جس طرح تاریخ میں صدر ٹرومیں کا نام ہیرو شیما، ناگا ساکی ، پر ایٹم بم کے پہلے نہایت ہولناک اور تباہ کن حملے کے لئے یاد رہے گا اسی طرح صڈر ٹرمپ کا نام افغانستان میں گیارہ ٹن وزنی سب سے بڑے غیر جوہری بم کے پہلے حملہ کے لئے یاد رہے گا۔ یہ ابھی واضح نہیں کہ افغانستان میں امریکی فوجوں کے کمانڈر جنرل جان نکلسن نے تیس فیٹ لمبا یہ بم مشرقی افغانستان کے صوبہ ننگر ہار کے چھوٹے سے ضلع اچین کو نشانہ بنانے کے لئے کیوں فیصلہ کیا؟
صرف اتنا کہا گیا ہے کہ یہاں داعش نے سرنگیں بنا رکھی ہیں ۔ کیا یہ سرنگیں اتنی خطرناک ہیں اور ان سے امریکا کی سلامتی کو اتنا خطرہ ہے کہ اس ضلع کو نیست و نابود کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ اس زمانہ میں جب امریکا ، دیوانہ وار اسامہ بن لادن کے تعاقب میں افغانستان کے توڑا بوڑا کے پہاڑوں پر ’’ڈیزی کٹر‘‘ بم برسا رہا تھا ، اس وقت بھی یہ بڑا بم استعمال نہیں کیا گیا جس پر لاگت ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالرآتی ہے ۔ امریکیوں نے اس سب سے بڑے غیر جوہری بم کو ’’ مدر آف آل بمبس‘‘ کا نام دیا ہے ( تمام بمبوں کی ماں) لیکن افغانستان میں اس بم کے استعمال سے یہ حقیقت آشکار ہو گئی ہے کہ امریکا ، افغانستان میں ’’فادر آف آل وارز‘‘ تمام جنگوں کے پدر کو جیتنے میں بری طرح سے ناکام رہا ہے۔
افغانستان میں صدر بش نے 2001میں، اسامہ بن لادن کے تعاقب کے نام پر طالبان کی حکومت کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکائی تھی ۔ اس جنگ کو اب سولہ سال ہو چکے ہیں اور امریکا بدستور طالبان اور اس کے ساتھ داعش کے خلاف نبر د آزما ہے ۔ امریکا کی تاریخ میں افغانستان کی یہ جنگ سب سے طویل جنگ ہے اور اس کے ساتھ افغانستان کے عوام کے لئے ختم نہ ہونے والی جنگ بن گئی ہے۔ نتیجہ یہ کہ افغان عوام کے مصائب کا سلسلہ جاری ہے جس میں اب تک تین لاکھ ساٹھ ہزار سے زیادہ افغان شہری اور فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔
یہ عجیب و غریب بات ہے کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران ، ٹرمپ نے افغانستان کے مسئلہ کے بارے میں ایک لفظ تک نہیں کہا تھا ۔لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اوبا ما نے افغانستان کی جنگ کو اپنی جنگ بنایا تھا اسی طرح ٹرمپ بھی افغانستان پر دیو ہیکل بم کا حملہ کر کے اس جنگ کو اپنے نام کرنا چاہتے ہیں۔ ہلدی لگے نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا آئے۔
یہ معاملہ اتنا سنگین نہیں جتنا کہ ٹرمپ کی بمباریوں کا سلسلہ سنگین ہے۔ کسی امریکی صدر نے صدر بنتے ہی اتنی تیزی سے بمباریوں کا سلسلہ شروع نہیں کیا تھا جتنی تیزی سے ٹرمپ نے شروع کیا ہے۔ صدر کا عہدہ سنبھالنے کے اڑتالیس گھنٹے بعد ہی ٹرمپ نے یمن میں ڈرون حملہ کا حکم دیا تھا ۔ جب سے اب تک اسی دنوں میں یمن میں ڈرون کے 23حملے ہو چکے ہیں۔ شام میں پچھلے دنوں شعیرات کے فضائی اڈہ پر مزایلز کے حملہ کے بعد امریکا نے دمشق کے قریب ڈرون حملہ کیا ہے جس میں غلطی سے خود امریکا کے اٹھارہ اتحادی مارے گئے۔
برطانیہ کے مانیٹرنگ گروپ،’’ایر وارس‘‘ کا کہنا ہے کہ مارچ کے مہینہ میں عراق اور شام میں امریکی بمباری سے ایک ہزار پانچ سو افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ عجیب و غریب بات ہے کہ عراق کے شہر موصل میں داعش کے خلاف جو لڑائی ہو رہی ہے اس کے بارے میں مغربی میڈیا میں عمداً خاموشی برتی جا رہی ہے۔ مغربی موصل میں کئی سو امریکی فوجی مشیر ، داعش کے خلاف لڑائی میں عراقی فوج کی مدد کر رہے ہیں،ِ پچھلے دو ماہ میں پانچ ہزار سے زیادہ موصل کے شہری مارے گئے ہیں۔
اس لڑائی میں بچنے والوں کا کہنا ہے کہ اب تک وہ داعش کے ظلم ستم کا شکار تھے لیکن اب عراقی فوج کے ہاتھوں مارے جارہے ہیں۔ عراقی فوج نے موصل کے شہریوں کو آزادی دلانے کے نام پر جو فوجی کاروائی کی ہے اس کے دوران ان کے سارے گھر اور مکانات امریکی بمباری سے کھنڈر بن گئے ہیں اور وہ بے یار و مدد گار کھلے میدان میں زندگی گذار رہے ہیں۔افغانستان میں مدر آف آل بمبس کے حملہ کے بعد ٹرمپ نے جو بیان دیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ انہیں شہریوں کی ہلاکت پر کوئی تشویش نہیں اور نہ اس کے مضمرات کے بارے میں پریشانی ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شام پر مزایلز کے حملہ پر امریکی عوام میں جو واہ واہ سبحان اللہ ہوئی ہے اس پر ٹرمپ اپنی طاقت کے نشہ میں سر شار ہیں۔برطانوی گروپ ’’ایر وارز‘‘ کا کہنا ہے کہ ٹرمپ جن کو ابھی صدر کا عہدہ سنبھالے ایک سو دن بھی نہیں ہوئے ہیں ،وہ بمباری کے معاملہ میں سابق صدر اوباما سے بہت آگے نکل گئے ہیں۔ ان کے دور میں پاکستان اور یمن میں ڈرون حملوں میں 117افراد ہلاک ہوئے تھے ۔
ابھی جب کہ ٹرمپ کا دور شروع ہوا ہے امریکی بمباری سے ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تجاوز کر گئی ہےَ ۔بیشتر مبصرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ نے عمداً فوج کے اعلی افسروں کو بمباری کے سلسلہ میں کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ جہاں چاہیں اپنی مرضی سے حملوں کے نشانے طے کریں ۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس سلسلہ میں کوئی واضح پالیسی اور حکمت عملی کے فقدان کے نتیجہ میں حالات خطرناک صورت اختیار کر سکتے ہیں۔
افغانستان میں سب سے بڑے غیر جوہری بم کے حملہ کے بارے میں ، دفاعی تجزیہ کاروں کا عام خیال یہ ہے کہ یہ دراصل ، شمالی کوریا کو وارننگ ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت جلد ایک نئے مزائل یا جوہر ی بم کا تجربہ کرنے والا ہے۔ امریکا کے جوہری اسلحہ سے لیس بحری بیڑہ پہلے ہی شمالی کوریا کے قریب پہنچ گیا ہے۔ یہ اقدام شمالی کوریا کے سربراہ کم جان اُ ن کو بھبھکانے کا ہے ۔
یہ اقدام بھلے امریکی عوام میں مقبول ہو لیکن اس پر عالمی رائے عامہ کو شدید تشویش ہے کیونکہ ذرا سی دیر میں حالات بھڑک سکتے ہیں اور قابو سے باہر ہو سکتے ہیں کیونکہ شمالی کوریا پہلے ہی خبردار کر چکا ہے کہ اگر امریکا نے شمالی کوریا کے خلاف کسی کاروائی کی ہمت کی تو اسے انتہائی بے رحمانہ ردعمل کے لئے تیار رہنا چاہیے۔
♣