علی احمد جان
یہ واقعہ کسی مذہبی مدرسے میں پیش نہیں آیا جہاں بچوں کو آنکھیں بند کرکے سارا وقت بغیر سیاق و سباق کے سبق زبانی یاد کروایا جاتا ہے۔ نہ ہی یہ واقعہ کسی دور افتادہ گاؤں میں پیش آیا جہاں برقی تاریں نہ ہونے کی وجہ سے وہ بجلی سے محروم ہے اور آج تک ٹیلی ویژن کی نشریحات اور انٹرنیٹ کی سہولیات دستیاب نہیں۔
یہ واقعہ ماضی کے گندھارا تہذیب کے مرکز ٹیکسلا اور تخت بھائی اور آج کے جدید شہر پشاور سے چند کلومیٹر کی دوری پر حالیہ تاریخ کے ایک نامور ترقی پسند قوم پرست سیاست دان پشتونوں کے بابا عبدالغفار خان عرف باچا خان کے صاحبزادے اور سیاسی وارث اور پشتون ولی کے ولی محترم خان عبدالولی خان کے نام پر پر بنائی گئی ایک جدید جامعہ میں پیش آیا ہے۔
اس جامعہ میں ایک اعلی ٰ تعلیم یافتہ ترقی پسند نوجوان کو اس کے ہم جماعت اور اور ہم عصر نوجوان طلبہ نے اس افواہ پر کہ اس نے مذہب کی توہیں کی ہےمکے، لاتیں ، لاٹھیاں اور پتھر برسا کر بہیمانہ تشدد کے بعد گولیاں مار کر قتل کیا اور گھنٹوں تک اس کی لاش کی کپڑے اتار کر بے حرمتی کی اور اس پر فخر کیا۔
اس جامعہ میں پولیس اور انتظامیہ کی موجودگی میں یہ واقعہ پیش آیا جہاں چار ہزار طلبہ میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جو اس بربریت کو روک سکے۔ جب سینکڑوں نوجوان صرف ایک نہتے طالب علم پر تشدد کر رہے تھے اور سب اللہ اکبر کے نعرے لگا رہے تھے تو ان میں اور ان میں کیا فرق رہ گیا تھا جو کابل کی شاہراہ پر ڈاکٹر نجیب کیساتھ ایسا کر رہے تھے جس کی مذمت خان عبدالولی خان اور اور ان صاحبزادے اسفندیار ولی خان ساری زندگی کرتے رہے ہیں۔
مردان کے اس گاؤں کا نام زیدا ہے جہاں مشال خان کا شاعر والد چپس اور چنے کا ٹھیلا لگاتا ہے۔ اپنے بوڑھے والدین کے امیدوں کا مرکز مشال خان ہمیشہ سے اپنے کلاس میں اول آتا رہا اور ریکارڈ کے مطابق اس کے نمبر کبھی ۹۳ فیصد سے کم نہیں آئے اس کی قابلیت کی گوہی اس کے گھر کی ایک بوسیدہ سی الماری میں سجائے تینتیس (۳۳) سنہرے میڈلز بھی دیتے ہیں۔ خان عبدل ولی خان یونیورسٹی مردان میں جرنلزم میں داخلہ لینے سے پہلے مشعل خان نے روس سے بھی انجنئیرنگ کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کی سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر لکھی تحریروں کے مطابق اس کی زبان بڑی شستہ اور علم و دانائی کی عکاسی بھی کرتی ہے۔
کہتے ہیں کہ یونیورسٹی میں اس کے آخری سمسٹر کا امتحان چل رہا تھا جس میں وہ پہلی پوزیشن کا امیدوار تھا یا شائد ایک اور گولڈ میڈل کا بھی۔ یونیورسٹی میں ہونے والی بد عنوانیوں اور بے ضابطگیوں پر اپنی بےساختہ تنقید کے علاوہ ان کا اپنے اساتذہ کا منظور نظر ہونا اور اپنی کلاس میں مقبول ہونا چند لوگوں کو نہیں بھاتا تھا۔ ان کےایک پیغام کے مطابق ان کے نام سے ایک جعلی فیس بک اکاؤنٹ بنا کر پیغامات بھیجے جارہے تھے جو ان کی بدنامی کا سبب بن گئے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ ان کے کسی قریبی دوست کا مذاق تھا جو اس نے ان کے مرنے کے بعد بھی جاری رکھا ہے۔
جب مشال خان جمعرات کو اپنا امتحانی پرچہ دینے گیا تو اس دن ایک مذہبی طلبہ تنظیم نے پنجاب یونیورسٹی ، گومل یونیورسٹی کے بعد اب ولی خان یونیورسٹی میں بھی لڑکے لڑکیوں کے اکھٹے گھومنے پھرنے کے خلاف احتجاجاً یونیورسٹی کو جبری طور پر بند کررکھاتھا۔ جب مشعل خان اور اس کے دوست امتحان دینے کے لئے یونیورسٹی کے گیٹ پر پہنچے تو اس طلبہ تنظیم کے لڑکوں نے ان کو یونیورسٹی کے اندر جانے سے منع کیا اور ان کے ساتھ اپنے احتجاج کرنے کے موقف پر بحث کی۔
یونیورسٹی کے طلبا ء کے مطابق اس بحث کے دوران مشعل خان کا موقف یہ تھا کہ وہ کسی ایسے مذہبی عقیدے کے قائل نہیں جس کا پرچار احتجاج کرنے والی تنظیم کے ممبران کر رہے ہیں ۔ ان کے اس موقف پراس تنظیم کے ممبران سے تلخ کلامی ہوئی جو بعد میں اس واقعے پر منتج ہوئی جس میں مشعل خان اپنی جان سے گئے۔
اس واقعے کی مکمل تفتیش کرنا اور اس کا استغاثہ تیار کرنا تو تفتیشی اداروں کا کام ہے لیکن ہم اس حادثے کو جنم دینے والے سماجی عوامل پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک عام سا قتل کا واقعہ نہیں جس کو آسانی سے بھلا دیا جاسکے۔ اگر اس واقعے کی ویڈیو فوٹیج کو دیکھیں تو اس میں اس پر سنگباری کرنے والوں میں ہر تنظیم سے وابستہ لوگ نظر آتے ہیں حتیٰ کی صنف نازک نے بھی اپنا حصہ ڈال دیا جو ہم سب کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔
وقت کرتا ہے برسوں پرورش، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا ہے کے مصداق یہ واقعہ بھی ایک دم پیش نہیں آیا بلکہ نوجوانوں کی ذہن سازی میں شعوری اور لاشعوری کاوشیں کارفرما ہیں۔ توہیں مذہب کے قضیے کو لیکر جس طرح ہماری حکومت نے ایک بیانیہ اپنایا ہے جس کا اظہار اس کے رویے سے ہوتا رہا ہے جس کی وجہ سے یہاں اقلیتوں اور کسی مذہبی معاملے پر مختلف رائے رکھنے والوں کے ساتھ یہ پہلا واقع نہیں ہے۔ توہین مذہب کے نام پر لگائے گئے الزامات میں سے زیادہ تر بے بنیاد ثابت ہونے کے علاوہ ان کے پیچھے الزامات لگانے والوں کے اپنے مقاصد ثابت ہوئے ہیں۔ ایسے الزامات لگانے والوں کے خلاف کسی قسم کی کاروائی سے گریز کرنے کی وجہ سے ایسے الزامات لگا کر اپنے ذاتی مقاصد کا حصول ایک آسان زریعہ بن گیا ہے۔
باچا خان کے عدم تشدد کے آفاقی فلسفے کا پرچار کرنے والی عوامی نیشنل پارٹی جب اقتدار کے لئے سیاست کرنے لگی اس بات پر دھیان نہ دے سکی کہ اس کے کارکن بھوکے رہتے ہوئے بھی ہمسائے کے ہاں کھانا پہنچا دیتے تھے اب چھینا جھپٹی پر کیوں اتر آئے ہیں ۔ باچا خان کے خدائی خدمت گاروں نے مدرسے کھول کر بغیر تنخواہ کےقبائلی پشتون معاشرے میں امن و آشتی کا آفاقی درس دیا تھا اب ہر شہر میں یونیورسٹیاں کھول کر عوامی نیشنل پارٹی کے راہنما تحمل اور برداشت کیوں نہ لاسکے۔ باچا خان کے نام پر قائم پارٹی کی ذیلی طلبہ تنظیم کے کارکنوں کا مذہبی عدم رواداری کے کسی ایسے واقعے میں ملوث ہونا خدائی خدمت گاروں کے فلسفہ عدم تشدد کی موت سے کم نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی کی ذیلی طلبہ تنظیم کے کارکن اگر اس واقعے میں ملوث ہیں تو بھٹو اور بے نظیر کے رواداری اور جمہوریت کے فلسفے کی موت بھی ہے۔ تحریک انصاف کے کارکن جو ایک مثبت تبدیلی کے نام پر لوگوں کی امید بندھارہےہیں اگر ان کی تبدیلی ایسی ہے کہ بغیر تحقیق کے ان کے کارکن کسی کی بھی جان لے سکتے ہیں تو مجھے یقین ہے کہ ان کی تبدیلی آنے سے پہلے ہی دفن ہوچکی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جماعت اسلامی اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکی ہو کیونکہ گزشتہ مہینے سے اس کی جامعات میں کیجانے والی پر تشدد کاروائیاں جن کی تائید اس کی اعلیٰ قیادت بھی کرتی ہے کو تقویت ملی ہے اور الزام بھی اس پر اکیلے نہیں آیا ہے۔
امید کی کرن اس گاؤں میں نظر آئی جہاں مشعل خان کے والد نرم دل شاعر اقبال خان نے اس قیامت کے ٹوٹنے کے باوجود صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور ان کے لہجے کی شائستگی اور متانت ان اعلیٰ خاندانی اور تہذیبی اقدار کی عکاسی کرتی ہے جس سے اس نے اپنے ہونہار بیٹے کی تربیت کی ہوگی۔ اقبال خان نے اپنے شائستہ لہجے سے امن و محبت اور پر امن بقائے باہم کا آفاقی پیغام دے کر ہماری اعلیٰ تعلیم کے نام پر ئی گئی نام نہاد جامعات اور ان کے بنانے والوں کی اصلیت آشکار کردی ہےکہ اگر ان جامعات میں اعلیٰ تعلیم کے نام پر رواداری کا یوں ہی قتل عام ہوتا ہے تو اس سے تو زیدا کا وہ گاؤں لاکھ درجے اچھا ہے جہاں اقبال خان اپنی تہذیبی اقدار کے ساتھ رہتا ہے۔
♥
One Comment