اللہ و اکبر،اللہ و اکبر

بیرسٹر حمید باشانی

اللہ بڑا ہے۔بے شک بہت ہی بڑا۔انسان کے بڑائی کے تصور سے بھی کہیں بڑا۔مگریہ جو آج کل ہمیں اللہ اکبر کا نعرہ سنائی دیتا ہے یہ ہمیشہ خدا کی عظمتوں کے اعتراف میں ہی نہیں ہوتا۔گاہے یہ نعرہ اس طرح بھی بلند ہوتا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کی عظمتوں کی توہین ہوتی ہے۔ کسی بے گناہ کی موت کا اعلان ہوتا ہے۔ کوئی معصوم قتل ہوتا ہے ۔مردان میں خان عبدالولی خان یونیورسٹی میں وحشت و بربریت کے ننگے ناچ کے دوران مسلسل یہ نعرہ سنائی دینا اس کی ایک مثال ہے۔

یہ نعرہ لگانے والوں کے پیچھے ایک خاص ذہن اور خاص سوچ ہے۔یہ لوگ تاریخ اسلام کے ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے نام بدلتے رہے۔ کام بدلتے رہے۔مگر ہر دور میں جو چیز ان میں مشترک رہی وہ بنیاد پرستی، اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کا ستعمال اور تشدد پسندی ہے۔۔اللہ و اکبر کا نعرہ ان لوگوں نے اتنا غلط استعمال کیا کہ اب جوں ہی یہ نعرہ سنائی دیتا ہے تو انسان خوف سے آنکھیں بند کر لیتا ہے۔

اس نعرے کے ساتھ انسانی ذہن میں آگ اور خون کے تصورات ابھرتے ہیں۔ یہ نعرہ بلند کرتے ہوئے ان لوگوں نے مساجد میں خدا کی عبادت میں مصروف لوگوں پر بم پھینکے۔ خانقاہوں اور درگاہوں میں عورتوں اور بچوں کو خون میں نہلایا۔ سکول میں بچوں پر گولیاں چلاتے ہوئے یہ نعرہ بلند کیا۔اور اب یہ نعرہ جس شکل اور جس حالت میں مردان یونیورسٹی میں بلند ہوا، وہ نا قابل یقین بھی ہے۔اور نا قابل بیان حد تک تشویشناک بھی۔ 

یہاں وحشت کا یہ بھیانک ناچ ناچتے ہوئے یہ نعرہ لگانے والے کوئی پہاڑوں میں چھپے ہوئے ان پڑ ھ دہشت گرد نہیں تھے۔یہ کسی مدرسے کے برین واشڈ طلبا بھی نہیں تھے۔یہ عام لوگ بھی نہیں تھے۔ گامے ماجھے ۔یہ تو یونیورسٹی کے با قاعدہ طلبا تھے جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ علم کے حصول میں گزارا تھا۔یہ نئی نسل کے لوگ تھے جو کل اس ملک کے جج، قانون ساز اور حکمران ہوں گے۔یہ لوگ اچانک کیسے ایک وحشی اور بے قابو ہجوم بن گئے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی دعوت دیتا ہے۔تلخ سچائی کو تسلیم کرنے اور اس کا سامنا کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔

یہ سوال ہمیں یہ سچ ماننے پر مجبور کرتا ہے کہ ہمارا سماج بطور مجموعی مکمل انتہا پسندی اپنا چکا ہے،ریڈ یکل لائزڈہو گیا ہے۔ہمارے ہاں ایک بہت بڑی تعداد میں لوگ کل وقتی طور پر مذہب کے نام پر جنون پھیلا رہے ہیں۔ان میں کئی نام نہاد علمائے کرام، طالب علم رہنما اور مذہبی سیاسی لیڈر شامل ہیں۔اس دوڑ میں کئی مدرسے، کئی مساجد اور کئی سرکاری درس گاہیں اور سب سے بڑھ کر الیکٹرانک میڈیا شامل ہیں۔مذہب کے نام پر جنون پھیلانے و الوں کے ہاتھ میں اب ایک نیا، انتہائی خطرناک اور بے حد طاقت ور ہتھیار ا گیا ہے۔ یہ ہتھیار ہے مذہب یا مذہبی برگزیدہ ہستیوں کی توہین کا الزام،جھوٹا الزام۔

اس الزام کے ذریعے یہ اپنے سیاسی یا نظریاتی مخالفین کو چپ کرانے، ان کو ذلت آمیز شکست اور موت دیکر فتح کے جھنڈے لہراتے ہیں۔ یہ سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے۔ اس سلسلہ عمل میں ان کی مقبولیت کا گراف بڑھ رہا ہے۔ان کی دہشت میں اضافہ ہو رہا ہے۔اور ان کے مخالفین دیوار سے لگتے جا رہے ہیں۔ کچھ خاموشی اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔کچھ معذرت خوانہ رویہ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔اور کچھ بے چارے ان کی زبان اور ان کی اصطلاعات میں بات کرنے کا نیا ڈھنگ سیکھ رہے ہیں۔صورت حال اب حد سے گزر کر ایک خطرناک شکل اختیار کر رہی ہے۔

اس پر اگر کسی کو شک ہے تو وہ حالیہ برسوں کے چند بڑے بڑے واقعات پر ایک بار پھر غور کر لے۔سلمان تاثیر قتل کیس کا ایک بار پھر جائزہ لے لیں۔اس کیس میں ان کی دہشت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے پاکستان کی ایک انتہائی با اثر، مین سٹریم اور برسر اقتدار سیاسی پارٹی کو دیوار سے لگا دیا۔ اور اس حد تک کہ ان کو اپنے ہی لیڈر اور گورنر کے قتل پر ڈھنگ کا ایک مذمتی بیان تک جاری کرنے کی ہمت تک نہ ہو سکی۔یہاں تک کہ اس کے جنازے میں شرکت تک سے اجتناب برتا گیا۔پارلیمنٹ میں قرار داد مذمت تک نہ آسکی۔

اس کے برعکس قاتل کو میڈیا نے ہیرو بنا کر پیش کیا۔اس کے جنازے پر لوگوں کا ایک ہجوم تھا۔اور برسی پر لاکھوں۔یہ ایک لٹمس کیس تھا۔اس کیس میں اگر حکومت اور میڈیا کا رویہ مختلف ہوتا تو شاید آج مردان والا بھیانک واقع نہ ہوتا۔یہ واقعہ کسی اچانک اشتعال کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ قتل پوری تیاری اور منصوبہ بندی سے کیا گیا۔یہ منظم دہشت گردی کا واقعہ ہے۔اس واقعہ پر ریاست ، میڈیا اور عدالتوں کا طرز عمل اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ دہشت گردی کی اس نئی شکل کو یہاں ہی روکنا ہے یا پھر اسے ایسے عفریت میں بدلنے دینا ہے جو ایک دن پورے سماج کو ہی نگل لے گا۔

Comments are closed.