یہ ستم ظریفی ہے کہ عین اس روز جب سو سال پہلے امریکا پہلی عالم گیر جنگ میں شامل ہوا تھا، صدر ٹرمپ نے شام پر میزائلز کا حملہ کیا ہے۔لیکن یہ حملہ کسی جنگ میں شمولیت کے لئے نہیں تھااور نہ یہ حملہ امریکا پرکسی حملہ کے جواب میں کیا گیا اور نہ امریکا کی سلامتی کو کو ئی خطرہ تھا کہ اس کی پیش بندی کے لئے یہ حملہ کیا گیا۔ بہرحال جس سرعت اور اچانک انداز سے ٹرمپ کے حکم پر بحیرہ روم میں لنگر انداز امریکی بحری بیڑہ سے شام کے شہر حلب کے قریب فضائی اڈہ پر 59میزائلز کا حملہ کیا گیا ہے اس پر مغربی دارالحکومتوں میں طمانیت کے ساتھ تعجب کا بھی اظہار کیا گیا ہے ۔
برطانیہ کا بھی بہت دل چاہتا تھا کہ وہ بھی اس حملہ میں امریکا کے ساتھ ہوتا لیکن ایک تو اس کے لئے پارلیمنٹ کی منظوری لازمی تھی کیونکہ اس سے پہلے 2014میں پارلیمنٹ نے شام پر میزائل حملہ کی منظوری دینے سے انکار کردیا تھا ۔ اس وقت بھی بشار الاسد کی حکومت پر زہریلی گیس استعمال کرنے کا الزام تھا۔
بلا شبہ حلب میں بشار الاسد کے باغیوں کے زیر کنٹرول علاقہ میں سارین گیس کا حملہ نہایت ہولناک تھا ۔ جس میں ہلاک ہونے والے اسی افراد اور بچوں کی لاشوں کی تصاویر دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن کہا جارہاہے کہ ٹرمپ نے اس کے جواب میں میزائل حملہ کے فیصلہ میں بہت زیادہ جلد بازی سے کام لیا۔انہیں اس کے تعین کا انتظار کر لینا چاہئے تھا کہ کیمیائی ہتھیارکے اس حملہ کا ذمہ دار کون تھا ۔ روس نے یہ اعتراف تو کیا ہے کہ شام کے طیاروں نے حلب کے قریب اس علاقہ میں جہاں باغیوں کا قبضہ ہے ، ایک گودام کو بمباری کا نشانہ بنایا تھا جہاں سارین گیس تیار کی جارہی تھی ۔ لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ شامی طیاروں نے شہریوں پر گیس کا حملہ کیا تھا۔
روس کا کہنا ہے کہ شام کے پاس کیمیائی اسلحہ نہیں ہے کیونکہ جون 2014کو شام کا کیمیائی اسلحہ کا تمام تر ذخیرہ اس کی نگرانی میں تلف کردیا گیا تھا۔ شام میں برطانیہ کے سابق سفیر پیٹر فورڈ کا کہنا ہے ،کہ وہ بشار الاسد کو بہت قریب سے جانتے ہے ، وہ پاگل نہیں کہ یہ جانتے ہوئے کہ گیس کے حملہ پر عالمی رد عمل کیا ہوگا ، وہ اس نوعیت کا حملہ کرتے۔ ویسے بھی پچھلے ایک عرصہ سے بشار الاسد کے مخالف مسلح تنظیمیں پسپا ہورہی تھیں اور بشار الاسد کی فوجوں کو کامیابی حاصل ہو رہی تھی ، اس موقع پر بشار الاسد اس قسم کی کاروائی کیوں کرتے۔
دوسرے اگر روس کو حلب پر گیس کے حملہ کا علم تھا یا وہ اس حملہ میں شامل تھا تو وہ اس موقع پر جب کہ امریکا کے ساتھ اس کے نہایت خوشگوار تعلقات ہیں تو اسے کیا پڑی تھی کہ وہ امریکا کو شام پر میزائلز کے حملہ کا موقع دیتا ، جس سے روس اور امریکا کے درمیان تعلقات کا پانسہ پلٹ جاتا۔ اب اس حملہ کے بعد روس اور امریکا میں خوشگواری کی جگہ کشیدگی نے لے لی ہے۔
جس عجلت میں ٹرمپ نے ادلب کے گیس کے حملہ کی پوری طرح سے تحقیقات اور ذمہ داری کے تعین سے پہلے، حلب میں شام کی فضائی اڈہ پر میزائلز کا حملہ کیاہے اس پر بہت سے لوگوں کو 2003کا وہ زمانہ یاد آگیا جب سلامتی کاونسل میں یہ ثابت کرنے کے لئے کہ عراق کے صدر صدام حسین کیمیائی اسلحہ تیار کر رہے ہیں امریکا کے وزیر خارجہ کولن پاول نے ، اینتھرکس سے بھری ایک چھوٹی سے شیشی دکھائی تھی۔ اسی جھوٹی شہادت کی بنیاد پر امریکا برطانیہ اور ان کے اتحادیوں نے عراق پر حملہ کیا تھا۔
شام پر حملہ کا ایک پر اسرار پہلو یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ادلب کے قریب فضائی اڈہ کو 59مزایلز کا نشانہ بنایا گیالیکن اڈہ پر صرف 23مزایلز گرے۔باقی میزائلز کہاں گئے اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں۔
مبصرین کو اس بات پر سخت حیرت ہے کہ مزایلز حملہ سے ایک ہفتہ پہلے ٹرمپ انتظامیہ نے اس پالیسی کا اعلان کیا تھا کہ امریکا اب صدر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے کو فوقیت نہیں دے گا بلکہ ترجیح ، داعش کو قلع قمع کرنے کو دی جائے گی۔ اس پالیسی پر سعودی عرب اور بشار الاسد سے نبرد آزما باغی سخت ناراض تھے۔
اب معاملہ بالکل الٹ گیا ہے اور شام پر میزائل حملہ کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے بشار الاسد کی حکومت کے خاتمہ کا نعرہ بلند کیا جارہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اسی طرح سے بشارالاسد کا تختہ الٹنے کی پالیسی پر زور دے رہا ہے جس طرح لیبیا میں معمر قذافی اور عراق مین صدام حسین کا تختہ الٹا گیا تھا ۔ تو کیا یہ حملہ اس پالیسی کی رہ ہموار کرنے کی تمہید ہے۔
بعض مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکا نے یہ حکمت عملی اختیار کی تو شام کا بھی حشر لیبیا اور عراق کی طرح ہوگا۔ لیبیا میں قذافی کی حکومت کے خاتمہ کے بعد ابھی تک نراجیت کا دور دورہ ہے اور عراق میں سیاسی افرا تفری اور فرقہ وارانہ تشدد کا راج ہے۔ خطرہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ شام میں امریکا ان قوتوں پر حملے کرے گا جو داعش کے خلاف نبرد آزما ہیں تو اس کے نتیجہ میں داعش کو زبردست تقویت ملے گی اور داعش کے خلاف ٹرمپ کی حکمت عملی ٹھپ پڑ کر رہ جائے گی۔
عام طور پر کہا جا رہا ہے کہ بظاہر شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمہ کے بعد ٹرمپ کا کوئی واضح منصوبہ نہیں ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ ٹرمپ کا خفیہ منصوبہ شام کو عراق کی طرح تین علاقوں میں تقسیم کرنا ہے۔ شیعہ سنی اور کرد علاقوں میں۔ انہیں فی الحال امن کے خطوں کا نام دیا جارہا ہے لیکن آخر کار شام میں تین مملکتیں ابھریں گی۔ ٹرمپ کے منصوبہ کے تحت ، شام میں روس کے موجودہ سیاسی اور فوجی اثر کو توڑنے میں مدد ملے گی ۔لیکن یہ خام خیالی ہوگی کہ روس کسی ایسی کوشش کو کامیاب ہونے دے گا کیونکہ شام کے راستہ وہ مشرق وسطی میں قدم جمانے میں کامیاب ہوا ہے جس سے وہ کبھی دست بردار نہیں ہوگا۔ ۔
ٹرمپ کے مشیروں کا کہنا ہے کہ بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمہ کے بعد بھی شام میں سیاسی تصفیہ اور متحدہ قومی حکومت کی تشکیل ممکن نہیں ہوگی ۔ شام کو تقسیم کرنے کے بارے میں ٹرمپ کے منصوبہ کی راہ میں البتہ ترکی کی مخالفت سب سے بڑی رکاوٹ ہوسکتی ہے جو کسی صورت میں اپنی سرحد پر شام میں آزاد مملکت کا قیام تسلیم نہیں کرے گا۔
عراق کو تو امریکی ، عملی طور پر تین علاقوں میں تقسیم کر چکے ہیں۔ شمال مشرق میں کردستان جس کو تیل کی دولت کے پیش نظر امریکیوں نے اپنا لے پالک بنا لیا ہے ، دوسرا علاقہ شیعوں کا علاقہ اور تیسرا موصل اور انبار کا علاقہ ہے جہاں اکثریت سنیوں کی ہے اور جسے عراقی حکومت کے دعوی کے مطابق بہت جلد آزاد کرا لیا جائے گا۔ اگر ٹرمپ کے اس منصوبہ نے عملی جامہ پہن لیاتو یہ کہا جائے گا کہ شام پر ٹرمپ کے میزائلز کا حملہ کامیاب رہا ہے۔
♥