ریاضی کا نام لیتے ہی ہمارے سامنے ا یک دیو قامت نام آکر کھڑا ہوجاتا ہے یہ نام ساموس میں 582 ق م میں پیدا ہونے والے فیثا غورث کا ہے جسے ریاضی کا باوا آدم کہنا درست ہوگا ریاضی سے ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ اپنی اکادمی پر ایک اعلان آو یزاں کر رکھا تھا جس پر لکھا تھا:۔
’’ جو شخص ریاضی سے ناواقف ہو اس میں داخل نہیں ہوسکتا‘‘
قدیم یونان میں کئی علاقوں، قوموں اور ملکوں کے باشندوں کی تجارت کی غرض سے آمد و رفت رہتی تھی اپنے قیام کے دوران وہ مقامی لوگوں سے تبادلہ خیال بھی کرتے رہتے تھے چنانچہ نوع بنوع ثقافتی ، سماجی اور مذہبی پس منظر رکھنے والے افراد کے نظریات کا یونانیوں کی زندگی پر گہرا اثر مرتب ہوا۔
’’ جب ایک طبقہ کو بود وباش کی ضرورتوں سے فراغت ملی تو ان کی توجہ علم و عرفان اور کائنات کی توجیہ کی جانب ہوگئی چنانچہ اس دوران مختلف نظریات پیش کئے گئے فیثا غورث اور اس کے شاگردوں نے کائنات کی توجیہ ریاضی کے اصول مجردہ سے کرنے کی کوشش کی اسے تاریخ فکر میں بڑی اہمیت حاصل ہے آج ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ریاضی سائنس کی اساس ہے۔
ریاضی نے منطق اور سائنس کے لئے ٹھوس بنیادیں فرہم کردیں کیونکہ دوسری قسم کے مجرد تصورات اتنے یقینی نہیں ہوتے ہیں جتنے کہ ریاضی کے تصورات ہوتے ہیں یہ قابل ثبوت بھی ہوتے ہیں اس کے استحکام کی یہ حالت ہے کہ کوئی چیز یا کسی کا ارادہ د و اور دو کو پانچ نہیں بنا سکتا ہے نہ ہی وہ دائرے کو مربع بنا سکتا ہے خارجی فطرت کے اعلیٰ درجے کے لئے جتنی چیزوں کی ضرورت ہے وہ سب ریاضی میں مل سکتے ہیں۔
علم و حکمت پر صدیوں تک مذہبی پیشواؤں کی اجارہ داری رہی اور ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ عوام کو اس سے دور رکھا جائے مصر قدیم تہذیب و تمدن کا مرکز تھا اور پھر یونان سے زیادہ دور بھی نہیں تھا یہاں پروہتوں نے تمام علوم و فنون کو مذہب کے احاطے میں لیا ہوا تھا اگرچہ ریاضی کا مذہب سے براہ راست تعلق نہیں تھا لیکن پروہت اسے نجوم اور فال میں استعمال کرتے تھے یونانیوں نے ان سے بھی بہت کچھ سیکھا اور اسے پروہتوں کی اجارہ داری سے نکال کر کمال تک پہنچا دیا تھا۔
جس طرح ایک وکیل اپنا مقدمہ ایک خاص نکتے کے گرد گھماتا ہے اسی طرح بعض مفکرین نے بھی کیا ہے جیسا نائدیس کا آبی فلسفہ، ہیریقلتس کا اضداد کی آویزش اور کارل مارکس کا جدلیات کا تاریخ پر اطلاق اور قدر زائد سے سرمایہ دارانہ استحصال کا پتہ لگانا اسی طرح فیثا غورث اور اس کے شاگردوں کو بھی ریاضی کا اصول کیا ہاتھ لگا کہ انہوں نے اس اصول کو ہر شعبہ زندگی پر حاوی کر دیا اور زبردستی سے ہر چیز کی توجیہ اسی ایک اصول سے کی جانے لگی بعض حکیم بھی یہی غلطی کرتے ہیں جب ان کے ہاتھ کوئی مفید نسخہ لگ جاتا ہے اور وہ ایک یا دو امراض میں واقعی مفید ثابت ہوجاتا ہے تو پھر وہ اسے ہر مرض کے لئے تجویز کرتے ہیں چونکہ فیثا غورث کو ریاضی کی بعض خوبیاں معلوم ہوگئی تھیں تو وہ اس وہم میں مبتلا ہوگئے کہ زندگی کے تمام اخلاقی، سیاسی اور روحانی مسائل ، ہر قسم کا حسن و جمال، ہر قسم کا خیر و شر، ہر قسم کا نغمہ و شور ، خدا، دیوتا ، جنت، دوزخ ، تکوین کائنات ، تخلیق اشیاء اور مقصد حیات اس کے اندر مضمر ہے۔
اس کے افکار اور فلسفہ کے مطابق دنیا میں جہاں تناسب اور توازن پایا جاتا ہے وہ اعداد کی خاص نسبتوں کی وجہ سے ہے ہندسہ، ہیت، موسیقی، سب کا دار ومدار اعداد پر ہے کائنات کی حقیقت عدد ہے اور اشیاء اعداد محسوسہ کا نام ہے ہر وجود ایک عدد کا نمائندہ ہے اور علم کا مقصد یہ ہے کہ ہر شے کا عدد دریافت کرئے کسی شے کے سمجھ میں آجانے کے معنی اس کے عدد کا دریافت کرلینا ہے۔
مختصر یہ کہ فیثا غورث نے اعداد کو ایک رموزی علم بنا دیا ہر عدد کی خاصیت مقرر کردی جس سے بڑے توہمات پیدا ہوئے جو آج بھی مہذب اور تعلیم یافتہ انسانوں کا پیچھا نہیں چھوڑتے کئی لوگ تین اور تیرہ کے ہندسے کو منحوس خیال کرتے ہیں سات کا عدد اکثر قوموں میں مبارک شمار ہوتا ہے یورپ کے بعض مہذب شہروں میں کسی مکان پر تیرہ کا عدد نہیں ہوتاجب کسی گلی یا بازار میں نمبر تیرہ کا مکان آتا ہے تو اس پر جمع بارہ لکھ دیتے ہیں اور اس سے اگلے مکان پر چودہ بیچ میں سے تیرہ غائب کردیتے ہیں رمل و جعفر بہت سے علم اعداد کی خاصیتوں پر مبنی ہے فیثا غورثیوں کے اعداد کے فلسفہ نے ہندوؤں اور مسلمانوں میں بھی نفوذ کیا چنانچہ وہ بھی مختلف اعداد کو مبارک اور منحوس تصور کرتے ہیں آج سے کئی برس پہلے مسلمان اور ہندو پچاس اور سو کے ہندسے کو بھی منحوس خیال کرتے تھے چنانچہ کسی مبارک موقع پر کسی کو نقد دیتے ہوئے اکیاون روپے یا ایک سو روپے دئیے جاتے تھے اس حوالے سے ایک قصہ بھی مشہور ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی جائیداد ایک ہندو امیر کے ہاتھ فروخت کردی قیمت ایک لاکھ روپے قرار پائی جب پیسے دینے کا وقت آیا تو ہندو امیر نے مسلمان فروخت کرنے والے سے کہا کہ پورا لاکھ منحوس عدد ہے تم نناوے ہزار قبول کرلو بیچنے والے نے کہا کہ اگر یہی بات ہے تو ایک لاکھ ایک ہزار کیوں نہیں دیدیتے توہم اور حب زر کی اس کش مکش میں آخر توہم غالب آگیا اور خریدار کو خواہ مخواہ ایک ہزار ایک روپیہ زائد دینا پڑا ۔
اگر آپ بھی اعداد کے مبارک اور منحوس ہونے پر یقین رکھتے ہیں تو اس طرح کا نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اعداد کے مبارک اور منحوس ہونے کا خیال جوئے میں زیادہ محسوس کیا جاسکتا ہے گھڑ دوڑ کے موقع پر بازی لگانے والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے مبارک نمبر حاصل ہو نجومی اور فالگر بھی اس سے کام لیتے ہیں اور اعداد سے قسمت کا حال بتاتے ہیں لیکن ان کی حقیقت یہ ہے کہ ان سے حساب اور سائنس میں تو مدد لی جاسکتی ہے اور لی جا رہی ہے البتہ جوئے یا قسمت کا حال جاننے کے لئے اس کا استعمال عبث نظر آتاہے چونکہ زیارتوں پر زیادہ تر ناخواندہ اور توہم پرست جاتے ہیں لہٰذا پیر اور نجومی بھی اپنے کاروبار کے لئے ان مقاما ت کا رخ کرتے ہیں جہاں ناخواندگی ہو۔
یہ 1984ء کی بات ہے میں اور میرا دوست محمد اشفاق جو کہ اب ایبٹ آباد میں وکیل ہے کراچی کے علاقہ کلفٹن میں ایک مشہور زیارت عبداللہ شاہ غازی پر زیارت کے سربراہ کے بچوں کو پڑھانے کے لئے جاتے تھے ایک مرتبہ اشفاق فٹ پاتھ پر نجومیوں کو بیٹھے دیکھ کر رک گئے اور تماشا کرنے لگے لوگ ان نجومیوں کے اردگرد جمع اپنی قسمت کا حال معلوم کرنا چاہتے تھے میں بھی کھڑا ہوگیا مگر کچھ دیر کے بعد میں نے ایک فال نکالنے والے سے کہا ۔
’’ بھئی! دوسروں کا حال بتانے والے بھائی مہربانی کرکے یہ بتادو کہ آپ خود اس فٹ پاتھ پر کب تک بیٹھے رہو گے ‘‘
♦
(مضمون کا بنیادی تصور اور بعض فقرات باری ملک کی کتاب سے لئے گئے ہیں)