مشال کا مشن روشن خیالی اور انسان دوستی تھا، نہ کہ پشتون قوم پرستی

آصف جاوید

مشال خان میرا فیس بک فرینڈ تھا، وہ خیبر پختون خواہ کی باچا خان یونیورسٹی میں جرنلزم کا طالبعلم اور میں ٹورونٹو کے علوم ِ مجلسی کے مدرسے میں روشن خیال افکارات و خیالات کا متلاشی، وہ چڑھتا سورج اور میں ڈھلتا ہو ادِن، وہ مردان کا رہائشی اور میں ٹورونٹو کا باسی۔ وہ وہ جوانِ رعناء اور میں ایک علیل بوڑھا، وہ فرزندِ زمین پختون اور میں اردو اسپیکنگ مہاجر۔

ہمارے درمیان اکثر چیزیں مشترک نہیں تھیں۔ زبان ، ثقافت، نسل ، اور افتخارِ شہریت ، سب کچھ فرق تھا۔ مگر ایک چیز مشترک تھی، ہمارے درمیان انسانیت کا ایک عظیم رشتہ تھا۔ وہ بھی ہیومنسٹ ، روشن خیال اور صاحبِ فکر تھا، اور میں بھی انسانی حقوق کا ایک ادنی کارکن ،سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور روشن خیالی کا پرچارِ ایک ادنیقلم کار۔ وہ بھی روشن خیال اور آزاد فکر تھا، اور میں بھی۔ ہم دونوں مذہب، عقیدہ، زبان رنگ و نسل سے بالا تر ہوکر دوستی کے عظیم رشتے میں بندھے تھے۔

میں اس کے جذبات اور فکر کی بہت قدر کرتا تھا، وہ میرے خیالات اور تحریروں کی بہت مدح سرائی کرتا تھا۔ وہ اکثر ان باکس یا کمنٹس کے ذریعے اظہارِ خیال کرتا تھا، فکری اور موضوعاتی گفتگو کرتا تھا۔ اس کے سفّاکانہ قتل کی وڈیو بھی ٹورونٹو میں سب سے پہلے مجھے ملی تھی، جو مجھے پاکستان سے ایک باخبر ذریعے نے ارسال کی تھی۔ جسے میں نے سوشل میڈیا کے ذریعے انسانی ضمیر کو جھنجوڑنے کے لئے، سارا دن بار بار شیئر کیا تھا۔

شدید رنج و علم کی حالت میں تین دن تک مشال خان کے سفّاکانہ قتل پر ماتم کرتا رہا، سوشل میڈیا پر انسانیت کی تذلیل کےخلاف احتجاج کرتا رہا، انسانی ضمیر کو جھنجوڑنے اور ریاست ِ پاکستان کے قبضہ گیروں کو آگاہ کرنے کے لئے اخبارات اور رسائل میں کالم لکھتا رہا۔ بطور انسانی حقوق کے ادنیکارکن ، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور روشن خیالی کے پرچارک ، مشال خان کی سفّاکانہ موت میرے لئے ایک اندوہناک انسانی ا لمیے سے کم نہ تھی۔ پوری دنیا میں موجود انسانی حقوق کے کارکنوں ، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس اور ہیومنِسٹ دوستوں نے مشال خان کے سفّاکانہ قتل، مذہبی وحشت اور جنونیت کے خلاف مل کر آواز بلند کی تھی۔ ہر مذہب، ہر عقیدے، ہر زبان و لسّانیت کے اہلِ ضمیر دوستوں نے بغیر کسی لسّانی تعصّب یا مذہبی شاخت کے اس اندوہناک انسانی المیے پر اپنا احتجاج ریکارڈکرایا تھا۔

مشال خان کی موت کی اصل وجہ اسکی مذہب پر تنقید کرناا، منطقی سوال اٹھانااپنے رائے کا آزادانہ اظہار کرنا تھا۔مشال خان کی موت سوشل میڈیا پر اس کا مذہب سے ٹکراؤ تھا۔ مشال خان وہ شخص تھا، جس نے سوشل میڈیا پر اپنا تعارّف پشتون کی بجائے بطور ہیومنسٹ کروایا تھا۔ ۔ وہ لوگ جنہوں نے مشال خان پر توہینِ مذہب کا الزام لگا کر قتل کیا، سارے کے سارے پشتون تھے، وہ یونیورسٹی جہاں مشال خان کو قتل کیا گیا، وہ بھی پشتون قوم پرست رہنما باچا خان کے نام پر قائم شدہ یونیورسٹی تھی ،جس میں ننانوے فیصد پشتون طالبعلم پڑھتے ہیں۔

الزام توہینِ مذہب کا تھا، مگر مرنے والا بھی پشتون تھا اور مارنے والے بھی پشتون تھے۔ اس کی لاش کو ننگا کرکے اس پر وحشیانہ رقص کرنے والے بھی پشتون تھے۔ اس کو توہینِ مذہب کا مرتکب قرار دینے والے اور اسکی کردار کشی کرنے والے بھی پشتون تھے۔ بعد از مرگ حقائق کو توڑنے مروڑنے بھی پشتون تھے۔ اس کا جنازہ نہ پڑھنے کا علان کرنے والے بھی پشتون تھے اور اس کو آبائی قبرستان میں دفن نہ کرنے دینے والے بھی پشتون تھے۔ طالبان کی اکثریت بھی پشتون تھی ، ملالہ کو گولی مارنے والے بھی پشتون تھا، اور خود آج اسلام کو امن و سلامتی کا دین قرار د دیکر اسلام کی سربلندی کا جھنڈا اٹھانے والی ملالہ بھی پشتون ہے۔

مشال خان کی بریّت ثابت ہونے اور اسکے قتل کی سازش منظرعِ عام پر آجانے کے بعد پشتون قوم پشیمانی اور شرمندگی کے قدرتی عمل سے گذر رہی ہے۔ کچھ سوئے ہوئے پشتو ن ضمیر جاگ گئے ہیں، اور اب مشال خان کی سفّاکانہ موت کو ایک پشتون کے سفّاکانہ قتل کے طور پر لیا جارہا ہے۔ قوم پرست پشتون جن میں سے کچھ بے چین روحیں روشن خیالی کی بھی دعوے دار ہیں، موم بتّیاں لے کر میدان عمل میں آگئی ہیں۔

ہمیں تاخیر سے ان کے ضمیر جاگنے پر اعتراض نہیں ہے۔ ہمارا اعتراض صرف یہ ہے کہ خدارا مشال خان کی عظیم قربانی کو پشتون لسّانیت اور تعصّب کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے، مشال خان ایک ہیومنسٹ تھا، روشن خیال دانشور اور مفکّر تھا، وہ پشتونوں کے ہاتھوں ضرور مارا گیا ، مگر بطور پشتون نہیں مارا گیا، اس پر توہینِ رسالت کا الزام لگا کر اسے ایک شاتمِ مذہب کے طور پر مارا گیا تھا۔ وہ ایک آزاد فکر ، صاحب دانش نوجوان ایک روشن خیال مفکّر اور لبرل سیکولر سوچ کا حامل ہیومنسٹ تھا۔

اسے سوال اٹھا نے اور تنقید کرنے اور مذہب کو للکارنے پر مارا گیا ہے۔ دنیا کا ہر صاحبِ فکر، ہر اہلِ دانش ، ہر سیکولر، لبرل اور ہیومنسٹ ، مشال خان ہے۔ مشال خان جراءت ، استقامت اور روشن خیالی کا استعارہ ہے۔ مشال خان پر پشتون قوم پرستی کا لیبل لگا کر مشال خان کی آفاقیت کا گہن نہ لگا یا جائے۔ پشتونوں کو اپنی سوچ و فکر کو پشتون قوم پرستی کے دائرے سے نکال کر انسانیت پرستی کے دائرے میں لانے اور پشتون قومی بیانئے میں تصحیح کی ضرورت ہے۔ مشال خان جیسی فکر و سوچ کے نوجوان پشتون قوم پرستی کے بیانئے میں تصحیح کا پہلا باب ہیں۔

ٹورونٹو میں مشال خان کی یاد میں موم بتّیاں جلانے کا اہتمام کرنے والے قوم پرست پشتون بھائیوں سے درخواست ہے کہ مشال خان پشتون قوم پرستی سے بالا تر ایک ہیو منسٹ تھا، اور مشال خان کی سفّاکانہ موت کا ماتم کرنے والے بھی ہیومنسٹ تھے۔ مشال خان کی پہچان کو ہیومنسٹ ہی رہنے دیا جائے، اگر مشال خان کی یاد میں ہونے والے تعزیتی اجلاس کو پشتون قوم پرستوں کی بجائے روشن خیال اور صاحبانِ فکر کی جانب سے منعقد کیا جائے اور ٹورونٹو کے تمام اہلِ فکر کو بلا امتیاز دعوتِ تعزیت دی جائے تو ، یہ مشال خان کی روح کی شانتی کے لئے پشتونوں کا انسانیت پرستوں پر احسان ہوگا۔ مشال کا مشن روشن خیالی اور انسان دوستی تھا، نہ کہ پشتون قوم پرستی۔ بس یہی آپ لوگوں کو سمجھانا تھا۔

4 Comments