آصف جاوید
پاکستان میں توہینِ مذہب اور توہینِ رسالت کی آڑ میں اظہارِ رائے کی پابندی، ریاست پاکستان کا بہت ہی پرانا اور آزمودہ حربہ ہے۔ ریاست اپنے آئین کے آرٹیکل 19 میں نمائشی طور پر اظہارِ رائے کی آزادی کی لولی لنگڑی ضمانت تو دیتی ہے ۔ مگر زمینی صورتحال بالکل بر عکس ہے۔ سوچ و فکر پر پابندی اور اظہارِ رائے کی آزادی نہ ہونے کی وجہ پاکستانی معاشرہ سماجی و ثفاقتی گھٹن کا شکار ہو کر رہِ گیا ہے۔
بیس کروڑ زندہ انسانوں کا ملک نفسیاتی عوارض کا شکار ہو کر مذہبی عقائد کا اسیر اور ایک غیر منطقی، غیر استدلالی ، غیر سائنسی سوچ و فکر رکھنے والے معاشرے میں تبدیل ہوگیا ہے۔ اب آلو اور بینگن پر اللہّ کانام تلاش کرنے والے سائنٹسٹ اور حضور نبی کریم کی نعلین کے عکسِ مبارک کےتعویز پہنے والے دانشور کہلاتے ہیں۔
اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10 دسمبر 1948 کو انسانی حقوق کے عالمی چارٹرڈ کا اعلان اس یقین و اعتماد کے ساتھ کیا تھا کہ دنیا بھر میں موجود اس کے تمام ممبر ممالک اپنے اپنے آئین و قوانین، انسانی حقوق کے عالمگیر چارٹرڈ کی روح سے ہم آہنگ کریں گے۔ مغربی ممالک نے دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں سے بہت بڑا سبق سیکھ لیا تھا، اور امر پر یقین کے ساتھ اپنے اپنے ممالک کی تعمیرِ نو شروع کی تھی کہ انسانی معاشرے کی ترقّی سے ملک ترقّی پاتا ہے۔
انسانی معاشرے سوچ و فکر پر پابندی اور اظہارِ رائے پر قدغن سے شاہ دولا کے چوہے اور کنویں کے مینڈک تو پیدا کر سکتے ہیں۔ مگر مارک زُکر برگ، بل گیٹس اور اسٹیفن ہاکنگز پیدا نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ کے کہ آج ستّر 70 سال گذرنے کے باوجود ہم سوائے ڈاکٹر عبدالسّلام کے عالمی سطح کا کوئی عظیم سائنسدان نہیں پیدا کرسکے۔
اوریا مقبول جان جیسے ہمارے دانشوروں کا تو یہ حال ہے کہ ہم توہینِ مذہب اور توہینِ ریاست کے لئے ایک ہی قانون اور ایک ہی سزا تجویز کرتے ہیں۔ چاہے ریاست کے ہاتھ بے گناہ بنگالیوں، مہاجروں اور بلوچوں کے خون سے ہی کیوں نہ رنگے ہوں۔ ان دانشوروں کے نزدیک ریاست کا تقدّس ، رسول مقبول کے تقدّس کے مساوی ہے۔ اور افواجِ پاکستان و خفیہ ادارے ، پیغمبروں کے تقدّس کے حامل ہیں۔
ہمارے حکمران اور ریاستی تھنک ٹینک کے دانشور یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ انسانی حقوق سے لاپرواہی اور ان کی بے حرمتی سے اکثر ایسے افعال سرزرد ہوتے ہیں، جن سے انسانی ضمیر کو سخت صدمات پہنچتے ہیں۔ اور انسان ظلم و استبداد سے عاجز آکر بغاوت اور سرکشی اختیار کرلیتا ہے۔
اقوامِ متّحدہ کے عالمی منشور کے آرٹیکل نمبر 18 میں واضح طور پر اس حق کی ضمانت دی گئی ہے کہ ہر انسان کو آزادیِ فکر، آزادی ضمیر اور آزادیِ مذہب حاصل ہے۔ اس حق میں مذہب یا عقیدے کو تبدیل کرنے ، اور پبلک میں یا نجی طور پر یا دوسروں کے ساتھ مل جل کر اپنے عقیدے کی تبلیغ، عمل، عبادت اور اس کا پرچار کرنے کی آزادی ہے۔
اقوامِ متّحدہ کے عالمی منشور کے آرٹیکل نمبر 19 میں واضح طور پر اس حق کی ضمانت دی گئی ہے کہ ہر انسان کو ملکی سرحدوں کا احترام کئے بغیر علم و خیالات کو تلاش کرنے، انہیں حاصل کرنے، اور ان کی تبلیغ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ ہر شخص کو آزادی حاصل ہے وہ اپنی آزاد رائے رکھ سکتا ہے، ، اور اس کا اظہارِ آزادی کے ساتھ کر سکتا ہے۔
پاکستان سے آنے والی خبروں کے مطابق ، جنوری کے آخری ہفتے میں رہا کئے جانے والے 5 سوشل میڈیا بلاگرز کی رہائی کے بعد یہ امید ہو چلی تھی کہ شاید ہماری ریاست کو احساس ہوگیا ہے کہ سوچ و فکر اور اظہارِ رائے کی آزادی اور توہینِ مذہب میں بڑا فرق ہوتاہے۔ مگر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس جناب شوکت صدّیقی کے سوموٹو ایکشن اور ریاستی دانشور جناب اوریا مقبول جان اور ڈاکٹر عامر لیاقت کے متحرّک ہونے کے بعد مورخہ 24 مارچ ،2017 کو مزید 24 سوشل میڈیا بلاگرز کو توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا، اور انکشاف کیا گیا کہ ان مشتبہ افراد میں ایک دیو بندی مولانا عبدالوحید کو بھی گرفتار کیا گیا ہے، جو کہ سوشل میڈیا پر “ایاز نظامی ” کے فرضی نام سے الحاد کی تبلیغ اور توہین مذہب میں ملوّث تھا۔
میں ایک آزاد فکر، خرد مند اور ریشنلسٹ شخص ہوں۔ مجھے مذہب سے کبھی بھی کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ حالانکہ میں ایک دیندار گھرانے میں پیدا ہوا ہوں۔ مگر بچپن ہی سے مجھے مذہبی عبادات اور عقائد کی کتابوں کے مطالعے سے بے رغبتی اور سائنسی اور فنّی علوم کی کتابوں سے دلچسپی رہی ہے۔ تیسری جماعت میں تھا تو آٹھویں جماعت تک کی سائنس کی تمام درسی کتابیں پڑھ کر محدّب عدسے اور آئینے کی مدد سے سینما پروجیکٹر اور برقی مقناطیس بنا چکا تھا۔ آٹھویں جماعت تک کرسٹل ڈایوڈ ، ارتھ اور ایرئیل کے امتزاج سے سنگل بینڈ ریڈیو اور کباڑی سے حاصل کئے گئے تانبے کے تاروں کی مدد سے بیٹری سیل کی مدد سے چلنے والی موٹر بھی بغیر کسی مدد کے صرف مطالعہ کی مدد سے ہی بنائی تھی۔
مذہب کبھی بھی میرا میدان نہیں رہاہے، ہمیشہ جستجو اور کھوج یعنی تحقیق کی عادت رہی ہے۔ اس ہی وجہ سے انجینئرنگ اور اطلاقی کیمیاء میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، ساری زندگی عملی سائنس اور ڈیزائن انجینئرنگ کے شعبہ سے دلچسپی اور وابستگی رہی۔ والدہ اردو ادب سے وابستہ تھیں ،اس لئے سائنس اور ٹیکنالوجی کے بعد سب سے زیادہ مزا اردو ادب، تاریخ اور سوشل سائنسز میں آتا تھا۔
میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ کائنات میں موجود تمام مظاہر پر غور و فکر کیا جاسکتا ہے، ہر موضوع کو زیربحث لایا جاسکتا ہے۔ ان پر فکری اور علمی سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں اور ہر سمجھ میں نہ آنے والی چیز کا منطقی جواز تلاش کیا جاسکتا ہے۔ نقد ونظر یعنی تنقید و جائزہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ میں ذہنی جمود کو فکری موت اور انسانی ترقّی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تصوّر کرتا ہوں۔میرا ایمان ہے، کہ تنقیدی سوچ کے بغیر، انسانی ذہن نہ ترقی کرسکتا ہے، نہ نئے خیالات، نہ نئے افکارات، ، نہ نیا انداز فکر اورنہ نئی راہ سوچ سکتا ہے۔
میں پیچھے کی طرف نہیں، بلکہ آگے کی طرف دیکھنے اور سوچنے کوپسند کرتا ہوں۔ میرے تمام خیالات، نظریات، لچک دارہیں، اور قابل تغیرہیں، ان کے مقابلے میں جو لوگ کٹ ملّائیت ، سخت گیری، غیرلچک دار عقائد رکھتے ہیں، وہ معاشرے کے لئے زہرِ قاتل اور انسانی و سماجی ترقّی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
میری نظر میں مذہبی عقائد او رمذہبی مسائل پر تنقیدی گفتگو کی جاسکتی ہے۔ سمجھ میں نہ آنے والے عقائد کا منطقی اور فکری جواز تلاش کیا جاسکتا ہے۔ مذہب کے بارے میں سوال اٹھانے کو ہرگز جرم تصوّر نہیں کیا جاسکتا۔ میرا پیدائشی مذہب اسلام ہے، اور وہ مجھے سوال اٹھانے اور غور و فکر کی آزادی دیتا ہے۔
مذہب اگر سچّا ہوگا تو اپنا دفاع خود کرے گا۔ دنیا کے سارے مذاہب ہمیشہ سے ہی تنقید کی زد میں رہتے ہیں، کیونکہ مذہبی تعلیمات جامد اور ساکت ہوتی ہیں، جب کہ انسانی شعور و علم ترقّی کرتا رہتا ہے، خیالات اور افکار تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ کسی بھی مذہب کو سوال اٹھانے اور تنقید سے مبرّا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ رسولِ مقبول کے زمانے میں بھی مذہب اسلام تنقید کی زد میں رہتا تھا، لوگ رسول مقبول سے سوالات بھی کرتے تھے، جو مطمئن ہوجاتے تھے، ایمان لے آتے تھے، جو مطمئن نہیں ہوتے تھے، اپنے عقائد پر قائم رہتے تھے۔ رسولِ مقبول کسی کی گردن نہیں کاٹتے تھے۔
اب 1400 سال قبل کا زمانہ نہیں رہا، یہ علم و فن کے عروج کا دور ہے، نِت نئی سائنسی تحقیقات سامنے آرہی ہیں، جو مذہبی عقائد سے اختلاف کررہی ہیں، ایسے میں اگر سائنس و ٹیکنالوجی کے حصول کے ذریعے انسانی و معاشرتی ترقّی کی بجائے ہم اپنے عقائد کی بناء پر سوچ و فکر پر پابندی عاید کردیں گے تو، ہم واقعی ترقّیِ معکوس کا سفر طےکرتے ہوئے 1400 سال پہلے کے زمانے میں پہنچ کر جدیدٹرانسپورٹ کی بجائے اونٹ گدھے اور خچر کی سواریوں پر سفر، بجلی کے بلب کی بجائے نورِ ایمانی سے گھروں کو منوّر ، ادویات کی بجائے کلونجی ، دم درود، دعا تعویز سے علاج، انٹرنیٹ کی بجائے ملائکہ کے ذریعے روابط، جدید سائنسی علوم کی بجائےضعیف احادیث پر عمل کرتے ہوئے، ٹخنے سے اوپر شلوار، ہاتھ میں مسواک، سر میں تیل اور آنکھوں میں سرما لگائے پوری دنیا میں تحقیر اور پسماندگی کی علامت بنے ہونگے۔
اسلام امن کا دین ہے، رسول مقبول، خاتم المرسلین تمام انسانیت کے لئے رحمت بناکر بھیجے گئے تھے۔ رسولِ مقبول کے اوصافِ حمیدہ ساری انسانیت کے لئے مشعل راہ ہیں۔ رسولِ مقبول رِحمت العالمین ہیں ۔ انہیں زِحمت العالمین نہ بنایا جائے۔
کسی بے گناہ کو توہینِ مذہب کی آڑ میں موت کے گھاٹ نہ اتارا جائے، اسلام ایک سچّا مذہب ہے، ہر قسم کی توہین سے ماوراء ہے۔ اللہّ اور رسول کی ذات آفاقی ہے، اس کا کسی پر اجارہ نہیں، اللہّ نے رسولِ مقبول کو آخری نبی قرار دے کر، بعد میں آنے والوں پر دینِ اسلام کی ٹھیکیداری بھی ختم کردی ہے۔ آپ بھی یہ خود ساختہ ٹھیکہ داری ختم کردیں۔ لوگوں کو اسلام کی امن پسند تعلیمات پر عمل کرنے کا موقع دیں۔ دینِ اسلام پر آپ کا جارہ نہیں ہے، اگر ہے تو اجارہ داری کی سند دکھائیے، ورنہ یہ گستاخ گستاخ کا کھیل بند کیجئے۔ وما علینا الالبلاغ۔ اپنی اصل آئی ڈی کے ساتھ ٹورونٹو، کینیڈا سےآصف جاوید، بقلم خود
♦
7 Comments