ہم پاگل ہیں، ہم جنونی ہیں، ہم قاتل ہیں، ہم مقتول ہیں، ہم خونی درندے ہیں۔ ہم وحشی ہیں۔ ہم خردکے دشمن اور جہالت کے علمبردار ہیں۔ ہم دہشت گرد ہیں، امن کے مخالف ہیں۔ ہم ظالم ہیں سفاک ہیں۔ ہم کافر ہیں ، مرتد ہیں لیکن سب سے بڑھ کر ہم مسلمان ہیں۔ جنت کی حوریں ہم قاتلوں کا انتظار کررہی ہیں۔ یہ میرے ذہن کے وہ کافرانہ خیالات ہیں جو چھ مئی کو راشد رحمن کے قتل کے وقت میری زبان سے ادا نہ ہوسکے۔
راشد رحمن پیشے کے لحاظ سے ایک وکیل تھا، ملتان کا درخشندہ ستارہ تھاجو ملتان بار میں ہر وقت ہنستا اور مسکراتا رہتا تھا۔ وہ انسانیت پر یقین رکھتا تھا۔ لیکن مذہب پرست حلقے اسے ایک انسان دوست کی بجائے صرف مسلمان دیکھنا چاہتے تھے جو اس کے مزاج کے خلاف تھا۔ اس نے فیصلہ کیا تھا کہ سماج کے کچلے ہوئے طبقوں اور بے کسوں کی نہ صرف مدد کروں گا بلکہ سیاسی وابستگیوں اور مذہبی دائروں سے ہٹ کر خالصتاً انسانی بنیادوں پر محروم ومحکوم لوگوں کی آواز بلند کروں گا لیکن ہم مسلمانوں کو اس کی ادا پسند نہ آئی۔
انسان سے محبت کی سزا اتنی کڑی تھی کہ
نفرت کے طمانچے میرے رخسار تک آئے
راشد رحمان ایک عظیم باپ، اشفاق احمد خان(سابق سفیر ویت نام1975ء) کا ہونہار عظیم بیٹا تھا۔ ویت نام پر امریکی سامراجی حملے کے وقت اشفاق احمد خان نے پورے ملک میں ویت نامیوں کی حمایت میں نہ صرف آواز بلند کی تھی بلکہ امریکی سامراج کے خلاف بھرپور احتجاج بھی کیا۔ مظلوموں سے محبت انہیں وراثت میں ملی تھی۔ اس کے سائلوں میں زیادہ تر ہندو، عیسائی، سکھ، احمدی اور وہ مسلمان تھے جنہیں مسلمانوں کی اکثریت کافر قرار دے کر قتل کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ وہ کاروباری او رپیشہ ور وکیلوں سے دور رہتے تھے۔ وہ اعلیٰ پائے کے مقرر تھے۔ بھٹہ مزدوروں سے لے کر عورتوں اور بچوں کے حقوق کے لئے عدالتوں سے باہر سڑکوں پر بھی سراپا احتجاج رہتے تھے۔ہیومن رائٹس کمیشن،جنوبی پنجاب کا انچارج ہوتے ہوئے وہ سب کے دوست تھے۔ لیکن باوجود اس کے وہ صرف انسان دوست تھے۔
گذشتہ سال پروفیسر جنید حفیظ جنہیں جماعت اسلامی کے اساتذہ نے اس کی ملازمت چھیننے کے لئے اسے کافر قرار دے ڈالا۔ ڈسٹرکٹ بار ملتان کی اکثریت نے زور دار ہڑتالیں کر ڈالیں اور مطالبہ کیا جنید حفیظ کے خلاف توہین دین کا مقدمہ درج کیا جائے۔ یادرہے کہ اس وقت ملتان بار ایسوسی ایشن کے صدر کا تعلق پیپلزپارٹی سے تھا اور وہی مقدمہ کے اندراج کا ہنگامہ کھڑا کرنے میں لیڈنگ رول ادا کررہا تھا۔ کفر اور اسلام کی ہنگامہ آرائی میں انتظامیہ بے بس ہوگئی اور جنید حفیظ کے خلاف 294-295/C کے تحت مقدمہ درج ہوگیا۔ ڈسٹرکٹ بار ملتان نے متفقہ طور پرقرارداد پاس کی کہ جو بھی وکیل جنید حفیظ کے مقدمے کی پیروی کرے گا وہ مرتد اور واجب القتل ہوگا۔
راشد رحمن رحمان اپنی جرات اور انسان دوستی کے تحت بغیر فیس کے وکیل بن گیا۔ چونکہ مقدمہ خود ساختہ اور پولیس پر وکلاء کے دباؤ کے نتیجہ میں درج ہوا تھا۔ لہٰذا راشد رحمن نے عدالت میں چیلنج کیا تھا کہ متذکرہ دفعات ملزم پر لاگو ہی نہیں ہوتے۔ اب مذہبی شدت پسندوں پر واضح ہوگیا تھا کہ مقدمہ کے ٹرائل سے قبل ہی ملزم با عزت بری ہونے والا ہے۔ نام نہاد مدعیوں نے غم وغصے اوردیکھتے ہوئے گذشتہ پیشی پر جج کے سامنے راشد رحمن کو کھلے عام دھمکیاں دیں کہ تم بحیثیت وکیل ملزم کی پیروی سے باز آجاؤ ورنہ انجام بھیانک ہوگا۔ اس کھلی غنڈہ گردی اور بدمعاشی کے خلاف راشد رحمن ڈٹ گیا۔ اس نے اگلے روز ایک درخواست لکھی کہ مدعی مجھے مقدمے کی پیروی سے روکنے کے لئے قتل کرنا چاہتے ہیں لہٰذا مجھے ضروری سکورٹی فراہم کی جائے۔
دھمکیوں او رملزم ووکیل کو قتل کئے جانے کے پیش نظر مقدمہ کی سماعت سنٹرل جیل ملتان میں کی جارہی تھی۔ جیل کے اندرایڈیشنل سیشن جج ہر پیشی پر مقدمہ ہذا کی سماعت کے لئے جیل میں سماعت کرتے تھے۔ ان تمام حالات کے پیش نظر راشدرحمن نے سیکورٹی فراہم کئے جانے کی درخواستیں ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ملتان، ریجنل پولیس آفیسر ملتان اور ڈی سی او ملتان کو دیں۔ لیکن ان تمام بڑے افسران نے درخواستوں کو قابل غور نہ سمجھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اعلیٰ ضلعی حکام نے درخواستیں نیشنل برانچ کے کباڑ خانے میں بھجوادی تھیں۔ لیکن انتہا پسندوں نے بڑی دیدہ دلیری سے راشد رحمن کو ان کے دفتر نزد کچہری ملتان رات کو نو بجے کے قریب بڑے سکون کے ساتھ راشد رحمن کے ساتھ گفتگو کی اور پھر گولیوں کی بوچھاڑ کرتے ہوئے ان کی زندگی کا خاتمہ کردیا۔ ان کے جونیئر وکیل ندیم پرواز ایڈوکیٹ شدید زخمی ہوگئے جبکہ خاتون اسٹنٹ میز کے نیچے چھپ گئیں اور ان کی جان بچ گئی۔
راشد رحمن ایڈوکیٹ کے قتل کے واقعہ کی خبر پھیلتے ہی ملتان میں لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ کیا ہندو کیا عیسائی ، کیا سکھ، کیا احمدی او رکیا مسلمان، کیا شیعہ، کیا سنی، وہابی اور بریلوی سب کے سب راشد رحمن کے قتل پر حیرت زدہ تھے۔ بس ایک قیامت کا منظر چھا گیا۔ قتل سے پہلے تو اعلیٰ ضلعی حکام نے ایک سپاہی تک سیکورٹی کے لئے نہ دیا لیکن قتل کے بعد سینکڑوں پولیس کی گاڑیاں جائے واردات سے لے کر ان کے گھر تک پہنچ گئیں اور پولیس کے اعلیٰ افسران کی آنیاں جانیاں دیکھنے والی تھیں۔
سنا ہے قتل سورج ہو گیا ہے
وقوعے پر اندھیرے جارہے ہیں
اگلے روز دو افراد ڈسٹرکٹ کورٹس ملتان کے گیٹ پر آئے اور ایک بنڈل پمفلٹ کا پھینک گئے جس پر لکھا تھا’’ایک شاتم رسول صلعم کے مقدمہ کی پیروی کرنے والے کو قتل کیا گیا۔‘‘ ڈسٹرکٹ کورٹس ملتان کے وکلاء نے قتل کے خلاف ہڑتال کا اعلان کیا اور دھواں دھار تقریریں شروع کر دیں۔ میری آنکھوں کے سامنے ایک سال قبل والے سارے مناظر سامنے آگئے۔ یہ وہی وکلاء تھے جو شاتم رسول صلعم کا الزام دھرتے ہوئے جنید حفیظ کے خون کے پیاسے تھے اور اس کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے اور پیروی کرنے والے کو بھی سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے تھیشاید اس وقت مقدمہ کی پیروی کرنے والے وکیل راشد رحمن بھی ان کے نزدیک کچھ کم گستاخ نہیں تھے۔
اس دوران ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئرپرسن عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمن بھی ملتان پہنچ گئے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ریاست بزدل ہوچکی ہے۔ قاتل اور ظالم کے فرق کو مٹایا جارہا ہے۔ بندوق اٹھائے مٹھی بھر افراد لوگوں کو کھلے عام قتل کرتے پھر رہے ہیں۔ حکومت خود بھی ان دہشت گردوں سے ڈرتی ہے اور عوام کو بھی ڈراتی ہے۔جی پی او گراؤنڈ ملتان میں چھ بجے کے وقت نماز جنازہ ہوئی ہزاروں کی تعداد میں سول سوسائٹی، میڈیا کے لوگ، سیاسی کارکن این جی اوز سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگ شامل تھے۔ لیکن نماز جنازہ پڑھنے والوں سے زیادہ تعداد پولیس والوں کی تھی جنہوں نے جی پی او گراؤنڈ کو اپنے حصار میں لیا ہوا تھا۔
اب جنید حفیظ کولڈمیڈلسٹ انگلش لٹریچر کے ساتھ ریاست، حکومت اور خدا کی مخلوق کیا سلوک کرتی ہیں کچھ نہیں معلوم۔۔۔ملتان کےصحافی جو اپنے آپ کو ترقی پسند کہلواتے ہیں وہ بھی خاموش ہیں کیونکہ خاموشی ہی ان کا بھرم قائم رکھے ہوئے ہے۔
قفل کھلے ہوئے ہیں ، مقتل خدا کا گھر
مدینہ شکم پرست اناؤں کی زد میں ہے
حیرت سے تک رہی ہیں عقیدت کی بستیاں
اک کائنات کتنے خداؤں کی زد میں ہے
♦
نیا زمانہ ، جون 2014