہ اتار چڑھاؤ غیر محسوس ہوتے ہیں اور کبھی کبھار شدید نوعیت کے ہوتے ہیں یہ اگر تار و پود بکھیر دیتے ہیں تو یہ اسے کندن بھی بناتے ہیں تاریخ میں اس حوالے سے سیکڑوں مثالیں موجود ہیں ایک قوم کو پیوند خاک کیا گیا مگر رفتہ رفتہ اپنی کمی کمزوریوں پر قابو کر ترقی کے بام عروج پر پہنچ گئی بہر حال اس کا انحصار ملکی قیادت اور عوام پر ہوتا ہے اگر وہ اس اتار چڑھاؤ اور مصائب سے سبق حاصل کرکے اس سے نمٹنے کے گر سیکھنے پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں اور ارباب اختیارعوام کو اس تمام عمل میں شامل کرنے کے لئے جامع منصوبہ بندی کرتے ہیں تو ملک و قوم نہ صرف بحران سے نکل آتے ہیں بلکہ اسے ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن بھی کر دیتے ہیں اس کے برعکس اگر یہ قیادت اور ارباب اختیار اندرونی خلفشار میں مبتلا ہیں باہمی جنگ و پیکار ریاست کا مقدر ہے اور عوام عضو معطل ہیں تو پھراس کے پاس اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنا ہی رہ جاتا ہے۔
پاکستانی قیادت اس وقت اس دوہری صورت حال سے دوچار ہے اس نے اپنی جنگوں اور بحرانوں سے کچھ زیادہ نہیں سیکھا اسے تاحال باہمی تنازعات سے نجات نہیں ملی ہے گو کہ ملک میں ہر سیاسی اور مذہبی جماعت اتفاق اور اتحاد کے لئے تگ و دو کرتی ہوئی نظر آ رہی ہے مگر ہر ایک نے اپنے مفادا ت کو سر فہرست رکھا ہوا ہے اور جس اتفاق و اتحاد کی وہ مبلغ دکھائی دیتی ہے اس میں بھی منافقت کا عنصر پایا جاتا ہے جو پارٹی اقتدار پر ہوتی ہے وہ اسے دوام دینے کی خاطر اتفاق و اتحاد اور یکجہتی کے نعرے بلند کرتی ہے حالانکہ اتفاق و اتحاد کے لئے کچھ قربان کرنا پڑتاہے اور یکجہتی کے لئے کچھ دینا پڑتا ہے جو کہ یہ دینے کے لئے تیار نہیں ہوتی ہے علاوہ ازیں ہمارے حکمران طبقات نے عوام کو کبھی بھی ملک کی ترقی اور بحرانوں سے نمٹنے کے لئے ایک قوت کے طور تسلیم نہیں کیا ہے۔
یہ صورت حال گزشتہ ستر برسوں سے چل رہی ہے عوام اگر ایک سیاسی جماعت میں اس کے کارکن ہیں تو ان کا کام اور کارکردگی جلسہ و جلوس کا اہتمام، قیادت کی تعریف و ستائش اور احتجاجی کیمپ اور مظاہروں تک محدود ہے یہ ریاست میں پائے جا تے ہیں تو ان کا کام ارباب اختیار کے ہاتھ مضبوط کرنا ہے یا پھر تالیاں بجانا ہے اور جب اس دوڑ دھوپ سے فارغ ہوکر سوچتے ہیں کہ وہ تو کولہو کے بیل کی مانند ایک ہی دائرے میں گھوم رہے تھے تو پھر نجات دہندہ یا د آنے لگتے ہیں یہ تاریخ کی کتب سے بادشاہوں ،شہزادوں اور شہزادیوں کی دلچسپ کہانیوں سے دل بہلانے لگنے میں لگ جاتے ہیں کیونکہ ان کو خود بھی اس کا احساس اور ادراک نہیں ہے کہ قبائلی اور جاگیردارانہ ادوار کے ساتھ دیانت دارانہ قیادت اور رحم دل شہزادوں کے زمانے کا بھی خاتمہ ہوچکا ہے اور اب ایک معاشرے میں اس کی کایا پلٹنے والی سب سے زیادہ فعال قوت تو وہی ہیں ۔
زار شاہی کا روس اپنے زمانے کی ایک بڑی سلطنت اور قوت تھی اس میں شک و شبہ نہیں ہے مگر سرکار کا زیادہ تر انحصار جاسوسی نظام پر چل رہا تھا اور عوام اس کے لئے کیڑے مکوڑے تھے اس سے ملتی جلتی صورت حال چین کی بھی تھی اور جاپان کو اگر جنگ عظیم میں اگر عظیم نقصان کا سامنا کرنا پڑا تو ویت نام کی طویل جنگ نے اسے ہلاکر رکھ دیا تھا ان تمام ممالک کی قیادتوں نے اپنی قوتوں کو مجتمع کیا۔ عوام کے نئے خطوط پر تعلیم و تربیت کی ان کو فعال قوت کے طور پر تسلیم کیا اور متحرک کرکے ملک و قوم کو بحرانوں سے نکالا ہمسایہ ملک بھارت میں آزادی کے فوراً بعد زرعی اصلاحات کی گئیں اور جاگیرداروں کا زور اور ان کی قوت کم زور کرکے جدید سرمایہ داری اور صنعت کار ی کے لئے راستہ بنایا گایا تو فلمی صنعت کو آزاد اور خود مختارچھوڑ کر عوام کی تعلیم وتربیت کا سامان پیدا کیا گیا ۔
پاکستان کا جب ان ممالک سے موازنہ کرتے ہیں تو صورت حال مختلف نظر آتی ہے یہاں پر پہلے سے موجود قبائلی اور جاگیرداری نظام کو مستحکم کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے گئے ہر حکومت عوام کے حالات کار اور زندگی کو بہتر بنانے کے دعوے اور وعدے تو ضرورکرتی رہی مگر اپنے عمل سے اس کی کمر توڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جبکہ عوام اس لمحے طاقت ور اور فعال ہوتے ہیں جب ان کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ اختیارات دئیے جاتے ہیں ان کو روزگار کے مقامات پر مضبوط بنایا جاتا ہے یہ ایک کارخانہ میں ہوتے ہیں تو ان کو یونین سازی کا حق دیا جاتا ہے اوقات کار کا تعین کیا جاتا ہے پیداوار میں شمولیت کا احساس دلایا جاتا ہے عدالتی نظام ان کو انصاف کے بول بالا ہونے کا یقین دلاتا ہے پولیس سمیت تمام سرکاری ادارے ان کے جان و مال کے تحفظ کو اولیت دیتے ہیں تعلیمی نصاب میں ان کو تبدیلی لانے والی قوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اورنئی ایجادا ت سے روشناس اور جدید تعلیم سے آراستہ کیا جاتا ہے۔
عرب اسی وقت دنیا پر حکمرانی کے اہل بنے جب اسلام نے ان کو پہلے سے زیادہ حقوق کا احساس دلایا غلا م کو آقا کے جبر سے نجات دلائی اور عوام میں سے ہر طبقہ اور جنس کے حقوق کا تعین کیا گیا ان شہری حقوق اورآزادیوں نے ان میں خود اعتمادی پیدا کی تو قبیلوں میں تقسیم بدو عرب ایک طاقت ور قوم کے طور پر ابھر کر سامنے آگئے اور پھر یہ صحرا نشین دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئے اور کئی صدیوں تک دنیا کو اپنے طرز حکمرانی،انصاف اورحقوق کے تصورات کو متاثر اور منور کرتے رہے مگر بعد ازاں شنہشاہیت ، باہمی آویزش اور شہری حقوق اور آزادیوں کی پامالی اور سرکار اور بادشاہوں کے خوف و ہراس نے عوام کو بونا بنانے کا عمل شروع کیا تو مسلمانوں کی سلطنت بھی اس کے ساتھ ہی سکڑنے لگی اور آج مسلمان اپنی دولت اور وسائل کے باوجود بے بس ، محتاج اور دست نگر ہیں۔
پاکستان اپنی ناقص اور کوتاہ نظر پالیسیوں کے سبب اندرونی خلفشار کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ممالک سے بھی برسر پیکار ہے یہاں پر تین دہائیوں سے دہشت گردی اور انتہاپسندی کی پرورش و پرداخت ہوتی رہی اور اس تناور درخت کے ڈانڈے افغانستان تک پھیل گئے اور جن سے نمٹنے کے لئے اب ان ہی زنگ آلودہ ہتھیاروں اور نظریات سے کام لیا جارہا ہے حکمران طبقے عوام کو متحد رہنے اور اتفاق کا مشورہ اور تلقین کرتے رہتے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی ان کو شک و شبہ کی نگاہ سے بھی دیکھتے ہیں صورت حال یہ ہے کہ ان کو ہر شہری دہشت گرد نظر آتا ہے چونکہ عوام کو کبھی بھی اس کا ادراک نہیں ہونے دیا گیا کہ وہی سب سے زیادہ فعال قوت ہے اور بحرانوں سے نبرد آزما ہونے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس لئے وہ کسی ایسی غیبی قوت کے منتظر ہیں جو انہیں اس گھمبیر صورت حال سے نجات دلائے گی یا پھر کوئی انصاف پسند بادشاہ اور رحم دل شہزادی آکر ان کے جملہ مصائب کا مداوا ثابت ہوں گے چنانچہ وہ ایک کے بعد دوسرے نجات دھندہ کی راہ تک رہے ہیں اور اس آس میں ان کی زندگی کے ستر برس جیسے تیسے بیت گئے ہیں اگر یہی پالیسیاں اور حکمت عملی اسی طرح برقرار رہیں تو کسی بڑی تبدیلی کی توقعات نہیں رکھی جاسکتی ہیں۔
قبائلی علاقہ جات میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران پاک فوج نے کھیلوں کا انعقاد کرکے ایک اچھی مثال قائم کی اس کے افسران نے ان کھیلوں کے ذریعے مقامی آبادی کو سخت اور کٹھن حالات میں بھی جینے کا طریقہ اور احساس دلایا اس سے نہ صرف ان کے خوف اور دہشت میں کمی واقع ہوئی بلکہ دہشت سے پیدا ہونے والے امراض سے نکلنے اور صحت مند زندگی کے احساسات بھی اجاگر ہوئے اور کسی حد تک رونقیں بھی بحال ہوئیں مگر نادرا کی جانب سے شناختی کارڈوں کی بندش، تعلیمی اداروں کی بحالی میں سرکار کی جانب سے سست روی، گھروں اور حجروں کی تعمیر وتکمیل میں تاخیر نے ان میں تنہائی اور اجنبیت کے احساسات کو جنم دیا ہے اور وہ پریس کانفرنسوں اور احتجاجی کیمپوں کے ذریعے اپنے مصائب اور مسائل ارباب اختیار کو بناتے میں لگے ہوئے ہیں اس تگ و دو سے ان کا قیمتی وقت اور شب وروز کی سخت محنت سے پیدا کردہ پیسہ دونوں ضائع ہورہے ہیں۔یہی پیسہ اور محنت قومی پیداوار پر لگنا چاہئے تھا لیکن ارباب اختیار کو اس کا احساس نہیں ہے یا پھر وہ اس دلدل سے نکلنا نہیں چاہتے ہیں ۔
اسی طرح عوام کے باہمی تنازعات ملک کے ترقی نہ کرنے کے باعث بڑھ رہے ہیں ۔وہ عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں جہاں دنوں کے مقدمات مہینوں اور مہینوں کے مقدمات پر برس ہا برس لگ جاتے ہیں ٹر یفک بھی ان کے وقت کے ضیاع کا سبب بن رہا ہے کئی سالوں سے عوامی حقوق سے غفلت برتی جارہی ہے اندرون ملک اگر یہ صورت حال ہے تو ہمسایہ ممالک سے تعلقات میں بھی کشیدگی پائی جاتی ہے ۔پاک افغان سرحدات پر آمد و رفت میں مشکلات سے جہاں تجارت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں تو انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہورہی ہے تعلیمی شعبہ کے تجارت کی شکل اختیار کرنے سے عوام کی بڑی اکثریت جدید اور اعلیٰ تعلیم کے ثمرات سے دور ہوتے جارہے ہیں حکومت نے دہشت گردی کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دے کر اپنے تمام وسائل اس کے سدباب پر لگا ئے ہوئے ہیں اور یہ بھول بیٹھی ہے کہ عوام ہی اصل قوت ہے اور حکومتوں نے ہمیشہ ان کو زیادہ سے زیادہ حقوق دیکر ہی ترقی کی ہے اور مشکلات پر قابو پایا ہے۔
♦