مذہبی جنونيت کی ٹيکنالوجی

خان زمان کاکڑ

جنونيت افراد ميں بہت ہی کم ديکهنے کو ملتی ہے جبکہ گروپوں، جماعتوں، اداروں اور ادوار ميں جنونيت ايک ضابطہ ہے۔فريڈرک نطشے

نہ کوئی انارکی کی صورت ہے اور نہ جنگل ميں زندگی گزارنے کا مسئلہ۔ ايک جديد رياست کے ضوابط کو سمجهنے کا سوال ہے۔ توہينِ مذہب کا الزام لگا کر مخالف کو راستے سے ہٹانے کا عمل کسی بهی لحاظ سے قرونِ وسطی کی روايت نہيں بلکہ يہ مختلف طور پر سوچنے والے انسانوں کو کنٹرول کرنے کی ايک جديد ٹيکنالوجی ہے ۔ اس ٹيکنالوجی کو استعمال کرنے کا قانونی حق اگرچہ رياست کے پاس ہے، ليکن شہری بهی اس کو استعمال کرسکتے ہيں اس لئے کہ شہريوں کی حثيت اس سے بڑھ کر کچھ نہيں رہی ہے کہ رياست کيلئے رضاکار کے طور پر کام کريں۔ رياست کيلئے اس سے بڑھ کر کاميابی کا کوئی اور مقام ہو ہی نہيں سکتا جب نام نہاد شہری اس کے بے تنخواه نوکر ہونے کا ثبوت دے جاتے ہيں۔

مذہبی جنونيت کی ٹيکنالوجی کے ذريعے رياست کيلئے رضاکاروں يا بے تنخواہ نوکروں کے طور پر کام کرنيوالی جو بڑی نسل تيار کی گئی ہے اس نے دس دن پہلے عبدالولی خان يونيورسٹی مردان ميں انتہائی وحشيانہ طريقے سے ايک طالبعلم مشال خان کی جان لی۔ يہ ايک ہجوم نہيں تها بلکہ پڑهے لکهے لوگوں کی ايک انتہائی منظم گروه تھا جس نے مشال خان کوتوہينِ مذہب کا مرتکب قرار ديا، اور پهر اس کو قتل کرنے کيلئے جتنے بهی اوزار پبلک ميں ہاتھ لگ سکتے ہيں ساروں کو استعمال کيا، لاش کو بهی تشدد کا نشانہ بنايا، قتل پہ جشن منايا اور اسی کام کو جاری رکهنے کا عہد کيا ۔

يہ ايک ہجوم نہيں تها، اس لئے کہ يہ لوگ ايک دوسرے کے ساتھ نہ صرف منظم رابطے ميں تهے، آپس ميں جان پہچان رکهتے تهے بلکہ بیانیے اور ٹيکنالوجی کے ان تمام لوازمات کو بهی جانتے تهے جن سے پبلک کو متاثر کيا جاسکتا ہے۔ لوگوں کو موبلائز کرنا، تقرير کرنا، نعره بازی کرنا، سوشل ميڈيا پر باقاعدگی سے عوامی سپورٹ حاصل کرنا اور اپنے لئے جواز بنانا، مخالف کو انتہائی بےحسی سے بدنام کرنا، مخالف کو قتل کرنا، واقعے کے ويڈيوز بنانا، جشن منانا، ايک دوسرے کو مبارکباد دينا، فوراً سوشل ميڈيا پر واقعے کے حوالے سے بحث شروع کرنا، دهمکانا اوراپنے تشخص کو ابهارنے کی کوشش کرنا کسی ہجوم کی خصوصيات نہيں۔

يہ سب کچھ ايک جديد ٹيکنالوجی سے ليس کوئی منظم گروه ہی کر سکتا ہے۔ مذہبی جنونيت کی ٹيکنالوجی کا استعمال بڑا سٹريٹجک ہے۔ عبدالولی خان يونيورسٹی کے واقعے کے بعد اسی ايک ہفتے کے اندر سيالکوٹ اور چترال ميں اسی نوعيت کے واقعات رونما ہوتے ہيں۔ کيا ان واقعات کا رونما ہونا محض ايک اتفاق ہے؟ مشال خان کے کيس ميں سوشل ميڈيا پر پوسٹ کے ہوئے مواد کو بہانہ بنايا گيا، کيا اس بہانے کا فريم ان سوشل ميڈيا ايکٹويسٹس کے مسئلے سے مختلف ہے جن کو بڑی مدت تک تحويل ميں رکها گيا اور پبلک ميں بہت برے طريقے سے بدنام کيا گيا؟

مشال خان کی ہلاکت کا واقعہ جو کہ ايک جديد يونيورسٹی ميں رونما ہوا ہميں يہ موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم لبرلزم کے مُلا فوبيا فريم ورک سے نکل کر مسئلے کی گہرائی کو سمجهنے کی کوشش کريں۔ اس واقعے کا تجزيہ کرتے ہوئے ہميں دو حقيقتوں کو تسليم کرنا پڑے گا، ايک يہ کہ رياست اپنے جيسا سماج بنانے ميں بڑی حد تک کامياب ہوچکی ہے اور دوسرا يہ کہ شدت پسندی کا مسئلہ دينی مدارس تک محدود نہيں بلکہ ايک تاريخی عمل کا سوال ہے۔

اس کے ساتھ مزاحمت کے سوال پر بهی سنجيدگی سے غور کرنا پڑے گا۔ مذہبی جنونيت کا مقابلہ کرنے کيلئے لبرل حلقے جو طريقہ ہائے کار وضع کرتے آرہے ہيں، عبدالولی خان يونيورسٹی کے واقعے کے بعد ان کا سطحی پن ايکسپوز ہوچکا ہے۔ تعليم کو نجات دہنده سمجهنے کی بجائےمنظم سياسی جدوجہد کی طرف ان لوگوں کا جانا اب لازم ہوچکا ہے جو اس سماج کی زوال پذيری کو مزيد برداشت کرنے کيلئے تيار نظر نہيں آتے۔

يہ بذات خود ايک داخلی اورينٹلزم سے ماخوذ فکری صورتحال ہے کہ ايک يونيورسٹی ميں مذہبی جنونيت کے مظاہرے پہ لوگ حيرت ميں پڑ جاتے ہيں۔اس کا تو يہ مطلب ہوا کہ يونيورسٹی سے باہر جو لوگ رہے ہيں ان سے ہی وحشت کی توقع کی جاسکتی ہے اور اس سے يہ بهی ظاہر ہوتا ہے کہ وحشت سماج کے اندر کی ايک جان ليوا بيماری ہے۔ کيوں نہ اس ساده حقيقت کو تسليم کيا جائے کہ مذہبی جنونيت کا مظاہره وہاں پہ سب سے زياده واضح شکل ميں ديکهنے کو ملے گا جہاں پہ رياست کی رسائی انتہائی تيز، منظم اور قانونی ہوتی ہے۔ يونيورسٹی ايک سرکاری جگہ ہوتی ہے۔ يونيورسٹی عبدالولی خان کے نام سے منسوب ہو يا کسی اور نام سے، رياست کے دائره اختيار سے باہر کوئی کائنات نہيں ہوتی۔

ہميں تجزيے کا فريم بدلنا پڑے گا۔ يہ مذہبی جنونيت اور لبرلزم کی چپقلش سے آگے بڑهنے کا وقت ہے۔ ہم کيوں بهول جاتے ہيں کہ سرد جنگ کے دوران لبرل دنيا مذہبی جنونيت کو ايک روزگار ميں بدلنے پر کھلے عام سرمايہ کاری کررہی تهی۔ افغان جنگ ميں جہادی سوچ کو فروغ دينے کيلئے ترقی يافتہ اور ماڈرن دنيا کی يونيورسٹيوں نے ايک بڑاکردار ادا کيا تها اور اس وقت کے نشریاتی ادارے جوآج اس خطے ميں امن و برداشت پيدا کرنے کيلئے خصوصی نشريات کررہے ہيں بنيادی طور پر افغانستان ميں جہاد کو پروموٹ کرنے کيلئے بنائے گئے تهے۔

ايک فطری ہمکار کے طور پر یہ پاکستان موجود تها، جسکو استعمال ميں لانے کيلئے صرف ڈالرز کی ضرورت تهی۔ پاکستانی رياست کی نوعيت اور سرمايہ دار دنيا کی سياست کا جو فطری تعلق بنتا تها اس سے ضياء الحق نامی شخص کا ظہور ہوا جسے ساری تباہی کے واحد ذمہ دار کے طور پر پيش کيا جاتا ہے۔ ضياء الحق سے پہلے کی رياست کيا تهی اور ضياء الحق کے بعد رياست کی پاليسی ميں کونسی تبديلی آئی، اس پہ بات کرنا مقبول لبرل بيانيے کا حصہ نہيں۔

پاکستان ميں مذہبی جنونيت کی ٹيکنالوجی کی ترويج و استعمال کا ايک تاريخی تسلسل ہے جس کے نتيجے ميں ايک پورا رياستی انتظام اور ايک مادی و سياسی صورتحال وجود ميں آئی ہے ۔ جس طرح قانون اپنے ساتھ رياست کا تابعدار معاشره وجود ميں لاتا ہے،اسی طرح قانون کا نفاذ ايسے شہری پيدا کرتا ہے جو اپنے اوپر بهی قانون کا نفاذ کرتے ہيں اور دوسروں کے اوپر بهی۔ يہ شہری جو رضاکاروں کے طور پر کام کرتے ہيں کسی بهی لحاظ سے رياست کی رٹ کو چيلنج نہيں کرتے بلکہ رياست کی رٹ کو ڈسٹری بيوٹ کرتے ہيں۔ وه وقت شايد گزرچکا ہے کہ رياست سماج سے کافی مختلف کوئی انتظام ہوا کرتی تهی۔ اب روزمره کے معاملات ميں بهی اکثر يہ محسوس کيا جاسکتا ہے کہ رياست اور سماج ايک دوسرے سے کچھ زياده مختلف نہيں۔

مذہبی جنونيت، عدمِ برداشت اور تشدد کا سوال اب صرف انفراسٹرکچر تک محدود نہيں، بلکہ ايک سماجی نوعيت کا سوال بن چکا ہے۔ رياست کو سماج کے اوپر کنٹرول بڑهانے کا مطالبہ کرنے والوں کو شايد پتہ نہيں ہے کہ يہ تو سماج کے اوپر رياست کے کنٹرول سے ہی ممکن ہوا کہ تاریخی ميں امن اور انسان دوستی کے عظيم حوالے رکهنے والے معاشروں ميں بهی اب ايسے جنگجو پيدا ہوئے ہيں جس کا تصور ہميں صرف سٹيٹ نيشنلزم کی کہانيوں ميں ملتا تها۔

جو زبان عبدالولی خان يونيورسٹی ميں ايک منظم گروه نے بولی، اس زبان کو ترويج دينے کيلئے بہت بڑی سرمايہ کاری ہوئی ہے اور ہورہی ہے۔ پاکستان مذہبی جنونيت کی ٹيکنالوجی کے ذريعے ايک ڈسپلنری سوسائٹی‘ (ميشل فوکو کی اصطلاح) بنانے ميں خاطر خواه کاميابی حاصل کرچکا ہے۔ يہ سوسائٹی اب خود اپنے آپ کو ايک خاص نظم و ضبط ميں رکهنے کی صلاحيت رکھتی ہے۔ يہ خاص نظم و ضبط کيا ہے؟ کوئی نہ کسی بهی قسم کی بالادستی کی مخالفت کرے، ورنہ رياست سے پہلے رياست کے رضاکار ايکشن ميں آسکتے ہيں۔

يہ ايک ايسی سوسائٹی ہے جس ميں کسی مختلف سوچ کے بندے پر سب سے پہلے اس کے ساتهی کڑی نظر رکهتے ہيں اور کسی قانونی ادارے سے پہلے اس کے ساتهی ہی اس کی زندگی کے حدود متعين کرتے ہيں۔ يہ جو تعليمی اداروں ميں اساتذه کہتے ہيں کہ وه اپنے شاگردوں کی اخلاقی تربيت کرتے ہيں اس کا يہی مطلب ہوتا ہے کہ وه اخلاقيات کے نفاذ ميں تاخير کرنے والے رياستی اداروں کا انتظار نہيں کرينگے بلکہ خود ہی معاشرے کی اخلاقيات کی پاسداری و نفاذ کی ذمہ داری نبهائیں گے۔ انسانی آزادی کی طرف رياست اور اس کے رضاکاروں کی اپروچ ايک ہے۔ قانون اور ماورائے قانون سزاؤں کی نوعيت بهی ايک ہے۔ ان دونوں ميں عوام کے انتخاب کا معيار مختلف ہوتا ہے۔ عوام کاالميہ یہ ہے کہ وه ڈسپلنميں رہنے کو ايک تہذيبسمجهتے ہيں۔

يہ حقيقت اب سامنے آچکی ہے کہ مشال خان کے خلاف یونیورسٹی کا پورا انتظامی، تعلیمی اورسیاسی نظام سرگرم تھا۔ وجہ کيا تهی؟ مشال خان پڑهتا تها اور احتجاج کرتا تها۔ پڑهنا اور احتجاج کرنا پاکستان کے کسی بهی تعليمی ادارے ميں ڈسپلنکی خلاف ورزی سمجها جاتا ہے۔

مشال خان ادبيات، پوليٹکل اکانومی اور اپنی قومی تاريخ کی کتابيں پڑهتا تها۔ تنقيدی مباحث کو رواج دينا چاہتا تها۔ ترقی پسند قوم پرست تها۔ اس کو ملک اور يونيورسٹی کے ضابطوں سے اختلاف تها اور احتجاج کرتا تها۔ اسے اس جرم کی پاداش ميں قتل کيا گيا۔

مشال خان کی شہادت کے بعد معذرت خواہوں نے بے گناہی کا جو بيانيہ تشکيل دينے کی کوشش کی اس سے مذہبی جنونيت کی ٹيکنالوجی کو اور بهی تقويت ملی۔ بہت ساری معلومات کے منظرعام پہ آنے کے باوجود اس کی مظلوميت اور بے گناہی کا بيانيہ حاوی رہا اور کسی نے يہ کہنے کی جرات نہيں کی کہ مشال خان ايک بہادر نوجوان تها جو کسی بهی طور آزادی سے سوچنے اور آواز بلند کرنے کے حق سے دستبردار نہيں ہوا۔

رياست کے رضاکاروں کی دو قسميں ہيں۔ ايک وه طبقہ ہے جو کسی کو گناہگار ڈکلئير کرتا ہے اور اس کو سزا ديتا ہے۔ دوسرا وه طبقہ ہے جو کسی وکٹم ( مظلوم /شکار) کو بے گناه ثابت کرتا ہے اور اس کی ساری کہانی مظلوميت کے بيانيے ميں سميٹ ديتا ہے۔

دن ديہاڑے ايک يونيورسٹی ميں ايک منظم منصوبے کے تحت ايک نوجوان کو انتہائی بے رحمی سے قتل کيا جاتا ہے اور لوگ اس بحث ميں پڑے ہوئے ہيں کہ کيا اس نے واقعی مذہب کی توہين کی تھی۔

بے گناہی کے بيانيے کاايک خطرناک پہلو کبهی يہ سامنے آتا ہے کہ جب توہين مذہب کےالزام ميں کسی واقعے کےخلاف احتجاج کرنے والے لوگ مذہب سے حوالے دينا شروع کرجاتے ہيں۔ کہتے ہيں کہ مذہب کبهی بهی تشدد نہيں سکهاتا، مذہب ميں معاف کرنا سب سے بڑا وصف ہے اور جو ظلم و بربريت کا مظاہره کرتے ہيں وه کبهی بهی مذہبی لوگ نہيں ہوسکتے۔ اس طريقے سے اصلی اسلامکا بيانيہ تراشا جاتا ہے جو کہ ايک رياستی پراجیکٹ ہے اور بنيادی طور پر مذہبی جنونيت کے ضابطے کا حصہ ہے۔

ترقی پسند لوگ جتنا مذہبی جنونيت کے حوالے سے معذرت خواہانہ رويہ اپنائيں گےاتنا ہی وه اپنے آپ کو مخالفين کے سامنے بے بس پائیں گے۔

مذہبی جنونيت کا سماجی سطح پر اس طرح کا اظہار اور ابهار بہرحال يہ واضح کرتا ہے کہ ترقی پسند سياست سماج ميں خطرناک حد تک کمزور ہوچکی ہے۔ اس کمزوری کی اپنی محرکات اور تاريخ ہے جسے سمجھے بغير ہم آگے نہيں بڑھ سکتے۔

Twitter: @khanzamankakar

2 Comments