ارشد نذیر
“دہشت گردی کے خلاف جنگوں کے آخری سپہ سالار جن کے بارے میں گزشتہ دو سال سے متنازعہ بیانات آرہے تھے کہ وہ دہشت گردی پراپنی مہارت کی خدمات مسلم امہ کی مشترکہ فوج کو دینے کے لئے تیار ہیں لیکن ہماری ریاست کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ آیا اس کو ان کا ذاتی فیصلہ کہہ کر جان چڑھائی جائے یا قومی اور ریاستی فیصلہ کہہ کر کوئی موقف اپنایا جائے۔
آخر دو سال بعد یہ طے پا گیا کہ اس فیصلے کو اپنا قومی اور ریاستی فیصلہ ہی قرار دیا جائے اور اب دہشت گردی پر اپنی مہارتیں مسلم امہ ( بلکہ اپنے محبوب ترین دوست ملک سعودی عرب) کے حوالے کردی جائیں۔ سو اب ہمارے محبوب سپہ سالار کی خدمات مسلم امہ کی وہاں پائی جانے والی دہشت گردی پر کنٹرول کے حوالے سے حتمی طور پر متعین کرلی گئی ہیں۔
اگر غور سے دیکھا جائے تویوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان ابھی تک نظریاتی طورپر دہشت گردی کی تعریف متعین کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ کیونکہ یہاں حافظ سعید، لال مسجد، ان کے حوارین اور ان کے نظریاتی چیلے تو دندنتے پھر رہے ہیں اس کے برعکس حقوق کی لڑائی لڑنے والے نہتے لوگ ریاست کے لئے خطرہ ہیں۔ ان نہتے دانشوروں، صحافیوں، ڈاکٹروں، پروفیسروں، اساتذہ اور وکلا وغیرہ کے نظریات سے ان کو خطرہ ہے۔ ان کے نظریات خودکش بمباروں سے زیادہ بڑی دہشتگری ہیںَ۔
اس کا ثبوت آئے روز پاکستان میں سماجی سیاسی اورمعاشی حقوق کی جدوجہد اور اس پر بات کرنے والے دانشوروں اور قلمکاروں کو غائب کرنے کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ اس کی ایک اور دلیل بھی ہے۔ ایک طرف تو سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیلنے والے فلسفیانہ رحجانات اور لبرلزم کو ریاست اور تمام ریاستی مشینری کے لئے حتیٰ کہ عدلیہ کے لئے بھی “سب سے بڑی دہشتگردی ” قرار دیا جارہا ہے اور اس کے تدارک کے لئے مسلم امہ کے پچاس سے زائد ممالک کی کانفرنس منعقد کرنے کی باتیں ہورہی ہیں، دوسری طرف اپنے ملک میں نظریاتی فاشسٹ دندناتے پھر رہے ہیں۔ یہی لوگ اپنا نظریہ جبراً پورے سماج پر مسلط کرنے کے درپے ہیں۔
تضادات کے اس مجموعہ میں ایک مثال اپنے دوست چین کی بھی دی جاسکتی ہے۔ چین نے اپنے صوبے سنکیانگ میں مسلمان مولویوں اور عورتوں کے پردہ وغیرہ کے نظریات کو جس طرح تذلیل کا نشانہ بنایا ہے، اُس پرکسی کو بھی مذہب کی توہین نظر نہیں آرہی۔ کوئی کٹھ ملاں اس پر لب کشائی کررہا ہے اور نہ ہی ریاست اور ریاستی مشنری کو کوئی تکلیف ہورہی ہے۔ بس مذہب کی توہین صرف پاکستان میں نظر آرہی ہے اور وہ بھی سوشل میڈیا پر۔ اس کے لئے پوری مسلم امہ کی کانفرنس کا بلایا جانا بھی ازبس ضروری ہے۔ چین کے اس عمل پر نہ ہی عدلیہ جو ایسے کیسوں میں بڑے بڑے بین الاقومی انسانی آزادیوں کے فیصلوں کے حوالہ جات پیش کرتی رہتی ہے کو کوئی تکلیف ہوئی ہے۔
آخر چین کی مذہب پر کی گئی اس توہین کے حوالے سے ہمیں مسلم امہ کی کانفرنس بلانے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں ہورہی۔ اسکی وجہ سب کو معلوم ہے۔ چین اور پاکستان کے معاشی مفادات پر ضرب اب ہماری ریاست برداشت نہیں کرسکتی۔ اس لئے سارے کے سارے ناموسِ مذہب کو ارزاں نرخوں پر بیچ دیں گے البتہ ریاست کے اندر ملاں کو اپنے ہی شہریوں پر مذہبی دہشت گردی اور اپنے نظریات مسلط کرنے کی کھلی چھٹی ہے۔ واہ کیسا تضاد ہے۔
اپنے ملک میں صرف سال 2015 ہی کے دہشت گردی کے حوالے سے اعداد وشمار کا جائزہ لے لیا جائے تو بات واضح ہوجائے گی کہ ہماری ریاستی مشنری کس حد تک دہشت گردی پر قابو پانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ حالات تو یہ بتا رہے ہیں کہ ہماری ریاست اور خاکی اسٹیبلشمنٹ خود ہی دہشت گردی کی نظریاتی تعریف کے بارے میں غیر واضح ہے۔
حقوق کی جنگ لڑنے والے افراد کو اٹھانے سے کام نہیں چلے گا۔ ہمیں یہ واضح کرنا ہوگا کہ دہشت گرد کون ہے، اس کی نظریاتی جڑیں کہاں واقع ہیں۔ اس کو کس طرح سے کنٹرول کیا جاسکتاہے۔ دہشت گردی کی نظریاتی بنیادوں کو سمجھے بغیر اس پر قابو پانا بالکل ناممکن ہے“۔
♦