ملک سانول رضا
سندھ دھرتی پر پہلا کمیون سماج قائم کرنے والے شاہ عنایت شہید کی زندگی پہ ڈاکٹر شاہ محمد مری کی کتاب کے اہم حصے قارئین کی نذر کرتے ہیں:۔
“بے علمی کے مزے بڑے ہیں اور علم کے جنجال بہت۔جنجالوں بھرے روشن فکر خیالات کے نور نے پچھلی صدی کی آخری چوتھائی میں مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ تب جس دنیا سے میں روشناس ہوا وہاں وہی بڑے بڑے انقلابات کا تذکرہ تھا جو یورپی لوگوں کے لئے اہم تھے اور جو یورپی انقلابی سکالروں نے لکھے تھے ۔ مشرقی بلوغت نابالغ بلاغت کے ہاتھوں ہمیشہ پس ماندہ رہی۔ بڑھاپے میں جا کر معلوم ہوا کہ اکتوبر انقلاب حتی کہ انقلاب فرانس سے بھی بہت پہلے میری آئیڈیل دنیا کی تعمیر شروع ہو چکی تھی، یہیں ایشیا میں.”
“میرے اپنے وطن بلوچستان میں ایک کسان تحریک “جھالاریں کرخا” 1574 میں چلی تھی اتنی بڑی کہ یہ تحریک سندھ تک پھیل گئی. سومار خان اس تحریک کا لیڈر تھا۔ اس طرح میں نے دیکھا کہ میرے سفر کے سنگ ھائے میل میں شاہ عنایت شھید کا خون بھی شامل تھا“
“شاہ عنایت کوئی بے عمل اور تارک الدنیا شخص نہ تھا وہ تو ایک یوٹوپیائی کیمونسٹ تھا جس نے باقاعدہ ایک کمیون قائم کر دیا تھا اور مساوات پہ مبنی اس کمیون جی حفاظت کرتے ہوئے جان دی تھی. اس کی اصل جگہ تو منصفانہ نظام کی جدوجہد کرنے والوں کے دل اور دماغ میں ہیں۔ اسے مادام تساؤ کے انبار خانے کے حوالے نہیں کیا جا سکتا جہاں ہر ایرے غیرے کو ہیرو اور ہر پرندے کو ہنس بنا کر پیش کیا جاتا ہے“
“ہمیں ہماری تاریخ سے اکھاڑ پھینکا گیا ہے ہم جو ایک درخشاں تاریخ کے مالک ہیں۔ ہمارا خطہ اپنی زرخیز زمین بھر پور چاروں موسموں اور محنتی انسانوں کی وجہ سے ہر دم حرکت اور ہلچل کا مرکز رہا ہے۔ دور کے قلم کار و محققین نے گزشتہ تین چار صدیوں سے بہت فعال طور پر اپنے ہاں کی انسانی سرگرمیوں کو قلم بند و فلم بند اور انٹرنیٹ بند کیا ہے۔
اس کی مثال میں جیروالڈونسٹن 1609-1652 کی قیادت میں کسانوں کا وہ گروہ تھا جو لیولرزکے نام سے مشہور ہوا تھا اسے بھی سرکاری فوجوں کے ذریعے کچل دیا گیا تھا وہ ہمارے جھوک کمیون کی کئی گنا بڑی اور کئی گنا طویل تحریک سے چھوٹا ہونے کے باوجود دنیا بھر میں مشہور ہے چونکہ جھوک کسان تحریک ابھی تک عالمی تو کیا ہماری اپنی آنکھ سے پوشیدہ ہے یا پوشیدہ رکھی گئی ہے“۔
“شاہ عنایت شہید کی کسان تحریک ایک بالکل ہی انوکھی اور نئی تحریک تھی میرا دعوی ہے کہ یہ دنیا بھر میں کسانوں کی سب سے بڑی اور سب سے طویل چلنے والی مسلح جنگ تھی”
“سندھ بلوچستان میں بہت سے دانشور :یہاں طبقات موجود نہیں: کا ورد کرتے کرتے اور اس بہانے اپنے ہی طبقات کی خدمت کرتے کرتے بوڑھے ہو چکے ہیں۔ انہوں نے تو ظاہر ہے کہ دنیا کی اس سب سے بڑی جنگ کا تذکرہ نہیں کرنا تھا مگر جن لوگوں نے طبقاتی سیاست میں عمریں بتا دیں انہیں بھی اس بڑی کسان جنگ سے تقویت حاصل کرنے کا نہ سوجھا۔ اسے اون کرنے اپنے مقصد کے لئے مشعل راہ بنانے کا نہ سوجھا۔ اتنی مضبوط و گہری بنیادیں ہونے کے باوجود ایک تحریک بے بنیاد رہی۔
حیرت ہے اصلی بنیادیں ہونے کے باوجود یہ کبھی چینی کسان انقلاب کی نقالی کرتے رہے کبھی کوریا نکسلائیڈز اور کابل کی۔ یوں خارجی اجنبی اور مصنوعی بنیادیں تلاش کرتے رہنے سے ہماری تحریک خود ہی اپنی ناکامی کی قبر کھودتی رہی.”
“باپ ہوتے ہوئے ایک تحریک کو یتیم اور بن باپ کے دیکھا نہیں جا سکتا۔ تحریکیں جانداروں کی طرح ہوتی ہیں. ان کے آباؤاجداد ہوتے ہیں رسم و رواج ہوتے ہیں کامیابیوں ناکامیوں کی تاریخ ہوتی ہے. اپنی سر زمین سے اخذکردہ نعرے اور اشعار ہوتے ہیں اس لئے میں پیچھے مڑا اپنی جڑٰیں دریافت کیں اور ان دریافتوںکو ان کے اصل وارث یعنی محنت کش تحریک کے حوالے کر دیا“۔
خیر انسان دوستی کا دوسرا نام ہے مگر وہ بھلا کیسا عاشق ہو گا جسے محبوب سے تو عشق ہو مگر پھولوں پھلواریوں آبشاروں مسکراہٹوں امن اور خوشحالیوں سے پیار نہ ہو..
لہذا اگر شیطان کا تباہی تخریب کا ایجنڈا بہت متنوع ہے تو خیر کا منشور بھی بہت پھیلا ہوا ہوتا ہے. ہر بات کا غم ہر چیز پہ پریشانی اور ہر کام کا عزم۔
یہ سب ورثہ ہمارا ہے یہ ساری تاریخ ہماری ہے. اس سب کو بانہوں میں سمو کر مستقبل کا راستہ بنانا ہے اس سارے انسانی تجربے کو پھینکا نہیں جا سکتا کہ انسان کی جڑیں ہیں. بے جڑ ہونا غیر انسانی ہے اپنی جڑیں تلاش نہ کرنا غیر انسانی ہے“
“ہم سندھ کے شھر ٹھٹھہ سے 35 کلومیٹر دور کی ایک بستی کی بات کر رہے ہیں . میراں پور.. اسے جونپور کے میراں مہدی سید محمد کی نسبت سے میراں پور کہا جاتا تھا. اس پر رونق اور سر سبز بستی میں ایک انقلابی نے جنم لیا اور بستی صدیوں پرانے میراں پور کو جھوک کا نام گیا. تب سے آپ کو جھوک ہی کا نام ملے گا.
میراں پور کا نام تو تاریخی کتابوں میں رہ گیا ہے. اس جھوک (میراں پور) کو اس ایک انسان کی آمد اور جاگیرداروں کے خلاف اس کی معرکہ آرا طویل گوریلا جنگ سے اس قدر تقدیس نصیب ہوئی کہ شاہ لطیف بھی یہاں کی زیارت کرنے آیا تھا۔ دلپت صوفی. بیدل فقیر. صدیق فقیر سب اس شہیدوں کے سر تاج اور عاشقوں کے سردار کے در اقدس میں آ کر سر نیاز جھکاتے رہے ہیں. کچھ نے تو بیعت بھی یہاں سے کی.
شاہ عنایت شہید رحمتہ اللہ علیہ پیدا بھی یہیں جھوک میں ہوا تھا. 1655 اس کی پیدائش کا سال ہے اس کے والد کا نام مخدوم فضل اللہ تھا.”
“شاہ شہید کی ابتدائی تعلیم اس کے درویش منش اور عالم والد نے ہی کی. یہ زمانہ اورنگزیب عالمگیر کے چل چلاؤ کا تھا. گو کہ اورنگزیب نے تعلیمی نصاب سمیت ہر شعبہ زندگی کو بنیاد پرستی کی گہری قعر میں ڈال دیا تھا لیکن کچھ شعبے ابھی تک اس کی ضیاالحقی دست برد سے باہر تھے۔
والد نے بیٹے کو بہت جامع تعلیم دی۔ ناظرہ قرآن کے بعد اسے سعدی حافظ اور رومی کا گویا حفظ کرادیا. ان مفکروں اور عالموں کی کتابوں میں تو زندگی اور زندگی سے متعلق ساری باتیں سموئی ہوئی ہیں . یہی تو بنیادیں ہیں جن سے بچوں کو آشنا کرانا آج بھی اتنا ضروری ہے جتنا شاہ شہید کے زمانے میں ہوا کرتا تھا۔
بعد میں جب شاہ عنایت بڑا ہوا اور ایک انقلابی تحریک کا سپارٹیکس بنا تو وہاں آپ کو اس کی زندگی اور تحریک کے ایک ایک نشیب اور ایک ایک فراز میں حافظ و رومی و سعدی نظر آئیں گے”
اس زمانے کے استاد محض پہاڑے اور صرف و نحو نہیں پڑھاتے تھے اور نہ ہی فضول فرسودہ مواد نصاب میں ڈالتے تھے . اس وقت سکول کا متبادل نظام موجود نہ تھا. بس یہی ایک نصاب موجود تھا. اس کے اندر زندگی کے سارے رنگ سارے مسائل اور ان کے حل پر مشتمل باتیں شامل ہوا کرتی تھیں. استاد شاگرد کی شخصیت بنا ڈالتے تھے اور اس کی سماجی زندگی کا رخ متعین کرتے تھے. چنانچہ شیخ شمس الدین ملتانی نے اپنا سارا علم عنایت اللہ میں انڈیل دیا اور پھر اسے اگلے سٹیشن دھکیل دیا.. ھندوستان۔
شاہ عنایت ہندوستان کی سیاحت اور مختلف بزرگوں سے ملاقات کا شرف حاصل کرتے ہوئے حیدرآباد دکن میں بیجا پور کے مقام پر جا کر ٹک گیا. وہاں اس کا استاد شاہ عبدالملک بنا“
“شاہ عنایت وہاں کئی سال ٹھہرا . جسے ہم سیاسی شعور کہتے ہیں وہ شاہ عنایت کو وہیں اس استاد نے ودیعت کیا. شاہ عنایت کو ریاست ریاستی امور اور عوام الناس کی حالت کے بارے میں سیکھنے کا خوب موقع ملا. یہیں سرکاری قربت میں اسے اندازہ ہوا کہ نا برابری والا طبقاتی سماج کس قدر بے انصاف ہوتا ہے. اور یہیں اس نے اس نا انصافی ظلم جبر اور استحصال کے تدارک کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔
ہمارے ممدوح نے عبدالملک شاہ کے سائے تلے علم و تفکر کی منزلیں طے کیں. وہاں موجود علم کی سیڑھیاں چڑھیں اور اگلے پڑاؤ کے لئے مزید آگے روانہ کر دئیے گئے. مگر وہاں سے رخصت ہوتے وقت ایک خاص واقعہ رونما ہوا تھا. جس کا ذکر بہت ضروری ہے۔
ہوا یوں کہ شاہ عبدالملک نے سند اور سرٹیفیکٹ کے بطور اسے چوغہ خلعت عطا کر دئیے. مگر شاہ عنایت نے استاد کی جوہردار تلوار بھی مانگ لی. استاد نے بخوشی وہ اسے دے دی مگر ساتھ میں یہ سوال ضرور کیا کہ :فقیر! اس تحفے کو کس قیمت پر دو گے:؟ شاہ عنایت نے گردن جھکائی اور کہا :سائیں! اس کی قیمت گردن ہے: اور کسی کو کیا خبر تھی کہ اسے اس تلوار کی واقعتا اتنی بڑی قیمت چکانی پڑے گی. عالم لوگوں کا ہر فقرہ پر معانی ہوتا ہے.”
“واضح رہے کہ شاہ عنایت دس برس باہر رہ کر سندھ واپس لوٹا. اس دوران وہ بلوچستان آیا تھا. یہاں سے پھر افغانستان و ایران گیا اور پھر عراق کا مطالعاتی سفر کیا. ظاہر ہے کہ شاہ عنایت جیسے تعلیم یافتہ اور باشعور مطالعاتی اور مشاہداتی ذہن نے مزدک و مانی کی مساوات کی تحریکوں کو اپنے افق کو چھو لینے دیا ہو گا. ہند و سندھ تو وہ پہلے ہی اچھی طرح دیکھ اور پڑھ چکا تھا. یوں بدھ مت سے لیکر جین فلسفہ اور وحدت الوجود سے لیکر ایرانی سطح مرتفع کے سارے علوم پہ اسے دسترس حاصل ہو گئی. اب وہ رابعہ خضداری سے لیکر مہناز رند تک ہر بغاوت سے آگاہ و آشنا ہو چکا تھا. ان سارے علوم نے اس کے نئے فلسفے میں گندھ جانا تھا. مولانا روم کا عشق (کمٹ منٹ) تو خیر سارے مشرقی فلسفوں کی ریل گاڑی کا انجن بنا رہا۔
اسی زمانے میں سندھ کے اندر میاں دین محمد کلہوڑا ایک بڑی طاقت بن کے ابھرا تھا. اور وہ بھکر سے لیکر سبی تک کے مغل گورنروں کے لئے خطرہ بنا رہا. لڑائیوں کے لمبے سلسلے کے بعد میاں دین محمد کلہوڑا گرفتار ہو کر سال 1700 میں مغلوں کے ہاتھوں شہید کر دیا گیا. اس کے بھائی میاں یار محمد قلات بھاگ آیا اور بلوچوں کے ہاں پناہ گزیں ہو گیا. دو سال جلا وطنی کاٹ کر جب وہ سندھ لوٹا تو اورنگزیب کا زوال شروع ہو چکا تھا. اس نے قلات کے بلوچوں اور تالپر بلوچوں کی مدد سے پڑوسی قوتوں سے اپنے مقبوضہ علاقے دوبارہ حاصل کر لئے.
زوال پزیر اورنگزیب کی ماتحتی میں میاں یار محمد کلہوڑا سندھ پی بادشاہی کرنے لگا. اسکے کو مغلوں نے خدایار خان کالقب دے رکھا تھا. ( یہ حاکم بھی عجب لوگ ہوتے ہیں ایک بھائی کو قتل کرتے ہیں اور دوسرے کو تخت بھی دیتے ہیں اور خدایاری کا خطاب بھی!!!).
واضح رہے کہ سندھ کے اندر یہی کلہوڑے روحانیت میں بھی حاکم تھے. وہ پیری مریدی کے بطور قابل احترام ہوا کرتے تھے. اور جب بادشاہی بھی ملتی ہے تو ہر پیر فقیر کٹر مولوی بنتا ہے۔ چنانچہ اب ملا اور مفتی کلہوڑوں کے دست راست بن گئے تھے.
اسی یار محمد کلہوڑی نے اپبی داڑھی پہ ہاتھ پھیر کر شاہ عبایت سے وعدہ کیا تھا کہ ہمیشہ اس کا خیال رکھے گا اور ساتھ دے گا.
اورنگزیب کے عہد میں صوبے آج کی طرح کے نہ تھے. بلکہ سندھ اور بلوچستان کے میدانی زرعی علاقے اور پنجاب مالیہ اور ٹیکسوں کے تقریباٰ ایک جیسی لاٹھی سے ہانکے جاتے تھے. کلہوڑوں کے دور میں پہلی بار نہریں کھود کر دریا کے پانی پر کاشت کء ابتدا کی گئی اور دیہات میں فیوڈل ازم مضبوط بنیادوں پر ترقی کرنے لگا.
کلہوڑوں کی حکومت مغل فرمانرواؤں کو محصول ادا کرتی تھی. کسان اپنی فصل میں سے ایک مقرر مقدار لگان کے بطور ان حاکموں کو دیتا تھا. کام کاج نہ کرنے والا ویلھڑا اور سڑاند بھرا طبقہ امیروں نوابوں زمینداروں اور پیروں کی صورت میں موجود تھا. یہ طبقہ صرف اور صرف کسانوں کے استحصال پر زندہ تھا. کسان کی اس فصل میں سے جاگیردار کے علاوہ مقاطع دار ملا اور سید بھی اپنا حصہ لے جاتے تھے (باقی کیا بچتا ہو گا).”
“شاہ عنایت کے سندھ لوٹنے کے وقت فرخ سیر نامی بادشاہ 1712-1719 نزع کے عالم میں پڑی مغل ریاست کی ہلتی چولیں پکڑے بادشاہت کر رہا تھا“.
“انارکی میں تو حکومت کی تنزلی ہو جاتی ہے لوگ بے عمل ہو جاتے ہیں. سست و کاہل ہو جاتے ہیں . عمل اور زندگی کی ساری قوتیں ختم ہو جاتی ہیں سارے ماحول کا جبڑا ٹیڑھا ہو جاتا ہے. رسم و رواج اخلاق عقیدہ روبہ زوال ہوتے ہیں. سوکھے بے مہر اور لاحاصل مباحثے مناظرے عقل و خرد کا منہ چڑاتے رہتے ہیں.
شاہ عنایت تو سوچ رکھنے والا شخص تھا تفکر اسے بار بار سکھایا گیا. اور مفکر و فلسفی راسخیت کا بیخ کن ہوتا ہے.
چنانچہ عنایت نے اس سخت گیری و راسخیت اور کٹھ ملائیت سے ابھرنے والی ہر سماجی اور نفسیاتی کج روی کے خلاف اپنے فلسفے کو صف آرا کر دیا.
شاہ عنایت نے ٹھٹھہ کے مقام ہر قیام کیا. یہ اس کا شہر انتخاب اس لئے بنا کہ اس زمانے میں یہ سندھ کا بہت بڑا شہر تھا. اور بڑے شہر عالنوں دانشوروںادیبوں فقیروں اور فلسفیوں کے مرکز ہوتے ہیں اور یہیں ٹھٹھہ میں وقت کے حکمران آباد تھے.
شاہ شہید اپنے سینکڑوں ساتھیوں سمیت شہر کے قریب موجود میدان میں پڑاؤ ڈالتا ہے. ایک اجتماعی کاشتکاری کا نظام وضع کرتا ہے. واضع رہے کہ مغل نے اپنے گماشتے عجب طرح سے ترتیب دے رکھے تھے. وہ فوجی یا منتظم کو تنخواہ کے عوض جاگیر دیا کرتا تھا. یہ جاگیر ہوتی تو بادشاہ کی ملکیت میں تھی مگر یہ غیر مستقل طور پر اس وقت تک اپنے خدمت گزار کو دی جاتی تھی. جب تک کہ وہ خدمت بجا لاتا یا اس کی وفاداری داغدار نہ ہوتی اور یا پھر اس سے بہتر خدمت گزار پیدا نہ ہوتا
یہ لوگ ملاؤں پنڈتوں پیروں اور دیگر محنت نہ کرنے والوں کو بھی جاگیریں دیا کرتے تھے ان جاگیروں پر ٹیکس نہیں لیا جاتا تھا. ان جاگیروں کو مدد معاش کہا جاتا تھا.
اس سلسلے میں شاہ عنایت کے بزرگوں کو میراں پور جھوک میں بٹوری کا علاقہ دیا گیا.
شاہ عنایت کی اجتماعی کاشتکاری میں جو بھی کاشت میں حصہ لیتا پیداوار میں شریک ہو جاتا. یہیں پہ کئی لوگ اس کے فلسفے سے متاثر ہوئے اور اپنی زمین اس کمیون کے حوالے کر دی جس پر اجتماعی کاشتکاری ہونے لگی. یوں سب لوگ محنت اور فصل میں برابر کے حصے دار بنے. کمیون کے طرز پر نسائی گئی اس بستی کو دائرہ کہتے تھے. انسانی مساوات کی بنیاد پہ بسنے والی اس آبادی نے واقعتاٰ کمیون ازمکی بنیادیں ڈال دیں. (ہم انقلاب فرانس سے بھی پہلے کی بات کر رہے ہیں) ان سب نے اپنے نئے نظرئیے کا پرچار شروع کر دیا آس پاس کے استحصال شدہ لٹے ہوئے محنت کش کشاں کشاں اس اجتماعی اور برابری والے کمیون کی طرف آتے رہے اور یہ تحریک بڑھتی گئی.
بنیاد پرستی ہمیشہ افراتفری کو جنم دیتی ہے اور روشن فکری ہمیشہ اس افراتفری سے جنگ لڑتی ہے دو بدو جنگ. شاہ اس کثیرالجہتی جنگ کے لئے بہت عرصے سے تیاری کر ریا تھا. وہ اس بارے میں اذہان بنا رہا تھا. عملاٰ وہ سب کچھ کر کے دکھا رہا تھا جو موجودہ طبقاتی جابرانہ نظام کا الٹ ہو. عوام دیکھ رہے تھے چکھ رہے تھے سمجھ رہے تھے جڑ رہے تھے.
یہ تو ایک انقلاب تھا انقلاب تو جاگرتا ہوتا یے. بیداری ہوتا ہے. وہ دیگر لوگ جو ابھی تک جاگیروں کی زمینوں کی غلامی کر رہے تھے ان میں بھی بڑی بیداری پیدا ہوئی اور یہ بیداری قوی ہوتی ہے. اس کا دبدبہ بڑا ہوتا ہے. چنانچہ شاہ عنایت کی پیدا کردہ بیداری نے ہر کسان کی جھونپڑی میں انگڑائی لی اور ہر جاگیردار کے محل کے صدردروازے ہلا ڈالے. اب پورے علاقے میں جاگیردار کا حکم خدائی حکم نہ رہا تھا. اب بے زمین کسانوں کی بہو بیٹیوں کی عصمت لوٹی نہ جاتی تھی. انہیں دائرہ کی زبردست پیداواریت اور وہاں کاشتکاروں کی خوشی دیکھ کر پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ بھوک کی وجہ تو ذاتی ملکیت ہے…… اور اس کا مداوا دائرہ کی طرح اجتماعی کاشتکاری تھا.
یہ تو ایک ساکت و جامد فضا میں گویا ایک زلزلہ تھا. اس زلزلے نے روایتی درباری مولویوں پیروں اور زوال پزیر مغل سلطنت کے مغل امرا اور ان کے گماشتہ مقامی حکمرانوں کو لرزا ڈالا. شاہ شہید کے علم عرفان اور زندگی کے بارے میں اس کے ایک نئے ارفع و اعلیٰ انسانی اقدار پر مشتمل طرز سے حکمران طبقات کو اپنی دنیا تباہ ہوتی نظر آئی. شاہ عنایت کی یہ تحریک تو غلام عوامکے اندر خود اعتمادی عزت نفس اور بیداری پیدا کر رہی تھی. یہ تو جاگیرداری سماج کے لئے موت تھی. چنانچہ ملکیت پی کھڑے سماج کا پورا ڈھانچہ ہلنے لگا. یہ ایک روحانی تحریک تھی جو دراصل ایک زبردست انقلابی تحریک تھی. اسے یوں کھلا نہیں چھوڑا جا سکتا تھا. اگر یہ اسی طرح ہروان چڑھتی رہتی تو مقامی گورنر سے لیکر دارالحکومت دہلی تک سونامی کی لہریں جبر و قہر کی ایک ایک اینٹ اکھاڑ پھینکتیں. ساری دنیا دیکھ رہی تھی کہ عوام الناس سرکاری کارندوں مزہنی پیشواؤں جاگیرداروں اور وڈیروں کے سخت ستائے ہوئے تھے. یہ عوام ان ساری شیطانی استحصالی قوتوں سے آزادی حاصل کرنے کے لئے شاہ عنایت کی مریدی اختیار کر کے فقیروں میں آن شامل ہونے لگے تھے اور وہیں اکٹھے رہنے لگے تھے.
لٰہذا کفر کے فتوے شروع ہوئے سرکا دربار مسند ممبر سب کچھ حرکت میں آگیا. چنانچہ اس تغریک کو تناور ہونے سے قبل ہی ختم کرنے کی ٹھان لی گئی“.
One Comment