پیپلز پارٹی کا مقدمہ

اوشو ناصر 

پیپلز پارٹی کے خلاف روز اول سے پروپیگنڈا ما فیا سر گرم رہا ہے ،کبھی میڈیا کو استعمال کیا جاتا ہے تو کبھی اعلیٰ عدلیہ میں بیٹھے چند ا شخاص نے اس میں اپنا ہاتھ بٹایا۔ میڈیا کی چکا چوند کے دور میں بغیر تحقیق کے کسی بھی معا ملے کو اچھال دینا رواج بن چکا ہے۔ خاص طور پر اگر بات ہو سیاست کی تو کبھی تحقیق کو ضروری نہیں سمجھا گیا ۔سیاسی اخلاقیات نام کی کوئی چیز سماج میں رواج نہیں پا رہی دن بدن سیاسی اخلا قیات زوال پذیر ہوتی جا رہی ہیں ۔

چند روز پہلے ایک کالم نظر سے گذرا جسے ن لیگ کی ایک ایم پی اے محترمہ حنا پرویز بٹ نے تحریر فرمایا ،جس میں ا نہوں نے کم ظرفی اور اپنی لا علمی کا کھل کر ثبوت دیا ہے سیا سی اختلافات رکھنا ،اپنی مخالف سیاسی جماعتوںیا سیا سی شخصیات سے اختلاف کرنا یا ان پہ تنقید کرناکوئی معیوب بات نہیں مگر اس کے لیے جھوٹ یا محض پروپیگنڈا غیر مناسب بات ہے ۔

محترمہ حنا بٹ اپنے کا لم میں لکھتی ہیں کہ پیپلز پارٹی ایک ایسی جماعت ہے جس کے پاس کو ئی تر بیت یا فتہ ڈرائیور نہیں ہے یعنی لیڈر نہیں ہے ۔ان کی اس خوش فہمی پر رشک آتا ہے پیپلز پارٹی کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو سے ہوتے ہوئے آج بلاول بھٹو کے ہاتھ میں ہے ۔اس سفر میں پارٹی کے کاروان میں ڈاکٹر مبشر، اعتزاز حسن، رضا ربانی،نیر بخاری ،قمر زمان کائرہ ،چوہدری منظور ،اور ایسی بے شمار قد آور شخصیات شریک سفر رہی ہیں اور آ ج بھی اس قافلے میں شامل ہیں ۔ان کے سیاسی شعور کو کوئی مخالف بھی چیلنج نہیں کر سکتا ۔

حنا بٹ نے موجودہ قیادت پر تنقیدکرتے ہو ئے زرداری صاحب اور بلاول بھٹو پر تیر بر سائے اور بے بنیاد الزا مات کی بوچھاڑ کی ۔زرداری صاحب کے دور اقتدار کا اگر غیر جانبداری سے جائزہ لیا جا ئے تو انہوں اپنے اقتدار میں پاکستان کی تاریخ کے بڑے ترقیاتی منصوبے شروع کیے ۔سی پیک اور پاک ایران گیس پائپ لائن ان کے تاریخی کار ناموں میں شمار ہوتے ہیں ۔ آج جس سی پیک کا سہرا میاں نواز شریف اپنے سر پہ با ندھے پھر رہے ہیں یہ زرداری صاحب کے دور میں شروع ہوا ۔زرداری صاحب نے سیاسی استحکام کے لیے اپنے دور حکومت میں 58 ٹو بی کا خاتمہ کیا صوبوں کو خود مختاری کے لیے این ایف سی ایوارڈ جاری کیا ۔خار جہ پالیسی کو ملکی مفاد کو مد نظر رکھتے ہو ئے چلایا ۔شمسی ایر بیس زرداری صاحب کے دور میں خالی کروایاگیا ۔کسی بھی سیاسی حریف کو سیاسی ا نتقام کا نشانہ نہیں بنایا۔

محترمہ حنا بٹ بلاول بھٹو ایک ننھے منھے ذہن کی ما لک لکھتی ہیں جنہیں ان کے خیال میں نہ قومی زبان کا ادراک ہے نہ ملکی ثقافت سے آگا ہی ہے حنا بٹ صاحبہ شہباز سریف کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے لکھتے ہوئے یہ بھی بھول گئی ہیں کہ بلاول بھٹو کا تعلق اس گھرانے سے ہے جنہوں نے اس مٹی کی محبت میں وہ قرض بھی چکائے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے ۔بلاول بھٹو اس نانا کے نواسے ہیں جس نے اس ملک میں جمہوریت کی خاطر اپنے گلے میں پھانسی کا پھندا سجا لیا مگر 100 سوٹ کیس لے کر فرار ہونے کے لیے کسی غاصب سے معاہدہ نہیں کیا ۔

محترمہ یہ بھی لکھتی ہیں کہ پیپلز پارٹی کا پنجاب فتح کرنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہو گا ۔مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کیا پانامہ کو عوام رس ملائی سمجھ کے ہضم کر جائے گی ،کیا جو پالیسیاں پنجاب گورنمنٹ کی ہیں جس سے عام آدمی جی نہیں رہا سسک رہا ہے کسان دشمن پالیسیاں،سرکاری ملازمین کے ساتھ ناروا سلوک ترقیاتی کام صرف لاہور تک محدود ہیں ،لوڈ شیڈنگ ،اورنج ٹرین منصوبہ کی کر پشن،ریلوے میں تاریخی کرپشن ،آشیانہ سکیم ،سستی روٹی سکیم میا صاحبان کے کار نا مے ہیں ۔ ٹیکسوں کی بھر مار غیر ملکی قرضوں میں اضافہ ،کیا اس کارکردگی پر آئندہ الیکشن میں ن لیگ ووٹ ما نگے گی ۔

محترمہ اپنے کا لم میں لکھتی ہیں کہ پنجاب کی پگ قمر زمان کائرہ کے سر پر رکھی گئی ہے جو چھ گھنٹے ایک نجی چینل پر گذارتے ہیں اس فقرے کے بعد محترمہ کی شاہ سے وفاداری اپنی مثال آپ ہے۔ ایک نجی ٹی وی جس پر تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما اپنا تجزیہ پیش کرتے ہیں اسی طرح قمر زمان کائرہ بھی 40 منٹ کا تجزیہ پیش کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ لکھتی ہیں کہ پیپلز پار ٹی چار حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے ۔ یہ حنا بٹ یا ان کی پارٹی کی خواہش تو ہو سکتی ہے مگر اس کا حقیقت سے کو ئی تعلق نہیں۔ اس پورے کالم میں انہوں نے جو لکھا سوائے من گھڑت کہانی کے کچھ بھی نہیں ۔

دراصل اگر ماضی کو بھی دیکھا جائے تو ن لیگ کے پاس ہمیشہ اچھے میڈیا مینجر رہے ہیں اور پیپلز پارٹی اس معاملے میں انتہائی غیر سنجیدہ ثابت ہوئی ہے کہ وہ میڈیا کو سنجیدہ لے اور کم از کم اپنا موقف بر وقت میڈ یا تک لے کر جا ئے لیکن شائد پارٹی لیڈر شپ نے اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جس کا نقصان اٹھانا پڑا ۔دوسری طرف با کمال ن لیگ ہے جو دستانے پہن کر قتل کرتی ہے ،ابھی حال ہی کی مثال ہے نشاط ٹیکسٹائل جو کارباری خسارے میں تھی مگر ان کی خوش نصیبی یہ تھی کہ نشاط ٹیکسٹائل کے مالک میاں منشاء میاں صاحبان کے دل کے انتہا ئی قریب ہیں ان کے کاروبار کو سہارا دینے کے لیے پنجا ب پولیس کے یونیفارم کا ٹھیکہ انہیں دے دیا گیا ۔

اسی طرح ڈان لیک کو بھی بڑے اچھے انداز میں سمیٹ لیا گیا اور سننے میں آ یا ہے کہ مر یم نواز کو اس میں کلین چٹ دی جا رہی ہے ۔ن لیگ کی گورنمٹ کی بے ہودہ پالیسزز کی وجہ سے ملکی معیشت ہچکولے کھا رہی ہے ،خار جہ پا لیسی میاں صاحبان کی پسند اور نہ پسند پہ چل رہی ہے ،داخلہ پا لیسی سوائے سیاسی انتقام کے کچھ بھی نہیں ۔

پچھلے دو برسوں میں پیپلز پارٹی کو کمزور کرنے کی بھر پور کو شش کی گئی ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری جس انداز میں ہوئی الزامات کی ایک بہتات تھی لگتا تھا یہ شخص ملک کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے ۔مگر دو سال میں ا یک الزام بھی ثابت نہیں ہو سکا۔ بلا آخر ایک قانونی طریقے سے ڈاکٹر عاصم کی رہائی عمل میں آئی ۔ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری د راصل آصف علی زرداری کو کنٹرول اور کمزور کرنا تھا۔ اسی دوران ایان علی کا ڈرامہ بھی پلے کیا گیا آئے روز ایف آئی اے منی لانڈرنگ کے ملزمان کو پکڑتی ہے ۔ ایف آئی اے کے ایک انتہائی سنییر افسر کا کہنا ہے کہ ہم روز ایان علی سے زیادہ رقم لے جانے والوں کہ گرفتار کرتے ہیں مگر اس کیس کو سیا سی رنگ دے دیا گیا تھا۔

آ صف علی زرداری کی ملک میں غیر موجودگی کو بھی نئے نئے رنگ دیے گئے اور اب واپسی پر مزید اوچھے ہتھکنڈے آزما ئے جا رہے ہیں خاص طور پر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں کو غائب کرنا ۔ محترمہ لکھتی ہیں چھ سال تک بلاول بھٹو پارٹی سے دور کیوں رہے۔ بلاول اپنی تعلیمی سلسلے میں مصروف تھے جیسے ان کی تعلیم مکمل ہوئی وہ پوری طرح سیاست میں سر گرم ہو گئے ، اس و قت پیپلز پارٹی اپنے سیاسی محاذ پر ڈٹ گئی ہے ۔پوری طرح سرگرم ہے امید ہے ماضی میں کی گئی غلطیوں کا ازالہ بھی ہو گا اور پارٹی سیاسی معاملات میں بہتری کی جانب جا ئے گی ۔

♣ 

Comments are closed.