نصرت جاوید
پاکستان سے محبت اور اسے ”تباہ“ کرنے والے سیاست دانوں سے شدید نفرت میں مبتلا لوگ ان دنوں بہت مضطرب دکھائی دے رہے ہیں۔اصل غصہ انہیں اس بات پر ہے کہ سپریم کورٹ نے ابھی تک پانامہ کے بارے میں اپنا فیصلہ سناکر نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے فارغ نہیں کیا۔ایسا ہوجائے تو موصوف کی گرفتاری کے بندوبست کی راہ بنائی جائے گی تاکہ وہ اپنی جان بچانے کے لئے چند کاغذات پر دستخط کردیں۔ یہ دستخط ہوجائیں تو ”قوم کی لوٹی ہوئی دولت“ ریاستی خزانے میں واپس آجائے گی۔ہمیں ٹیکس دینے اور غیر ملکی قرضے لینے کی مصیبت اور اذیت سے نجات مل جائے گی۔
محاورے کے مطابق لیکن اگر گدھی پر سے گرجاؤ تو غصہ اس کا بے چارے کمہار پر نکالا جاتا ہے۔نجانے کس جرم کی بناءپر مجھے بھی ایسا ہی ایک ”کمہار“بنادیا گیا ہے۔صبح اُٹھ کر اپنا ٹویٹر اکاؤنٹ کھولتا ہوں توتازہ بنے اکاونٹس سے گالیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ایسے اکاونٹس سے ابھی تک جو 8 یا دس پیغامات بھیجے گئے ہوتے ہیں وہ صرف میرے نام ہی ہوتے ہیں۔
مجھ کو اگر ٹویٹس کے ذریعے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے توانہیں عادتاً ری ٹویٹس کر دیا کرتا ہوں تاکہ ”مشتری ہوشیار“ہوجائے۔میری تحریر پڑھتے ہوئے قارئین کے ذہن میں یہ بات موجود رہے کہ میں ایک بکاؤ سٹیٹس کو کا حامی لکھاری ہوں۔میری بدقسمتی کہ گزشتہ چند دنوں سے انڈوں سے برآمد ہوتے ٹویٹس مغلظات سے بھرتے ہوتے ہیں۔انہیں ری ٹویٹ کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔
مغلظات،ایماند داری کی بات ہے،مجھے ذاتی طورپر حیران وپریشان ہرگز نہیں کرتیں۔بارہ دروازے اور ایک موری والے قدیمی لاہور کی گلیوں کا فرزند ہوں۔افسوس صرف اس بات پر ہوتا ہے کہ پنجابی زبان میں دی گئی بے ساختہ گالی میں جوشدت ہوتی ہے اسے انٹرنیٹ کے ذریعے ہمارے سماج کو سدھارنے کی مشقت میں مبتلا ٹورال ( کارٹون )اپنی خام انگریزی کے ذریعے بیان نہیں کرسکتے۔لطف نہیں آتا۔وطن عزیز میں تخلیقی اذہان کی معدومیت کے بارے میں فکر کرنے پر مجبور ہوجاتا ہوں۔
سپریم کورٹ کے پانامہ پر فیصلہ کے انتظار کی اذیت سے تنگ آئے محب الوطن پاکستانیوں کا دل بہلانے کے لئے حسین حقانی نے ”واشنگٹن پوسٹ“کے لئے ایک مضمون لکھ دیا تو کچھ سکون ملا۔اس مضمون کے چھپنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ ہمارے ہاں قومی سلامتی کو یقینی بنانے والے ادارے ہمیشہ متحرک ہواکرتے ہیں۔
شاید ہمارے ہاں ایک وزارتِ خارجہ بھی ہے۔کسی حکمران یا اس کے چہیتے یا لگائے سفیر کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ ان اداروں کو نظرانداز کرتے ہوئے دشمن ممالک کا سہولت کار بن جائے۔یہ اطلاع پانے کے بعددل میرا بہت شاد ہوگیا تھا۔یہ سوچ کر بہت طمانیت محسوس ہوئی کہ پاکستان کی سلامتی سے جڑے امور مستعد نگہبانی میں نبٹائے جارہے ہیں۔
اسی قلب اطمینان کے ساتھ اتوار کی صبح اپنے بستر پر موجود اخبارات کے بھاری بھرکم پلندے کو چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے ختم کرنا چاہا۔اخبارات کے خبروںو الے صفحات ختم کرنے کے بعد باری آئی اتوار کے روز چھپے میگزین کی۔انہیں اُٹھایا تو نظر”ڈان“ کے میگزین میں چھپے ایک مضمون پر رُک گئی۔
اس کا عنوان تھا “جب دو فوجی ملتے ہیں”۔یہ مضمون درحقیقت ایک طویل اقتباس ہے اس کتاب سے جو بھارتی پنجاب کے حال ہی میں ایک بارپھر وزیر اعلیٰ منتخب ہونے والے امریندرسنگھ کے بارے میں مشہور صحافی خشونت سنگھ نے لکھی تھی۔
اقتباس کا آغاز اس ملاقات سے ہوتا ہے جو پاکستان کے سابق صدرجنرل مشرف کی 15مارچ 2005ءکے روز امریندر سنگھ سے ہوئی تھی۔جنرل نے ملاقات کے لئے بیٹھتے ہی بھارتی فوج سے ریٹائرہوئے اس کپتان کو کہا کہ ”مجھے امید ہے کہ 1965ءکی جنگ میں ہم نے ایک دوسرے پر گولیاں نہیں برسائی تھیں“۔
امریندر سنگھ نے خوش دلی سے ہمارے جنرل کو یہ بتاکر اطمینان دلایا کہ مشرف 1965ءکی جنگ کے دوران سیالکوٹ میں تعینات تھے جبکہ کپتان ان دنوں چندی گڑھ میں بیٹھے ایک جنرل کا سٹاف آفیسر تھا۔سیالکوٹ کے محاذ پر البتہ اس کا ایک بہنوئی ضرور تعینات تھا۔میجر کنول جیت سنگھ اس کا نام تھا۔وہ اس جنگ کے دوران ایک ٹانگ سے محروم ہوگیا تھا۔”شاید آپ کے ہاتھوں“امریندر سنگھ نے کہا اور جنرل مشرف نے پر زور قہقہہ لگاکر اس امکان کو رد کردیا۔
دونوں فوجیوں کے درمیان کھلی ڈلی باتوں کے اس ماحول میں امریندر سنگھ نے بالآخر جنرل صاحب کو بتایا کہ وہ ایک فریاد لے کر آیا ہے۔اس کے ہاتھ میں 83بھارتیوں کی فہرست تھی جو غیر قانونی طورپر پاکستان آنے کے جرم میں اس وقت جیلوں میں بند تھے۔انہوں نے امریندرسنگھ کے بقول اپنی سزا بھی مکمل کرلی تھی۔اب وہ ان کی رہائی کی فریاد لے کر آیا تھا۔
جنرل مشر ف نے یہ فریاد سنتے ہی امریندر سنگھ سے وہ فہرست طلب کی۔اس پر سرسری نظر ڈالی اور اپنے سٹاف کو حکم دیا کہ ان کی فی الفور رہائی کا بندوبست کیا جائے۔یہ حکم دینے کے بعد جنرل مشرف نے امریندر سنگھ سے دریافت کیا کہ وہ اپنے وطن واپس کب لوٹ رہا ہے۔امریندر سنگھ نے بتایا کہ اس کی واپسی 17مارچ کو بذریعہ واہگہ بارڈر ہوگی۔
یہ بات سننے کے بعد جنر ل مشرف نے دوبارہ اپنے سٹاف سے رابطہ کرکے حکم صادر کیا کہ مطلوبہ قیدیوں کو رہائی کے بعد امریندر سنگھ کی قیادت میں بھارت بھیجنے کا بندوبست بھی کیا جائے۔اسلام آباد میں تعینات چند بھارتی سفارت کار اس فیصلے کے بعد فوراً لاہور روانہ کر دیئے گئے۔
انہوں نے پوری رات جاگ کر پنجاب کے ہوم سیکرٹری کے ہمراہ بیٹھ کر مطلوبہ قیدیوں کی فہرست مرتب کی۔یہ فہرست مرتب کرتے ہوئے انکشاف یہ بھی ہوا کہ کوٹ لکھپت جیل میں بھارتی ماہی گیروں کی ایک کثیر تعداد،550،بھی موجود ہے۔جنرل صاحب کو ان کے بارے میں بتایا گیا تو ان کی رہائی کے احکامات بھی صادر فرمادئیے گئے۔
جنرل مشرف اور امریندر سنگھ کے مابین ہوئی اس ملاقات کے ٹھیک 48گھنٹوں کے بعد 633بھارتی قیدی امریندر سنگھ کے ہمراہ بھارت بھیج دئیے گئے۔نظر بظاہر اس ”بادشاہی“فیصلے پر ہمارے قومی سلامتی کے کسی ادارے یا وزارتِ خارجہ میں بیٹھے کسی مستعد محب الوطن نے اپنے تحفظات کا اظہار نہیں کیا۔بلاچوں چراں وہ سب کیا جو مزاجِ شاہ میں آیا۔
مذکورہ مضمون پڑھتے ہوئے مجھے خدشہ لاحق ہوا کہ امریندرسنگھ کی ”سفارت کارانہ“پھرتیوں کی تعریف کرتے ہوئے خشونت سنگھ نے پنجابی والا ”مٹھا“کہیں زیادہ نہ ڈال دیا ہو۔جنرل مشرف نے بذاتِ خود لیکن الطاف گوہر کے فرزند کے ہاتھوں اپنی ”آپ بیتی“میں یہ بھی لکھوایا ہے کہ:۔
”میں نے کیپٹن امریندر سنگھ کو ایک دوراندیش رہنما پایا۔بھارتی پنجاب کا وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے اس نے پاکستان اور بھارت کے درمیان دیرپا امن کے لئے بے تحاشہ کوششیں کیں“۔جنرل مشرف نے دہرے اطمینان کے ساتھ یہ بھی کہا کہ امریندر سنگھ ایک معقول آدمی ہے جس نے پاکستانی اور بھارتی پنجاب کے درمیان روابط بڑھانے کے لئے دن رات کام کیا۔وہ چاہتا تھا کہ دونوں پنجاب تجارت، کھیلوں اور یاتریوں کے ایک دوسرے کے ہاں آمدورفت کی آسان سہولت کے ذریعے ایک دوسرے کے قریب لائے جائیں۔یہ بات تو عیاں ہے کہ پاکستان کا طاقتور ترین صدر ہوتے ہوئے جنرل مشرف نے امریندر سنگھ کو اپنا ”مشن“مکمل کرنے کے ضمن میں تمام تر آسانیاں فراہم کرنے کی کوشش کی۔
جنرل صاحب جب یہ ”آسانیاں“فراہم کررہے تھے تو لطیف ( یا غفور) نام کا کوئی افسر بلبلاتا نہیں پایا گیا۔مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ ایسے افسر صرف اس وقت کیوں چراغ پا ہوجاتے ہیں جب عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوا کوئی صدر یا وزیر اعظم بھی مشرف صاحب کی طرح کوئی ویژنری سفارت کارانہ پیش قدمی کی جرات کربیٹھتا ہے۔
یہ سب لکھنے کے بعد اچانک خیال آگیا کہ پاکستان کی محبت میں مبتلا اور اسے ”تباہ“ کرنے والے سیاست دانوں سے نفرت میں مبتلا لوگ میرا یہ کالم پڑھ کر نئے اکاؤنٹس بنانے کے بعد مجھے ٹویٹس کے ذریعے مغلظات سے نہ نوازیں تو کیا کریں۔میں بھی تو ”پنگے“ لینے سے باز نہیں آتا۔
بشکریہ: نوائے وقت