لاہور میں ایک احمدی ڈاکٹر کو نامعلوم حملہ آور نے گولی مار کر ہلاک کر دیا ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ 68 سالہ ڈاکٹر اشفاق کو بظاہر ہدف بنا کر قتل کیا گیا ہے۔
یہ واقعہ جمعہ کو ملتان روڈ کے علاقے سبزہ زار کالونی میں پیش آیا جب نامعلوم مسلح شخص نے ڈاکٹر اشفاق کو جو کہ جانوروں کے ڈاکٹر تھے، نشانہ بنایا۔پولیس کا کہنا ہے کہ حملہ آور موٹر سائیکل پر سوار تھا اور فائرنگ کے بعد وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
یہ دس دن میں پنجاب میں کسی احمدی فرد کی ہلاکت کا دوسرا واقعہ ہے۔
اس سے قبل 30 مارچ کو ننکانہ صاحب میں نوبیل انعام یافتہ پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کے کزن اور جماعتِ احمدیہ کے رکن ملک سلیم لطیف کو اس وقت قتل کیا گیا تھا جب وہ اپنے بیٹے کے ہمراہ اپنے دفتر جا رہے تھے۔
خیال رہے کہ حال ہی میں جماعتِ احمدیہ کی جانب سے جو سالانہ رپورٹ جاری کی گئی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں عقیدے کی بنیاد پر احمدیوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں اور 2016 کے دوران بھی احمدی جماعت کے چھ افراد کو قتل کیا گیا ہے۔
پاکستان میں ا حمدیوں کے خلاف کاروائیوں اور نفرت انگیز پراپیگنڈہ پر جماعت احمدیہ کے ترجمان پریس ریلیز جاری کرتےہیں جسے پاکستان کا اردو میڈیا بالکل نظر انداز کر دیتا ہے الٹا مذہبی جماعتیں اس پریس ریلیز کو پاکستان کے خلاف سازش قرار دیتی ہیں اور احمدیوں کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈہ جاری رکھتی ہیں۔
جماعتِ احمدیہ کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقامی اخباروں میں ان کے خلاف 1700 سے زائد نفرت انگیز خبریں اور 313 مضامین شائع ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق احمدیوں کے خلاف یک طرفہ اور نفرت انگیز خبروں کی اشاعت کا سلسلہ مقامی اخبارات میں نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے‘۔
بی بی سی سے سے بات کرتے ہوئے جماعتِ احمدیہ پاکستان کے ترجمان سلیم الدین کا کہنا تھا کہ ایسی خبروں سے ان کی جماعت کے افراد کے خلاف نفرت پھیلتی ہے اور پاکستان میں ان کے لیے زندگی مزید غیر محفوظ بن جاتی ہے۔
’ہمارے خلاف جو خبریں لگائی جاتی ہیں ان میں ہمارے خلاف شدت پسندی کے واقعات کو ہوا دینے سے لے کر ہمیں غدار قرار دیے جانے تک کی باتیں کی جاتیں ہیں۔‘
سلیم الدین کا مزید کہنا تھا کہ ایسی خبریں نہ صرف ان کے بنیادی حقوق کے خلاف ہیں بلکہ ان کی وجہ سے کئی دفعہ ان کے خلاف پر تشدد واقعات بھی ہوئے ہیں۔
’ایسی خبروں کے بعد ہمارے خلاف بہت واقعات بھی ہوئے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ کس خبر کے بعد ایسا ہوا ہے مگر جو پڑھتا ہے اسے اشتعال آتا ہے۔ ان سے ہمارے خلاف نفرت بڑھی ہے اور بڑھتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال دسمبر میں دوالمیال ضلع چکوال میں مشتعل ہجوم نے جماعتِ احمدیہ کی عبادت گاہ پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا تھا جو کہ تا حال سرکاری انتظامیہ کے زیرِ قبضہ ہے اور احمدی اپنے حقِ عبادت سے بھی محروم ہیں۔
پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا میں کچھ عرصے سے ٹی وی کے میزبان اور ان کے پروردہ تجزیہ نگار باقاعدہ احمدی فرقے کا نام لے کر ان کے قتل کی ترغیب دیتے ہیں۔پاکستانی سماج میں اقلیتوں کے خلاف مذہبی منافرت ایک منظم انداز سے پھیلائی جاتی ہے ۔
احمدیوں کے خلاف نفرت کو باقاعدہ نصاب (رد قادیانیت) کی صورت میں ترتیب دیا گیاہے ۔اور یہ نصاب تقریباً ہر مدرسے میں متعارف کرایا جارہا ہے۔ کوئی بھی سرکاری یا غیر سرکاری لکھاری نفرت پر مبنی اس نصاب پر پابندی لگانے کے لیے آواز اٹھانے کی جرات نہیں کر سکتا۔
بڑھتی ہوئی انتہاپسندی کی وجہ سے کوئی بھی ذی شعور شخص احمدیوں کے خلاف ہونے والی زیادتیوں پر سوال اٹھانے کے لیے تیار نہیں کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اس کا کیا نتیجہ ہوگا۔
BBC/News desk
♦
One Comment