علی احمد جان
پریوں کے دیس میں ۔2
ہنزہ سے نگر ہوپر جانے کے لیۓ ولیز جیپوں میں ہم سوار ہوۓ اورارد گرد کے خوبصورت نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے لیٔے اپنی نشستوں پر بیٹھنے کے بجاۓ ہر شخص نے کھڑے ہوکر منزل تک سفر کرنا پسند کیا۔ ہنزہ کے نو سو سال قدیم گاؤں گنیش سے ہوتے ہوۓ ہم نگر میں داخل ہوئے اور نگر کے تاریخی پولو گراؤنڈ سے گزر کر ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم ہوپر پہنچے جہاں نوجوانوں کی ایک ٹولی ہماری منتظر تھی ۔ یہاں سے وہ ٹولی بھی ہماری ہم سفر ہوگئی ۔
یہاں ہمارے ساتھ جانے والے سامان کو تولا گیا تاکہ اس حساب سے لوگوں کو اپنے ساتھ لے جایا جا سکے۔ حکومتی و سیاحتی اداروں اور مقامی لوگوں نے آپس میں سیاحوں کے ساتھ جانے اور بوجھ اٹھانے کے لیۓ ایک ضابطہ کار بنایا ہے جس کے مطابق دیگر باتوں کے علاوہ سامان کے بوجھ کاوزن اور پڑاؤ کا فاصلہ طے کیا جاتا ہے اور اس کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی۔ سامان کی ماپ تول ، ساتھ جانے والوں کے انتخاب اور بوجھ کی ترتیب سے اٹھانے والوں میں تقسیم کے دوران یہاں پر دوپہر کے کھانے سے تواضح کی گئی ۔
مقامی سبزی سواچل شا کی لذت جو عموماٌ گلگت بلتستان میں کھائی جاتی ہے شہرہ آفاق ہے جس کا ذکر مستنصر حسین تارڑ سے لیکر میسنر تک ہر سیاح نے کیا ہے۔ ہمارے کچھ ساتھیوں نے اسے فیری میڈوز کے بیال کیمپ میں گزشتہ ستمبر میں کھایا تھا سواچل شا کے جادو کو جانتے تھے مگر جو نئے تھے وہ بھی اس جادوی سبزی کے عشاق کے قافلے میں شامل ہوۓ ۔ کسی بھی جگہ درختوں پر لگے چیری کو توڑ کر کھانا تو گویا اس سفر کے دوران ایک روایت سی بن چکی تھی ۔ دن کے دو بجے ہوپر کے ویو پوایٔنٹ پر ایک گروپ فوٹو کے بعد ہم ہوپر گلیشیٔر کے سفر پر روانہ ہوۓ ۔
ہوپر گلیشیٔر جو ہوپر پیک سے نکلنے والا بھورے رنگ کا خوبصورت گلیشیٔر ہے جو ہوپر گاؤں سے متصل ہے۔ مجھے ذاتی طور پر جنوبی ایشیا کے ملکوں چین، ہندوستان ، نیپال اور بھوٹان کے ماہرین سے معلوم ہوا تھا کہ ان کے ممالک میں کسی بھی گلیشیٔر کو قریب سے دیکھنے اور اس پر چلنے کا تجربہ کرنے کے لیٔے کئی دنوں نہیں تو گھنٹوں کا سفر پیدل کرنا ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں تو لوگ گلیشیٔر پر رہتے ہیں اور آپ بغیر کسی تکلیف کے منجمد شمالی یا منجمد جنوبی کا تجربہ کر سکتے ہیں۔
دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کا ایک اشاریہ گلیشیٔر کے پگھلاؤ اور بڑھاوا بھی ہے جس کا معائنہ یہاں کے مقامی لوگوں کی مدد سے بہ آسانی کیا جا سکتا ہے اور کسی بھی تبدیلی کو موسمیاتی تبدیلی کی سایٔنسی تحقیق کےلیٔے بروۓ کار لایا جاسکتا ہے ۔ مگر پورے ملک کے لیٔے درکار پانی کا دارومدار ان گلیشیٔر ز پر ہونے کے باوجود ہماری حکومت اور غیر حکومتی اداروں کو ایسی فضول باتوں پر توجہ دینے کی فرصت نہیں ہے۔ کسی بھی گلیشیٔر پر چلنے کےلیٔے کوئی مخصوص راستہ نہیں ہوتا کیونکہ گلیشیٔر ہر وقت ٹوٹنے پھوٹنے کے عمل سے گزرنے کیوجہ سے مسلسل حرکت میں رہتے ہیں اور اس پر چلنے والوں کو راستہ بدل بدل کر چلنا پڑتا ہے۔
گلیشیٔر پر چلنے کے لیٔے صبح کا وقت موزوں ہوتا ہے جب برف پگھلنا شروع نہیں کرتی مگر ہمارا سفر دن دو بجے شروع ہوا تھا تب برف پگھل رہی تھی۔ ہمارے ساتھیوں میں سے آدھے پہلی بار کسی گلیشیٔر پر چلنے کے تجربے سے گزر رہے تھے ان کو شروع شروع میں چلنے میں دشواری پیش آئی کیونکہ پگھلتی برف اور مٹی کی کیچڑ ، پگھلتی برف سے پانی کا بہاؤ اور گلیشیٔر کی سطح پر بنے عارضی تالاب اور بنتی ٹوٹتی پرفانی دراڑیں چلنے میں دشواری پیدا کرتی ہیں ۔
جب ہم نے اس گلیشیٔر پر آگے بڑھنا شروع کیا تو ایک طرف آگے نظر آنے والی فلک بوس چوٹیوں کی آنکھوں کو خیرہ کردینے والی خوبصورتی اپنی طرف کھینچ رہی تھی تو دوسری طرف پیچھے دور ہوتے ہنزہ اور نگر کی خوبصورت وادی کا حسن دعوت نظارہ دے رہا تھا۔ تقریباٌ ایک سے دو گھنٹے بعد ہم نے ہوپر گلیشیٔر پار کیا اور ایک چڑھائی چڑھنے کے بعد بھرپو گلیشیٔر میں داخل ہو گئے ۔ بھرپو گلیشیٔر میار کی چوٹی سے نکلنے والے سفید رنگت کے زنانہ گلیشیٔر اور سنہری چوٹی یا گولڈن پیک ( دوسری طرف سے بلتستان مین اس چوٹی کا نام سپینٹک ہے) سے نکلنے والے بھورے رنگ کے مردانہ گلیشیٔر کا سنگھم ہے۔ شکر ہے ابھی تک اہل فتوہ کو پتہ نہیں ہے ورنہ مرد گلیشیٔر پر عورتوں اور عورت گلیشیٔر پر مردوں کا داخلہ ممنوع کردیتے۔
یہ گلیشیٔر دور سے سفید اور بھورے رنگ کی متوازی لکیروں کی طرح دکھایٔ دیتا ہے جو پہلے آپس میں ملنے کے بعد آخر میں ہوپر گلیشیٔر سے مل جاتی ہیں۔ مزید ڈیڑھ سے دو گھنٹے بعد ہم بھرپو گلیشیٔر پار کرکے دوسری جانب وسیع و عریض میدانوں کے بیچ بہتی ایک ندی اور موسم بہار میں کھلتے پھولوں کی ایک سر سبز و شاداب خوبصورت وادی میں داخل ہوۓ جو سخت پتھریلی گلیشیٔر پر چلنے کے بعد ہمارے تھکے ہوے پاؤں اور ٹانگوں کو تسکین دے رہی تھی۔
شام ڈھلے ہم بیراچو کور (شینا زبان میں اس کے معنی آڑھے ترچھے پہاڑ کے ہیں اور برشاسکی میں بیراچو نام کے آدمی یا لوگوں کے پہاڑ کے ہیں) پہنچے جہاں ہمیں رات گزارنی تھی۔ ہمارے ساتھ آنے والے مقامی جوانوں نے ہمارے خیمے نصب کیے اور ہمیں گرم گرم تومرو کی چاۓ فراہم کی جس نے پانچ سے چھ گھنٹے کی مسافت کی تھکن اتار دی۔ شام کو سب نے ہمارے ساتھ آنے والے اونچے پہاڑوں کے ماہر باورچی دیدار علی اور اس کےساتھی کریم کے ہاتھ کا پکایا لذیز کھانا خوب سیر ہوکر کھایا اور داد دیےبغیر نہ رہ سکے۔ ہمارے اس پہاڑی سفر کے راہنما جاوید نے حکم دیا کہ صبح چار بجے اگلے دن کے سفر کا آغاز کیا جائے گا تاکہ سورج کی تپش کے اثر انداز ہونے سے پہلے سامنے والے پہاڑ کو سر کیا جاسکے۔ بیراچو کور کا یہ پہاڑ تقریباٌ بالکل عمودی ہے اور اس کی بلندی کم و بیش ایک ہزار میٹر ہے۔
ہمارے کچھ ساتھیوں کا کسی عمودی پہاڑ پر چڑھنے کا پہلا تجربہ تھا ان کے لیۓ پہلے پہل کافی مشکلات پیش آئیں ۔ خاص طور پر کراچی شہر میں پیدا ہوۓ لندن میں پلے بڑھے عام زندگی میں شہری میدانوں مین بھاگنے دودڈنے والے عدنان پاشا صدیقی کو پاؤں جمانے اور آگے بڑھنے میں مشکلات پیش آئیں ۔ وائس آف امریکہ کی عائشہ تنظیم ویسے تو پہاڑوں میں چلنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں مگر اس دفعہ اپنے گھٹنے کی ایک رگ کے پھولنے کی شکایت کیوجہ سے محتاط تھیں۔
انہوں نے عدنان کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ ان کو ان کی زندگی میں اس پہلے عمودی پہاڑ کے چڑھنے میں بھر پور مدد کی۔ وال اسٹریٹ جرنل کے سعید شاہ اپنی ایک مدھم مگر مسلسل رفتار کے ساتھ آہستہ آہستہ چلتے رہے۔ سیالکوٹ کے خواجہ حسن مبارک اور بہاولنگر سے امریکہ میں مقیم امین سکھیرا دونوں ساتھ ساتھ ہے رہے۔ ایازآصف اپنی مسلسل رفتار کے ساتھ اوپر پہنچے۔ جارج ایک پہاڑی بکرے کی طرح اس پہاڑ پر سب سے پہلے پہنچ چکے تھے جس کے بعد میں تھا۔ اس پہاڑ کےاپر ایک عجیب دلکش نظارہ ہمارا منتظر تھا۔
دائیں جانب دستگیر سر کی خوبصورت چوٹیاں سامنے التر کی چوٹیاں اور لیڈی فنگر کی راعنایااں تو بایٔیں کی طرف دیران کی چوٹی اور اس کے دایٔیں بایٔیں کھڑی میار کی چوٹی اور ہوپر کی چوٹی کھڑی تھیں تو پیچھے کی جانب ایک خوبصورت سرسبز ہماری منزل کو جاتا میڈو ۔ نیچے وادی کی گہرایٔ میں ہنزہ اور نگر کیطرف جاتا بھرپو کا گلیشیٔر اور سامنے نگر کے گاؤں ہوپر سے آگے ہنزہ کے گاؤں کریم آباد، علی آباد سے ہوتا ہوا حسن آباد تک کا دلکش نظارہ ہمیں آگے بڑھنے سے روک رہا تھا ۔
یہاں ہم نے اپنے پیچھے رہ جانے والوں کا انتظار کیا اور جب سب پہنچ گیٔے تو مناظر سے لطف اندوز ہونے اور اپنے کیمروں اور موبایٔل فونز سے تصاویر کشی کے بعد ہم آگے روانہ ہوۓ۔ جب چار ہزار چار سو میٹر کی بلندی پر چلنے لگے تو احساس ہوا کہ پندرہ بیس قدم ہی مشکل سے اٹھاۓ جا سکتے ہیں ۔ چونکہ میں اور جارج تیز تیز چلنے کے عادی ہیں تو ہر دو منٹ کے بعد رک کر سانس درست کرنا پڑ رہا تھا ۔ جب تیز چلنا مشکل ہوا تو ہم نے آہستہ آہستہ چلنے کی کوشش کی جو ہماری عادت کے بر خلاف بات تھی۔
ایک دوسرے کو روک روک کر آہستہ چلنے کی مشق کرتے ہوۓ بالکل نڈھال ہم جب چیدن ہراۓ کے کیمپ میں پہنچے تو ہمارے کچن کا خیمہ نصب ہو چکا تھا اور گرم گرم چاۓ تیار تھی۔ یاد رہے کہ چیدن اس بڑے دیگچی نما بھرتن کوکہتے ہیں جو ریت اور لوہے کی آمیزش سے لداخ میں بنتا ہے جو بہت سے لوگوں کےلیٔے کھانا پکانے کے کام آتا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بلتستان اور لداخ کی غیر فطری تقسیم کے بعد اب یہ برتن یہاں نہیں آتے ۔
♠