دُنیا میں توہماتی اُور دِیو مالائی کہانیوں اُور غیر فانی اِعتقادوں کی تاریخ بہت قدیم ہے ۔اِس طرح کے اِعتقاد جہاں اِنسانی دَماغ کی شعوری بالیدگی کے سوتے خشک کر دیتے ہیں ،وہی یہ کسی بھی اِنسان کو جہدِ مسلسل سے بھی رُوک دیتے ہیں۔ آج کل کے روشن خیال مغربی معاشرے بھی عہدقرونِ ِ وسطیٰ میں توہمات کی زَد میں تھے ۔
ممتاز مصنف جان ہرمن رینڈل جونیئر نے اَپنی شہرہ آفاق کتاب ’’ذِہنِ انسانی کا اِرتقا ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’قرونِ وسطیٰ میں جب عیسائی عوام پر مشکلات کا زَمانہ آتا تو لوگ بزرگوں کے تبرکات ، کلسیائی برَکات،دُعاؤں، نذروں اُور اِلتجاؤ ں کے اِثرات کو سہارے کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھتے تھے۔اِنسان یا شیطان کے خلاف فوقُ الفطرت قوتوں کو حرکت میں لانے کے گوناگوں ذریعے تھے ۔
مثلاََ سینٹ پیٹر کا دانت،سینٹ باسل کا خون،سینٹ ڈینس کا بال،رُولینڈ کی بڑی تلوار، ڈِیورنڈل میں دُوشیزہ کی پوشاک یا پھر سینٹ مارَک کا جُبہ جسے وِینس کے ملاح چُرا کر اَپنے مرصع گرجے میں لے آئے تھے ۔اور سب سے آخر میں مریم عذرا کا مکان جو معجزہ نما طریقے سے اُڑتا ہوا سمندر سے گزر کراٹلی کے شہر ’لوریٹو میں پہنچ گیا تھا ۔اِن چیزوں کی اِتنی مانگ تھی کہ فرانس کا بادشاہ سینٹ لوئس صرف اِس بناء پر اَپنی صلیبی مہم کو کامیاب مانتا تھا کہ وہ اصلی ’صلیب ‘ کااِیک ٹکرا اَپنے ساتھ وطن لے آیا تھا۔حالانکہ اُس نے اَرضِ مقدس کی شکل بھی نہ دِیکھی تھی ‘‘۔
مغربی قوموں نے جب اِن توہمات سے جان چھڑائی تو وہ ساری دُنیا کی اِمام بن گئیں۔ مگر اِفسوس کہ برصغیربا لخصوص پاکستان میں قدیم دِیومالائی اِور توہماتی کرامات کے وِرثے کو جدید آہنگ کے ساتھ ہمارے قابلِ احترام رجعتی ’علماء‘ نے جس طرح پیش کیا ،اس کی ماضی میں شایدہی مثال ملتی ہو۔مولوی احمد رضا خان بریلوی کی کتاب ’بہارِ شریعت ‘اُور اَشرف علی تھانوی کی کتاب ’بہشتی زیور‘ قدیم توہماتی کرامات و کرشمات کی عکاس ہیں۔
پاکستان میں مذہبی فرقوں نے اِن کتابوں کو جس طرح معاشرے میں عام کیا، اِ س اِقدام کی وجہ سے اِیک ایسا ’اِسلام‘ معاشرے میں بتدریج پھیلتا گیا جس کی بُنت کاری زیادہ تر اِن ہمارے ملاؤں کے ذِہن میں ہوئی تھی ۔اِن ملاؤں کی طرف سے مذہب کے سیاسی و سماجی استعمال کو دِیکھتے ہوئے جعلی پیروں نے بھی خانکاہ کے قدیم تقدس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اَپنی خانکاہیں قائم کر کے لوگوں کو’ فیض ‘بانٹنا شروع کر دیا ان جعلی شعبدہ بازوں کی طرف سے عام آدمی کو فیض پہنچانے کا طریقہ کار جہاں پُر اسرار ہے وہی وحشت ناک بھی ہے ۔
غریبوں کے لیے اِن کا طریقہ کار یہ ہے کہ کسی انسان کو ’جلتی آگ‘ پر لٹا دینا ،حبس بے جا میں رکھنا اور تشدد کے ذریعے مافوق الفطرت مخلوق کو حاضر کرنا جبکہ جو لوگ صاحبِ ثروت ہوں ،اُور ان کے پاس آئیں تو یہ اُن کو اُلو کا خون ،چُغل کی آنکھ ،مردہ اُونٹ کی ٹانگ اور چوراہے کی مٹی جیسے عناصر لانے کا کہتے ہیں تاکہ اِنسان کی جائز و نا جائز حاجات کو پورا کیا جاسکے۔
پاکستان میں لوگ بہت سے مسائل کا شکار ہیں وہ مرنا نہیں چاہتے ،ان کی سب سے بڑی خواہش ہے کہ وہ زندہ رہیں ۔وہ اپنی چھوٹی بڑی خواہشات لے کر نام نہاد عاملوں کے پاس جاتے ہیں۔عامل جہاں ان سے پیسے لُوٹتے ہیں وہی پر اِن کوتباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ عورتوں کی عزتیں لوٹنا ان عاملوں کا روز مرہ کا کام ہے ۔ہمارے قانون نافذ کر نے والے ادارے بھی نجانے کس مصلحت کی بناء پر خاموش ہیں اور ان عاملوں کے خلاف کاروائی کر نے سے دیدہ دانستہ گریز کر رہے ہیں۔
پاکستان میں نام نہاد امیر المومنین ضیا الحق کے عہدِ حکومت سے لے کر اَب تک ’رجعت‘ حاوی ہے ۔بحران زَد ہ سماجی نظام میں ہر طرف جوتشیوں ،کالے جادو کے وارداتیوں اور مذہبی و طلسماتی جغادریوں کی چاندی لگ ہوئی ہے۔ان شعبدہ بازوں کے مفادات کو ہر حال میں مقدم رکھنا گویا ہماری ’قومی سلامتی ‘ کی پالیسی میں شامل ہے ۔
توہم پرستی کو فروغ دینے میں ایک کردار ہمارے حکمرانوں کا بھی ہے جب سول قیادت کی فوجی قیادت سے اَن بن شروع ہو جائے تو اس ماحول میں ’کالے ‘ بکروں کی قربانی دَے کر خطرات ٹالے جاتے ہیں۔ اس طرح پاکستان میں توہماتی سوچ کا حکمران طبقات اور درمیانی پرتوں میں شدت سے اضافہ اُور پھیلاؤ ہو رہا ہے۔ جو نہ صرف بہت زیادہ خطرناک ہے ،بلکہ شعوری پستی کا بھی عکاس ہے ۔ حکمران طبقات کی طرف سے اس طرح کی توہمات کو فروغ دینے کا مقصد انسان کی روح اُورِ احساس کو کمزور اور لاغر کر نا ہو تا ہے ۔
دُوسری طرف پسماندہ پرتوں کے اَذہا ن پر جہل و اُہام پرستی کا پردہ پڑا ہوا ہے ۔حکمرانوں نے اِن کو ’خیرات اور صدقات‘ کے اِیک لمبے اور صبر آزما کا م میں ڈال کر ایک توہماتی گورکھ دھندے میں پھنسا دیا ہے ۔ہمارے سماج کی یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ ملائیت اُورشعبدہ باز جعلی پیروں کے’ مقدس اِتحاد‘ نے ہمارے وطن کی رگوں میں زہر بھر دِیا ہے۔اِنسانوں کی ترقی ،خوشحالی اُور شعور کی تدریجی بالیدگی کو اَن دیکھی طاقتوں کے ساتھ نتھی کرنے کی کوششوں میں اِن مذہبی سوداگروں کو رِیاستی سرپرستی بھی حاصل ہے ۔
اِس لیے معاشرے کی اعتدال پسند پرَتیں اِن کے متعلق کوئی خاطرخواہ تحرک نہیں دیکھا سکتیں۔قوم کو ’بے کارِ خاص ‘بنانے میںِ اِن کی خدمات کو کوئی کیسے فراموش کر سکتا ،وہ بھی اَیسے وقت میں جب پاکستان میں اِیک رَجعتی پارٹی کی حکومت ہو۔سائیں جی،پیر صاحب اور مرشد پاک جیسی ہستیوں نے ہماری نو جوان نسل کا ذِہن اِس حد تک کُند کر دِیا ہے کہ اَب ہمارے سماج میں ہر دوسرا شخص غیبی طاقتوں کے سہارے جینے کاعادی ہو گیا ہے ۔
ضلع سرگودھا ،صوبہ پنجاب پاکستان میں پیش آنے والے سانحے کو کیسے بھلایا جاسکتا ہے ؟۔تقریباََبیس افرا د کو قتل کرنے والا جعلی پیر عدالت کے سامنے بڑی ڈھٹائی سے کہہ رہا ہے کہ اُسے اَپنے کیے پر کو ئی ندامت نہیں ہے ،کیا یہ چیز کسی نئے خطرے کی گھنٹی نہیں ہے جو مذہب کے نام پر ہمارے دروازے پر آن کھڑا ہے؟۔
دوسری طرف مذہبی جماعتیں جو عافیہ صدیقی اور دیگر پوائنٹ سکورنگ کے ایشوز پر لوگوں کا جینا حرام کر دیتی ہیں تا حال خاموش ہیں۔اپنے پیٹی بھائی کے متعلق ان کا یہَ رویہ پاکستانی عوام دیکھ رہی ہے اُور یقیناََ مذہبی جماعتوں کو اپنے کیے کا ثمر الیکشن میں بد ترین ’شکست ‘ کی شکل میں مل ہی جائے گا ۔لیکن یہ بات ابھی سے واضح ہو گئی ہے کہ مذہبی جماعتیں جو ’غصہ‘ اور ’حب الوطنی‘ دیگر معاملات میں دکھا کر ریاست سے شاباش لیتی ہیں ۔اس سانحے پر بولنے کو تیار نہیں جو دال میں کچھ کالا ہے کہ محاورے کو درست ثابت کررہاہے۔
پاکستانی عوام کو یہ حقیقت اچھی طرح ذِہین نشین کر نی ہو گی کہ مذہب کے توہماتی اُور سیاسی استعمال نے قوموں کو کبھی عروج نہیں بخشا۔جنوں،بدَرُوحوں اُور پرَیوں کا وجود عقلی اُور سائنسی طریقے سے ثابت نہیں ہو سکا ،تو اِن طوطے وا لوں یا پگڑی والوں کے پاس کون سا ’الہ دین‘ کا چراغ ہے جو مافوق الفطرت مخلوق سے ہمیں فوائد لے کے دے سکتے ہیں ۔بہر حال یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہِ انسانی مسائل کو سمجھنا اور حل کر نا ان رجعتی ملاؤں اور شعبدہ باز عاملوں کا کام نہیں ہے ۔ یہ لوگ تاریخ کا پہیہ اُلٹا گھمانے کے چکر میں کئی جانوں کا اِتلاف کر چکے ہیں ۔
ہم سب کو چاہیے کہ اِ ن کی شرپسندی سے نہ صرف خود بچیں بلکہ دنیا پر بھی ان کی دھشت ،وحشت اُور بربریت کو عام کر یں۔سانحہ سرگودھا کے زخم آنسو بہانے یا عدالتوں میں دھکے کھانے سے یا پھر اس جعلی پیر کو پھانسی دِلوانے سے نہیں بھریں گئیں ،بلکہ ہمیں رجعتی عناصر کی لگام پکڑ کر ان کو کسی مضبوط لکڑی سے باندھنا ہو گا ،ورنہ یہ سرطان پور ے معاشرے کو نظریاتی سطع پر رُوگی کر دے گا۔ اِسی طرح سانحہ سرگودھا کہ بعد اس بات کی اہمیت بھی پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہے کہ مذہب کے سیاسی و سماجی کردار کو از سرِ نو ترتیب دیا جائے !!!۔
♣
One Comment