ایمل خٹک
اگر ملک قسماقسم بحرانوں کا شکار ہے تو پاکستان کی سیاسی جماعتیں بھی بحرانوں کی زد میں ہے ۔ بظاہر تو سب ٹھیک چل رہا ہے مگر یہ جماعتیں تین قسم کے یعنی نظریاتی، تنظیمی اور لیڈرشپ کے بحرانوں کا شکار ہے. جس کی وجہ سے ان سیاسی تحریکوں پر جمود طاری ہے۔ ان کے بڑے بڑے جلسے ، جلوس اور مظاہرے ایک طرف مگر اندرون جماعت بڑھتے ہوئے اختلافات ، گروہ بندیاں اور کشمکش اور کارکنوں میں بیزاری اور عدم دلچسپی حالات کی سنگینی کا اشارہ دے رہی ہے۔
یہ سیاسی تحریکیں نہ صرف نئے سیاسی اور سماجی تبدیلیوں اور ان تبدیلیوں کی نوعیت اور حرکیات کو سمجھنے بلکہ اس کی روشنی میں اپنے منشور یا پروگرام کو اپ ڈیٹ کرنے سے بھی قاصر ہیں ۔ جہاں تک قوم پرست جماعتوں کا تعلق ہے تو ان کے منشور یا پروگرام اپنے روایتی پاور بیس جو اب کمزور ہو رہا ہے کے علاوہ غیر روایتی اور نئے حلقوں کو اپیل کرنے سے قاصر ہیں۔ ساٹھ یا ستر یا اسی کی دھائی کے استعاروں ، مثالوں اور دلائل میں نئے دور کے نوجوانوں کیلئے کوئی چاشنی یعنی اپیل نہیں رہی۔ شخصیت پرستی کا سحر یا سیاسی پیری مریدی یا قبائلی وابستگیاں زیادہ دیر چلنے والی نہیں۔ ان سیاسی تحریکوں کی پاور ڈائنامکس ، ساخت بلکہ کسی حد تک نظریاتی سمت میں بھی کافی تبدیلی آئی ہے۔
اندرونی بحرانوں کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کی سیاسی اور نظریاتی بنیاد کمزور ہو رہی ہے اور اس میں مادہ پرستی، مفاد پرستی ، اقربا پروری اور بدعنوانی کی جراثیم پھیل رہے ہے ۔ اندرونی بحرانوں کی ایک وجہ پارٹی سربراہ کے خاندان کے دیگر افراد کا جماعتی معاملات میں بیجا مداخلت یا جماعتی پالیسیوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش بھی ہے ۔ کچھ سیاسی جماعتیں اس عمل سے کئ سال پہلے گزرچکی ہے جبکہ بعض اس عمل سے گزر رہی ہے ۔
اس عمل کے دوران نظریاتی کارکنوں اور شاہی خاندان ( پارٹی سربراہ کے خاندان کے افراد ) میں اندرونی کشمکش بڑھ جاتی ہے ۔ پارٹی آئین مذاق بن جاتا ہے اور نظریاتی کارکنوں کی جگہ زاتی وفاداروں کو آگے لایا جاتا ہے۔ پارٹی کو ذاتی جاگیر سمجھنا یا کارکنوں کو مزارع سمجھنا یا ان کے ساتھ مزارعوں جیسا سلوک اورروئے عام ہوجاتے ہے۔ اس جاگیردارانہ ذہنیت یا رویوں سے یعنی پارٹی کو زاتی جاگیر سمجھنے کی وجہ سے ان کی اصولی سیاست کو گرہن لگ جاتا ہے اور اپنے اور پرائے دونوں جانب سے ان پر اقربا پروری یعنی رشتہ داروں میں جماعتی اور سرکاری عہدے بانٹنے کی وجہ سے تنقید بڑھ جاتی ہے ۔
شخصیات کے کردار اور اہمیت سے انکار نہیں مگر ان سیاسی تحریکوں کے ابھرنے اور ترقی میں عوام یعنی مخلص کارکنوں کی بے پناہ قربانیاں اور انتھک محنت بھی شامل ہوتی ہے مگر آھستہ آھستہ مفادی حلقے ، پیروکاروں کی اندھی عقیدت اور احترام ان تحریکوں کو موروثی جاگیروں میں تبدیل کرا لیتی ہے۔ ان تحریکوں کی قیادت اور کارکن دونوں اس کے عمل کے یکساں طور پر ذمہ دار ہے ۔ قیادت نے کبھی اپنے قریبی رشتہ داروں کو اہم جماعتی اور حکومتی عہدے لینے کی مخالفت نہیں کی بلکہ ان کو آگے لانے کےلئے شعوری کوشش کرتے رہے ہیں ۔ کئی اہم عہدوں کیلئے بعض اوقات یا تو جونئیر ترین رشتہ دار کو جماعت کے سینیر ترین اور تجربہ کار راہنماوں پر فوقیت دی جاتی اور یا معمر ترین خاندانی فرد کیلئے پارٹی کے جسمانی اور ذہنی طور پر فعال راہنماوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے ۔
چونکہ اہلیت کا معیار پارٹی میں خدمات یا قربانیاں نہیں بلکہ خاندانی تعلق ہوتا ہے اسلئے ایسی چیزیں پارٹی میں بے چینی اور بے اطمینانی کا باعث بنتی ہے ۔ اس کا ایک منفی اثر یہ ہوتا ہے کہ جماعت کی مختلف تنظیمی سطحوں پر اوپر سے نیچے تک موروثی سیاست وجود میں آجاتی ہے ۔ دیگر چھوٹے بڑے راہنماوں کو بھی شہہ ملتی ہے موقع ملتا ہے کہ وہ بھی اپنے رشتہ داروں کو آگے لائیں ۔ اس طرح جماعتی وجود میں موروثی سیاست سرطان کی بیماری کی طرح پھیلنا شروع ہوجاتا ہے ۔
زیادہ تر کیسوں میں موروثی سیاستدان نہ تو اپنے پیشرؤں کی طرح با اصول سیاست ، خلوص اور ایمانداری کے پیکر ہوتے ہے اور نہ ان کی طرح سادگی اور متانت پر یقین رکھتے ہے اسلئے وہ اپنی شان و شوکت اور سماجی اور سیاسی اثرورسوخ کا مظاہرہ کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ لیڈرشپ کے ایک اچھے خاصے حصے کا طبقہ تبدیل ہوگیا ہے اور ان کے رہن سہن کا انداز بدل گیا ہے۔
اسلئے عام اور غریب کارکنوں کی بجائے ان کا اٹھنا بیٹھنا اب مالدار اور صاحب ثروت لوگوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ اور کارکنوں کی نسبت صاحب ثروت لوگوں کی لیڈرشپ تک رسائی بڑھ گئی ہے ۔ اب بہت سے کیسوں میں چوکیدار ، پہرہ دار اور پرسنل سیکریٹری کارکنوں اور لیڈرشپ کی راہ میں حائل ہو رہے ہیں ۔
موروثی سیاستدانوں کے اردگرد عموما ذاتی وفاداروں کا ایک حلقہ جو زیادہ تر مفاد پرست افراد پر مشتمل ہوتا ہے بھی وجود میں آجاتا ہے۔ یہ مفاد پرست ٹولہ بعض اوقات رہنما کی خوشنودی اور بعض اوقات ان کی ایما اور آشیرواد سے پارٹی کے اندر مخالفین کی کردار کشی کرتے ہیں اور ان پر بے سراپا الزامات لگانے سے گریز نہیں کرتے۔ ذاتی وفاداروں کی ایک پہچان یہ ہوتی ہے ان کی تنقید سیاسی سے زیادہ ذاتیات پر مبنی ہوتی ہے ۔ سینیر قائدین اور دیرینہ کارکنوں کے خلاف بازاری اور غلیظ زبان کا استعمال ان کا خاصہ ہوتا ہے۔ مفاد پرست خوشامدی اور چاپلوس عناصر کے علاوہ کچھ مخلص کارکن بھی جذباتیت کا شکار ہوکر ذاتیات پر اتر آتے ہیں ۔ مگر کارکن یہ سب کچھ عقیدت، احترام اور سادہ لوحی کی وجہ سے کرتے ہے جبکہ مفاد پرست عناصر کا عمل شعوری اور مادی مفادات کے حصول کیلئے ہوتا ہے۔
دوسری پہچان یہ ہے کہ مفاد پرست عناصر ہر نظریاتی کارکن کی پارٹی سے ناراضگی اور دوری کو پارٹی کیلئے فائدہ مند ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ اس عمل کو پارٹی کی صفائی سے تعبیر کرتے ہے جبکہ کارکن ساتھیوں کو کھونے پر ناراض ہوتےہیں ۔ اختلاف نظر کا احترام سیاست اور جمہوریت کا خاصہ ہے مگرمفاد پرست عناصر اس کو نہ تو پارٹی کے اندر اور نہ باہر برداشت کرتے ہیں ۔ اختلاف نظر کو ذاتی دشمنی سمجھنے کی روش عام ہے ۔
ہر بحران کے بعد دعوے تو یہ کئے جاتے ہیں کہ تحریک زیادہ مضبوط ہو کر ابھری ہے مگر عملا جمہوری اقدار کمزور سے کمزور ہوتی جاتی ہیں کیونکہ صاحب الرائے شخصیات کے نکلنے سے پارٹی کی نظریاتی سیاست اور سمت کمزور اور شخصیت پرستی کا عنصر مضبوط ہوجاتا ہے ۔ جو تحریکوں میں سیاسی اور نظریاتی جمود کا باعث بنتی ہے ۔ اب پیروکاروں کو ایک ریوڑ کی طرح ہانکا جاتا ہے ۔ بہت سی وجوہات کی وجہ سے ان تحریکوں میں ایک طرف صاحب الرائے نظریاتی راہنماوں اور کارکنوں کا اثر کم ہوتا جارہا ہے وہ یا تو ضعیف العمر ہوتے جارہے ہے یا نکلتے جارہے یا غیر موثر بنتے یا بنائے جارہے ہیں اور ان کی تعداد سکڑتی جارہی ہے۔
دوسری طرف بانی تحریک کے خاندان کی نئ نسلیں جماعتی امور پر اثرانداز ہونا شروع ہوگئے ہے اور وہ اپنے آپ کو تحریک کے سیاسی اور نظریاتی ورثے کے اصل وارث ، متولی اور نگہبان پیش کر رہے ہیں ۔ شخصیت پرستی کے سحر میں گرفتار پیروکاروں کیلئے راہنما کی ہر بات سچی اوردرست لگتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی شاہی خاندانوں میں بھی اقتدار کی جنگ شروع ہوجاتی ہے اور وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوجاتے ہیں اور ہر فرد دوسرے کو منحرف اور اپنے آپ کو درست وارث ثابت کرنے میں لگ جاتا ہے۔ یہ سیاست کی حرکیات ہے اور ایک ایک کرکے وہ تمام جماعتیں جس کو موروثی سیاست کی بیماری لگ چکی ہے آگے پیچھے اس عمل سے گزرے گی اور گزر رہی ہے ۔
جنوبی ایشیا کے عمومی درباری کلچر میں بادشاہ کو معصوم جبکہ اس کے وزیروں اور مشیروں کو بادشاہ کے غلط کاموں اور غلطیوں کا قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہی سوچ ہمارے سیاسی کلچر میں بھی عود آئی ہے۔ کہ راہنما تو خود اچھا ہے مگر اس کے مشیر اور حواری ان کو غلط کرتے ہے جبکہ حقیقت میں راہنما ہی اصل ذمہ دار ہے جو یا تو کانوں کا کچا ہوتا ہے اور یا اپنے خاندان کے افراد اور اپنے حواریوں کے سامنے اتنا بے بس ہوتا ہے کہ ان کی غلط بات کہنے اور کرنے پر ان کی حوصلہ شکنی نہیں کرسکتے۔ پارٹی سربراہ کی اس کے خاندان کے دیگر افراد کی پارٹی کے اندرونی معاملات میں مداخلت پر خاموشی یا اسے نظرانداز کرنا بھی خاموشی یا نیم رضامندی کے مترادف ہوتا ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں بشمول قوم پرستوں کے کو موروثی سیاست کی بیماری لگ چکی ہے۔ البتہ اس بیماری کی شدت کا اندازہ چار باتوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ ایک پیمانہ یہ ہے کہ موروثی سیاست کی شکار جماعت میں عام راہنما اور موروثی سیاستدان کی عزت ، مقام اور پروٹوکول میں فرق کتنا ہے۔ راہنما کے خاندان کے افراد چاہے وہ کتنے نوجوان ، نا تجربہ کار یا پارٹی امور میں نووارد یا زائد عمر کیوں نہ ہوں کی دیگر آزمودہ کار اور سینئر کارکنوں کی نسبت اہمیت اور حیثیت زیادہ ہوتی ہے۔ دوسرا پارٹی اور سرکاری عہدوں کی تقسیم میں خاندانی افراد کو دیگر کارکنوں اور راہنماوں پر کس حد تک فوقیت اور ترجیح دی جاتی ہے۔ آیا اہم سرکاری اور پارٹی عہدے اکثر خاندان کے افراد یا دیگر راہنماوں کو دیے جاتے ہیں ۔
تیسرا پیمانہ یہ ہے کہ خاندان کو کتنے وسیع معنوں میں لیا جا رہا ہے آیا یہ صرف اس کے اپنے خاندان یعنی راہنما کے بہن بھائیوں ، بیٹا ، بیٹی اور نواسوں تک محدود ہے یا اس میں چاچا ، ماموں اور دیگر قریبی رشتہ داروں کے علاوہ داماد ہم زلف اور سسرالی خاندان کے دیگر افراد کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اور چوتھا پیمانہ یہ ہے کہ پارٹی میں بانی خاندان کے علاوہ اور کتنے موروثی سیاسی خاندان بن چکے ہیں یا بننے کا عمل جاری ہے۔
اگر کسی سیاسی جماعت میں یہ تمام چار چیزیں موجود ہوں تو پھر اس جماعت میں جمہوریت اور جمہوری کلچر کی بات ایسی ہوگی جیسے کسی سخت مذہبی اور انتہاپسند جماعت میں سیکولر ازم کی بات۔ سیاسی کارکن دل پشوری کرنے کیلئے اپنے آپ کو سیاسی یا جمہوری یا نظریاتی جماعت کہہ سکتے ہیں ۔ بقول شخصے کہ کہنے میں کیا حرج ہے ۔
موروثی سیاست کے مضر اثرات سے بچنے کیلئے پارٹی کے آئین پر سختی سے عملدرآمد اور میرٹ کی بالادستی ہونی چائیے مثلا جماعتی اور سرکاری عہدوں کیلئے فیصلے تحریک کے وسیع تر مفاد اور تحریک کیلئے خدمات ، وابستگی اور تجربے کی بنیاد پر ہونا چائیے نہ کہ خاندانی مفاد میں ۔
سیاسی تحریکوں میں شخصیات کے کردار سے انکار نہیں کسی شخصیت کو اپنا آئیڈیل یا رول ماڈل ماننا کوئی بری بات نہیں مگر شخصیات کی پوجا تحریکوں کیلئے نقصان دہ عمل ہوتا ہے ۔ اہم فیصلے کچن کیبنٹ جو عموما چند ہم خیال ساتھیوں اور خاندان کے افراد پر مشتمل ہوتا ہے کی بجائے پالیسی ساز فورموں میں ہونے چائیں ۔ فورمز کے اجلاس باقاعدگی اور فیصلہ سازی کا عمل واقعی ایک حقیقی مشاورتی عمل ہونا چائیے نہ کہ کچن کیبنٹ کے فیصلوں کی منظوری کیلئے کاغذی کاروائی۔
♠