خیبر پختونخوا کے شہر مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشتعل طلبا نے توہین رسالت کے الزام پر یونیورسٹی کے ایک طالب علم کو تشدد کرکے ہلاک کردیا ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی جہاں پر بقول پولیس کے مشتعل مظاہرین مقتول کی لاش کو جلانے کی کوشش کر رہے تھے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز نے مردان یونیورسٹی کی انتظامیہ اور مقامی پولیس کے حوالے سے بتایا ہے کہ مشتعل ہجوم کا الزام تھا کہ مشعل خان نامی اس طالب علم نے سوشل میڈیا پر توہین مذہب پر مبنی مواد شیئر کیا تھا۔
جمعرات 13 اپریل کو پیش آنے والے اس واقعے میں مردان کی ولی خان یونیورسٹی کے مشتعل طلبہ نے شعبہ صحافت کے طالب علم مشعل خان پر شدید جسمانی تشدد کیا۔ پاکستانی میڈیا نے پولیس کے حوالے سے بتایا ہے کہ مشعل خان کی موت گولی لگنے سے ہوئی۔
اطلاعات کے مطابق بعد میں چند طالب علموں نے مشعل کو ڈھونڈ کر پہلے تو مبینہ طور پر گولیاں ماریں اور پھر مبینہ طور پر ان کی لاش کو گھسیٹے ہوئے لے کر آئے۔
ہلاک ہونے والے طالب علم کا تعلق صوابی سے بتایا گیا ہے اور وہ یونیورسٹی میں شعبۂ صحافت میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔
مردان پولیس کے ایک اہلکار نے نامہ نگار عزیز اللہ خان کو بتایا تھا کہ اطلاعات کے مطابق یہ جھگڑا مبینہ گستاخانہ گفتگو کی بنیاد پر شروع ہوا جس پر کچھ طالب علم مشتعل ہوگئے۔ جس کے نتیجے میں ایک طالب علم ہلاک اور دو زخمی ہو گئے۔
انھوں نے بتایا کہ مشتعل ہجوم نے پہلے تو مشعل کے دوستوں کو مارنا شروع کیا تاہم وہاں موجود چند لوگوں نے جب انھیں بتایا کہ ان میں سے کوئی بھی مشعل نہیں تو ان افراد نے ان دو طالب علموں کو شدید زخمی کرنے کے بعد چھوڑ دیا۔
طالب علم کے ایک استاد نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں یقین نہیں آ رہا کیونکہ مذکورہ طالب علم سے انھوں نے ایسی کوئی بات کبھی نہیں سنی تھی۔
پاکستان میں توہین مذہب ایک نازک معاملہ بن چکا ہے۔پاکستان میں انتہا پسندی کی بنیاد تو قرارد اد مقاصد کے منظور ہونے کے ساتھ ہی رکھ دی گئی تھی۔
منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس قرارداد کو آئین کا حصہ بنایا تو بعد میں آنے والے ایک ڈکٹیٹر جنرل ضیاالحق نے اس میں مزید اضافے کیے جب پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے گئے۔ ان عملی اقدامات کے تحت پاکستانی آئین میں اسلامی دفعات شامل کی گئیں۔
جنرل ضیا نے مُلاؤں کی خوشنودی کے لیے توہین رسالت کے قانون مزید دفعات کا اضافہ کیا۔ توہین رسالت کا قانون کا بنیادی مقصد ڈکٹیٹر شپ کی مخالفت کرنے والوں کو سخت پیغام دینا تھا ۔ اب یہ قانون مخالفین کو سبق سکھانے کے لیے ایک بہترین ہتھیار بن چکا ہے۔یہ ہتھیار، مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے خلاف بھی استعمال ہوتا ہے۔
سنٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق سن 1990ء کے بعد سے اب تک کم از کم 65 افراد کو توہین مذہب کے الزام کے تحت قتل کیا جا چکا ہے۔ 2011ء میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے اُس وقت کے گورنر سلمان تاثیر کو انہی کے ایک باڈی گارڈ نے اسی الزام کے تحت فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔ تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو گزشتہ برس ہی اس جرم کی سزا میں پھانسی دی گئی۔ لیکن وہ پاکستانی ریاست میں ایک ہیرو کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔
جس ریاست میں سکولوں اور مدرسوں کا نصاب نفرت پر مبنی ہو۔ ہمسایوں سے نفرت سکھائی جاتی ہو۔ جہاد پر مبنی لٹریچر نصاب کا حصہ ہو۔ کفار یعنی مخالفین کو قتل کرنے کے سبق پڑھائے جاتے ہوں ۔ عرب حملہ آور ریاست کے ہیرو ہوں ۔ریاست دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتی ہو اور میڈیا دہشت گردوں کو ہیرو بناتا ہو،دہشت گرد ملک میں جمعے کے خطبات دیتے ہوں تو ایسی ریاست میں متشدد رویے ہی پنپں گے۔
پاکستانی ریاست ایک متشدد ادارہ ہے جس کا وجود ہی تشدد پر قائم ہے، تشدد کی حمایت کرتا ہے اور تشدد کے ذریعے ہی معاملات چلاتا ہے۔ تشدد کے زیر سایہ زندگی گذارنے والے افراد نفسیاتی طور پر متشدد حیوان بن چکے ہیں ۔ معاملہ کچھ بھی ہو افراد انفرادی و اجتماعی تشدد کے ذریعے ہی اپنا وجود منوانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ تشدد کا یہ سلسلہ گھر سے لےکر اہم ترین ریاستی اداروں تک جا ملتا ہے۔
BBC/DW/News Desk
Pingback: متشدد پیدائش – Niazamana