فرحت قاضی
انسان کا شعور بڑھانے میں اس وقت پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بنیادی کر دار ادا کررہا ہے یہ ان خاندانوں کی تربیت بھی کر رہا ہے اور ان کو جدید حالات کے لئے تیار کر رہا ہے جن کے بچے غربت یا کسی دوسری وجہ سے سکول پڑھنے سے قاصر ہیں اور ناخواندہ غریبوں کے سامنے ملک کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات اور نظام کی خوبیاں اور خامیاں لارہا ہے۔ حکمران طبقات کے عوام کی فلاح و بہبود کے حوالے سے قول و فعل کے تضادات کو پیش کر رہا ہے ۔
اس کے ساتھ ساتھ انہیں دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں اور نئے خیالات سے لیس کر رہا ہے ان میں حقوق، آئین اور جمہوریت کے بارے میں جو تبصرے ہوتے رہتے ہیں اس سے عام شہریوں کا علم بڑھ رہا ہے اگرچہ حکمران اور بالادست طبقات کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ اسے ایک حدمیں رکھا جائے چنانچہ اسے ایک حد میں رکھنے کے لئے کبھی اخلاقی ضابطہ کا ذکر کیا جاتا ہے کبھی صحافیوں کو خوف زدہ کیا جاتا ہے اخبارات اور ٹیلی ویژن کے دفاتر پر حملے کئے جاتے ہیں اور مقدمات قائم کرکے اپنے تابع فرمان بنانے کی سعی کی جاتی ہے۔
اور اب یہی حکمران براہ راست سامنے آنے کی بجائے پیچھے سے وار کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں چنانچہ مستقبل قریب میں ان کو اس کے لئے ضوابط کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ دیگر حربے استعمال کئے جائیں گے جس کا آغاز دیکھا جائے تو حجام، سی ڈیز سنٹروں ، خواتین اساتذہ اور گرلز سکولوں پر حملوں کی صورت میں ہوچکا ہے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر حملوں کے لئے بھی یہی عذر، جواز، وجہ اور بہانہ کام میں لایا جائے گا۔
انسان کتاب اور لوگوں سے بھی سیکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ’’ ایک انسان ان کتابوں جن کو وہ پڑھتا ہے اور ان لوگوں جن سے وہ ملتا ہے پہچانا جاتا ہے’’ اگر ایک بچہ سائنس کی کتابیں پڑھتا ہے وہ ایجادات اور موجدوں کے بارے میں لکھی گئی کتابوں کو اپنا زیادہ سے زیادہ وقت دیتا ہے تو مستقبل میں اس کے ڈاکٹر، انجنیئر، سائنسدان اور ساتھ ہی موجد بننے کے امکانات ہوتے ہیں اور اگر اس کے گھر کی الماریوں اور سکول کی لائبریریوں میں شعر و ادب پر مشتمل کتابیں ہوں گی اور وہ ان پر توجہ دے گا تو زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ ادیب اور شاعر بن جائے ہمارے دیہاتوں میں چونکہ کمپیوٹر، کارخانہ جات، جدید آلات پیداوار اور علمی ماحول کا فقدان ہے لہٰذا عام دیہاتیوں کا عام طور پر اخلاقی ادب کی جانب جھکاؤ ہوتا ہے اور وہ ایجادات میں بھی بندوق، توپ اور جہاز کو زیادہ تر پسند کرتے ہیں۔
اسی طرح اگر ایک خاندان پڑھا لکھا اور اس کا دیگر تعلیم یافتہ خاندانوں کے افراد سے میل جول رہتا ہے تو پھر بچے کے ذہن پر ان کے اثرات مرتب ہوتے ہیں چنانچہ یہی وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے اپنے جیسے تعلیم یافتہ لوگوں کے ساتھ ہی روابط ہوں ایسے ماں باپ بسا اوقات اپنے بچوں کو خاندان کے ان افراد سے بھی دور رکھتے ہیں جن کی شہرت پر داغ دھبہ ہوتا ہے تاکہ ان سے بری عادات نہ اپنالیں ۔
ایک بچے اور آدمی کے علم میں جہاں ماں اور خاندان کا کردار ہوتا ہے محلہ، سکول، کتابیں اور مختلف لوگ اس کے علم و معلومات میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں وہاں اس کا پیشہ بھی اس کے خیالات اور اخلاقی و سماجی رویوں کا تعین کرتا ہے انسان نے مختلف پیشے اختیار کئے ہوئے ہیں کوئی ڈاکٹر تو کوئی وکیل ہے کسی کا پیشہ دکانداری یا ذریعہ معاش تجارت ہے کوئی سکول میں معلم اور کسی نے صحافت کو اپنایا ہے چنانچہ جہاں ان کا یہ پیشہ ان کے پیشے کے حوالے سے معلومات کو بڑھاتا ہے وہاں اس کے اخلاقی اور سماجی رویہ کا تعین بھی کرتا ہے۔
ایک ریڑھی بان کو کسی تعلیمی یادیگر اداروں میں یہ تربیت نہیں دی گئی ہوتی ہے کہ وہ بڑے اور سرخ ٹماٹروں کو آگے رکھ کر گاہک کو اپنی جانب مائل کرئے بلکہ اس کا پیشہ سکھا دیتا ہے کہ چھوٹے اور سبز ٹماٹروں کو بڑے ٹماٹروں کے ساتھ بیچنے کا یہی طریقہ ہے اس طرح اس کے چھوٹے، سبز اور گلے سڑے ٹماٹر بھی بڑے اور سرخ ٹماٹروں کی قیمت پر نکل جاتے ہیں اگرچہ یہ دھوکہ اور غلط کام ہے لیکن جہاں آئین مذاق بن جائے وہاں بھلا ایک ریڑھی بان اس کو خلاف اخلاق کیوں سمجھے۔
کہاوت ہے کہ ’’ بنئے کا بیٹا کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے‘‘۔
دوکاندار کے بیٹے میں یہ چالاکی اور ہوشیاری کسی کتاب کے پڑھنے سے نہیں آتی ہے بلکہ وہ باپ یا بڑے بھائی کو دوسرے دوکاندار سے سودا سلف لیتے یا اس سے گفتگو کرتے دیکھتا ہے تو پیشہ کے حوالے سے اس کے علم و معلومات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اس کی ذہنیت کاروباری ہوجاتی ہے جس کے بعد وہ رشتوں کو بھی اسی پیشہ ورانہ عینک سے دیکھتا ہے اور سوچتا ہے کہ اسے کہاں سے فائدہ اور کہاں سے نقصان ہورہا ہے اور کس سے تعلقات اچھے اور کس سے وقت کے ضیاع کا سبب بن رہے ہیں اسی طرح وہ یہ بھی جان لیتا ہے کہ بات کو گھما پھرا کر کرنا چاہئے۔
جدید آلات پیداوار ، نئی نئی ایجادات، انکشافات اور دریافتیں بھی پیشوں کی مانند انسان کی معلومات اور اس کے علم میں بڑھوتری پیدا کرتے ہیں دنیا کے مختلف نظام حکومت اور معیار زندگی اس کے آس پاس پرانے اور فرسودہ تصورات سے ٹکراتے ہیں ہر نئی سائنسی ایجاد پرانی اقدار اور طریق حیات پر اثرانداز ہورہی ہے چنانچہ جن چیزوں کو انسان کی دسترس سے باہر قرار دیکر اس کو احساس دلایا جاتا تھا کہ اس کا علم نہایت محدود، ناقص اور ناقابل اعتبار ہے اسے مزید تحقیق اور جستجو کا سلسلہ آگے بڑھانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ دیوتاؤں کے آگے اپنی حاجات کے لئے سر جھکانا چاہئے جبکہ سرمایہ دارانہ ضرورت اور انسان کی یہ خواہش کہ اسے کائنات کے سربستہ راز معلوم ہوں اسے آگے اور مزید آگے کی جانب لے جارہے ہیں۔
پاک بھارت کے عوام کے علم اور عقل بڑھانے میں انڈیامیں بننے والی فلموں کا کردار بھی قابل ستائش ہے دونوں ممالک میں چونکہ مختلف نظام معیشت ہیں لہٰذا ان میں بننے والی فلموں کی کہانیوں اور ڈائیلاگ بھی مختلف ہیں پنڈت جواہر لال نہرو نے پارٹیشن سے پہلے زرعی اصلاحات کا اعلان کر دیا تھا جس سے معاشرے میں جاگیرداروں کے اختیارات کم اور سرمایہ داروں کے لئے راہ ہموار ہوگئی تھی۔ چنانچہ حکومت اور معاشرے میں ترقی پسند افراد کو ایسی فلمیں بنانے کا موقع ملا جن میں جاگیرداروں کی اصلیت، ان کے استحصال اور ہتھکنڈوں کو بے نقاب کیا جاتا تھا یہ سلسلہ رکا نہیں ہے بلکہ آج جو فلمیں بن رہی ہیں ان میں معاشرتی بگاڑ، بدامنی کے پیچھے اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد، وزراء اور بیوروکریسی کو دکھایا جاتا ہے یہ بتایا جاتا ہے کہ ملک میں کرپشن کن طبقات کے باعث ہوتی ہے۔
پاکستان میں فلم انڈسٹری جاگیردارانہ پالیسیوں کے سبب پنپ نہیں سکی بے جا پابندیوں نے اس کے قد کاٹھ کو بڑھنے ہی نہیں دیا بلکہ ان میں جاگیردارانہ اخلاقیات کا پرچار اور آداب پر زیادہ زور دیا جاتا ہے پیرپرستی اور توہمات کو اہمیت دی جاتی ہے خاندان کے اندر مرد کے عورت اور بیوی کے شوہر پر شکوک و شبہات پیدا کرکے ان کی توجہ ملک کے آئین ، معاشی بحران اور حقائق سے ہٹائی جاتی ہے اور ان لکھاریوں کو آگے آنے نہیں دیا جاتا ہے جو اپنی کہانیوں، شاعری اور تحریروں سے سماج کی کایا پلٹنے کی آرزو رکھتے ہیں اور اسے پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
یہ اسی رویہ اور سلوک کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں ادب و شاعری اور تعلیم زبوں حالی کا شکار اور تبدیلی کا متقاضی ہے مسلسل فوجی حکومتوں نے چوٹے سر اور مضبوط جسم والے انسانوں کی مانگ بڑھادی ہے لیکن عوام چونکہ تبدیلی چاہتے ہیں اس لئے انہوں نے بھارتی فلموں کی جانب توجہ دی ہوئی ہے اور چونکہ انہوں نے غریبوں کے سر کو بڑھانا شروع کردیا ہے لہٰذا اسے پرانی حالت پر لانے کے لئے پابندیوں کا سہارا لیا جارہا ہے۔
ایک عام انسان کا علم خصوصاً محنت کش طبقہ کا علم مالکانہ طلب کے مطابق بڑھتا ہے جیسا مالک ہوتا ہے ویسی اس کی مانگ ہوتی ہے اور پھر وہ اپنے مزدور کی معلومات میں بھی اسی قدر اضافہ دیکھنا چاہتا ہے چنانچہ صنعتی محنت کش کا علم و معلومات دیہاتی دھقان سے زیادہ ہوتی ہے چونکہ جاگیردار کی ضروریات ایک ان پڑھ کسان پوری کرتا ہے چنانچہ یہی وجہ ہے کہ دیہاتوں میں تعلیم کو انگریزی کہہ کر اس کی مخالفت کی جاتی ہے اور غریب کاشتکاروں اور ان کے بچوں کو اس سے دور رکھنے کی سعی کی جاتی ہے لیکن صنعت کار کو اپنا کارخانہ چلانا اور کاروبار کو وسعت دینے کے لئے ان پڑھ کے ساتھ ساتھ پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ضرورت سکولوں میں جغرافیہ، معاشیات، سائنس، حساب جیسے مضامین پڑھا کر پوری کی جاتی ہے۔
سرمایہ دار بھی چونکہ جاگیردار کی مانند مالک ہے لہٰذایہ بھی اپنے محنت کش کو اتنا ہی علم دینے کا خواہاں ہے جس سے وہ محنت کش صرف اس کے لئے مفید ثابت ہوں اگرچہ جاگیردار کی طرح سرمایہ دار بھی محنت کش طبقہ اور عوام کو ایک دائرہ میں قید رکھنا چاہتا ہے لیکن اسی سرمایہ دار انہ تعلیمات اور ضروریات کے دوران غریب عوام اور درمیانہ طبقہ میں ایسے لوگ پیدا ہوجاتے ہیں جو ان میں اپنے حقوق اور محنت کی قدر کے احساسات اور نظریات پیدا کرتے رہتے ہیں۔
چنانچہ ایک انسان مختلف ذرائع سے اپنے علم اور معلومات میں اضافہ کرسکتا ہے جاگیردار اپنی ضرورت او ر سرمایہ دار اپنی ضرورت کے تحت محنت کشوں کو علم اور معلومات سے لیس کرتا ہے لہٰذا محنت کش طبقہ کو یہ سوچنا ہوتا ہے کہ اس کا علم و عقل اس کا اور اس کے طبقہ کی قسمت بدلنے کی وجہ بن جائے اس طرح اسے اپنی ضروریات کو دیکھنا ہوتا ہے۔۔
♠