عباس خان
پچھلے دِنوں ایک کتا ب زیرِ مطالعہ رہی۔ کتاب کا عنوان تھا ’قا ئداعظم محمدعلی جناح ، ہندوستانی رہنماوں کی نظر میں‘کتاب کو محمد جہانگیر عالم نے مُرتب کرکے الفیصل ناشران و کُتب لاہور سے شائع کیا گیا ہے۔اس کتاب میں ہندوستان کے تین پائے کے رہنماؤں ، جو کہ جناح صاحب کے دوست بھی تھے ، کے آرا ء کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ تین رہنما ء سروجنی نائیڈو ، ڈاکٹر سچد سنہا اور کانجی دو آر کاداس تھے۔
اگر چہ اُس وقت ہندوستان کے صرف ہندو رہنُما نہیں تھے بلکہ بہت سے مسلمان رہنُما بھی تھے اور اُن کی رائے بھی جناح صاحب کے بارے میں وقتاً فوقتاً کتاب یا کسی آرٹیکل کی شکل میں شائع ہوتے رہے، تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کتاب کے مُرتب کرنے والے نے صرف ہندوؤں کے ان تین رہنماؤں کی آراء کو اس کتاب میں کیوں شامل کیا؟
بظاہر تو یہی وجہ نظر آتی ہے کہ پاکستان میں جناح صاحب کے مُتعلق مُعدودے چند کے تقریباً تمام کُتب یا آرٹیکل جو شائع ہوئے، وہ اُن لوگوں نے زیرِقلم کئے جو مُسلمان تھے اور جناح صاحب کو صرف ایک ہی پہلو میں پیش کرنا چاہتے تھے۔اور ساتھ یہ کہ جناح صاحب کے متعلق حقائق کو یا تو مسخ کیا گیااور یا یہ کہ ان حقائق کو در پردہ رکھا گیا۔اسکے علاوہ جو وجہ نظر آتی ہے وہ پاکستان میں عمومی یہ خیال کہ جو کچھ بھی ہندو کے قلم سے لکھا اور زبان سے بولا جا ئے گا وہ تعصب پر مبنی ہوگا۔
تقریباً جتنی بھی کتابیں اور آرٹیکل جو کہ پاکستان میں شا ئع ہوئے اور جو میری نظر سے گزرے ان میں لکھنے والوں (ڈاکٹر صفدر محمود، حامد میر . ہارون رشید وغیرہ)نے جناح صاحب کے بارے میں جو لکھا ہے ان سے جناح صاحب کی ایک روحانی شخصیت سامنے آتی ہے جس کے سر کے اوپر ایک روحانی حالہ ہر وقت محوِگردش رہا ہو۔ برعکس اِس کے جناح صاحب مغربی اداروں سے تعلیم سے آرستہ ایک سکیولر انسان تھے، جو کہ سِگا ر پیتے تھے اور وہ گوشت بھی کھاتے تھے جیسے ہمارے یہاں نام لینا بھی گوارا نہیں کیا جاتا۔کبھی کبھی وہ مُنہ کو وہ کافر بھی لگاتے تھے جیسے عُرفِ عام میں شراب کہا جاتا ہے۔
ان سب باتو ں کے باوجود جناح صاحب ویسے ہی اُصول پرست، محنتی، اور مقناطیسی شخصیت کے مالک رہے، حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اِ ن خرابات کے اپنانے سے ان کی شخصیت کو زنگ لگ جاتا، تاہم جنا ح صاحب ان خصوصیات کے ساتھ ہی اپنے مالک حقیقی سے ملے۔
مثلاًاس کتاب میں جناب ڈاکٹر شچد انند سنہا جو کہ ممتاز وکیل ، اخبا ر نویس ، سیاست دان اور ماہر تعلیم تھے، نے جناح صاحب کے ساتھ ایک ملاقات کا حوالہ دیا ہے۔ اس ملاقات میں جناح صاحب ، ڈاکٹر صاحب کے علاوہ رفیع الدین صاحب بھی موجود تھے۔ اس مُلاقات میں رفیع الدین صاحب نے جناح صاحب سے کچھ سوالات کیے۔ وہ سوالات اور ان کے جوابات یہ ہیں۔
رفیع الدین :۔مسٹر جناح ، آپ اِس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ آپ بمبئی پریذیڈنسی کے مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہیں؟
جناح:۔ کون اِس پر شک کر سکتا ہے؟ آپ کرتے ہیں؟
رفیع الدین :۔مجھے افسوس ہے کہ آپ جیسے لوگ ان کی نما ئندگی کریں گے جو اسلام اور پیغمبرانِ اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہیں اور نہ اسلامی احکام کی پیروی کرتے ہیں۔
جناح:۔ یہ آپ کس طرح کہہ سکتے ہیں؟ میں اچھی طرح جانتا ہوں ، آپ سے کہیں زیادہ۔
رفیع الدین :۔ آپ کے کہنے کے مطابق آپ جانتے ہیں، تو یہ بتا ئیں کہ آپ دعوی کرتے ہیں آپ عربی یا فارسی جانتے ہیں؟
جناح : مجھے کیا ضرورت ہے عربی یا فارسی جاننے کی؟ میں نہ تو عرب ہوں اور نہ ایرانی ، میں تو ہندوستانی ہوں اور یوں مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے کہ میں عربی یا فارسی جانوں۔
رفیع الدین :۔لیکن کیا آپ اردوجانتے ہیں؟
جناح :۔اس حد تو ضرور جانتا ہوں کہ میں اپنے چھوکروں اور جمالوں سے بات کر سکوں۔ مجھےعدالتوں اور ارکان جیوری سے اردو میں بات نہیں کرنی ہوتی ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ مجھے زیادہ زبان جاننے کی ضرورت نہیں ہے، ویسے میں گجراتی اچھی طرح جانتا ہوں ۔
رفیع الدین:۔لیکن آپ عربی نہیں جانتے ہیں ، تو آپ عبادتیں کس طرح کر سکتے ہیں؟
جناح:۔عر بی میں عبادت کیوں کروں؟ میں کوئی ایسا زبردست گنہگار نہیں ہوں ،۔ قطعِ نظر اس سے یقینی طور پر میں جس زبان اِلتجا کروں گا خُدا اسے سمجھے گا ۔(جناح صاحب کا یہ جواب غور طلب ہے)۔
رفیع الدین:۔اور آپ اپنے ملبوسات ، کھانے پینے اور مشروبات کے سلسلے میں کیا کہتے ہیں؟
جناح :۔ لباس کا شریعت سے کیا تعلق ؟ یقینی طور پر مُختلف مسلم ممالک کے لوگوں کا پہناوا مختلف ہیں حتی کہ ہندوستان میں بھی مسلمان ایک طرح کا لبا س استعمال نہیں کرتے ۔ جہاں تک کھانے پینے کا معاملہ ہے اسکا تعلق ذاتی پسند و نا پسند اور ہاضمے سے ہے نہ کہ مذہبی رسم و رواج سے۔
رفیع الدین :۔ (فتح مندی کے عالم میں میری طرف دیکھتے ہوئے ) دیکھئے دیکھئے اپنے بمبئی کے رفیق کو ملاحظہ فرمائیں اور دیکھئے کہ کیا کہ رہے ہیں ، یہ عربی ، فارسی حد تو یہ ہے کہ اُردو بھی نہیں جانتے ہیں۔ یہ کبھی عبادت نہیں کرتے ہیں اور حلال حرام کو کھانے پینے میں شریعت کا اِحترام نہیں کرتے ہیں اور آپ اور اس با ت پر غور کیجیے مسٹر سنہا۔
(پتہ نہیں رفیع الدین کا اس قسم کے سوالات سے کیا ثابت کرنا تھا، تاہم میرا مقصد جناح صاحب کا مذہب سے متعلق نقطہِ نظر کو ڈاکٹر سنہا کی وساطت سے آپ پڑھنے والوں کے سامنے لانا تھا۔ آگے چل کر ڈاکٹر سنہا جناح صاحب کے فرقہ پرستی سے نفرت کے بارے میں کتاب کے صفحہ نمبر36 پر ، جب جناح صاحب 1936ء میں دیال سنگھ کالج لاہور میں مہمان خصوصی کے طور پر مدعو تھے ، نے فرقہ پرستی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا۔
َِ ‘مجھے محسوس ہو رہا ہے میں ان لوگوں کے درمیان آگیا ہوں جن سے میرا روحانی رشتہ ہے۔ یہ کالج کسی عقیدے کو نہیں مانتا۔ میں خود یہ محسوس کر تا ہوں کہ ہندوستان کی نجات غیر فرقہ پرستانہ مسلک میں ہے اور یہی وہ عقیدہ ہے جو ماضی میں ، میں رکھتا تھا، جو آج بھی ہے اور جو مستقبل میں بھی رہے گا اور جیسے میں دل سے رکھتا ہوں‘۔
نہ صر ف یہ کہ جناح صاحب نے فرقہ پرستی کے خلاف لب کُشائی کی بلکہ آنے والے وقتوں میں واضح ترین الفاظ میں ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ پاکستا ن کا آئین کسی پاکستانی کو مذہبی نقطہ نگاہ سے نہیں تولے گا۔ جناح صاحب کی بہت سی تقاریر ، انٹرویوز وغیرہ اس با ت کا ثبوت ہیں کہ جناح صاحب ایک سیکولر شخصیت کے مالک تھے، خاص کر اُنکی 11 اگست کی اہم تقریر جسکی طر ف بہت سے لبرل لکھنے والوں کے علاوہ معروف مذہبی سکالر علامہ غامدی صاحب نے بھی اپنی تارہ ترین کالم جو کہ 21 فروری 2015 کو جنگ اخبار میں شائع ہوا، کی طرف اشارہ کیاہے ۔
ٓآگے چل کر اسی کتاب میں ڈاکٹر سنہا جناح صاحب کے لبا س کے بارے میں لکھتے ہیں۔
جناح صاحب سر تا پا مغر بی طرز کے لباس میں سب سے زیادہ خوش پوشاک انسان تھے ، وہ بہترین اور مہنگے درزیوں سے اپنے کپڑے سلواتے تھے اور اسی طرح لندن کا کلاہ سازوں اور جوتا فروشوں کے یہاں سے ان کے لئے مُتعلقہ سامان فراہم کیے جاتے۔
تاریخ مسخ کرنے کی اسی روایت نے بعد میں آنے والے سیاسی لیڈروں کے لئے مذہبی جذبات کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں ، آئین اور ریاست کو تقوی دار بنانے کہ ٹھان لی۔ نتیجے کے طور پر ہم اپنے پہلے آئین میں قرادادمقاصد کو دیکھتے ہیں۔
ایوب خان اگر چہ باہر سے سیکولر اور روشن خیال دکھائی دے رہے تھے تاہم انہوں نے لوگوں کو خوش کرنے کے لئے ڈاکٹر عطاء الرحمن کے زیرنگرانی اسلامی نظریاتی کونسل کی بُنیاد رکھ دی۔جس کا کام نہ صرف اُس وقت کے مذہبی جماعتوں کو رام کرنا بلکہ تمام قوانین کو اسلامی بنانا اور نئی اسلامی تحقیق بھی کرنا تھا۔
بھٹو اگر چہ شراب پیتے تھے، تاہم جمعہ کی چھٹی ، معاشرتی علوم کا تدریسی شمولیت اور اسی طرح کے دوسرے اقداما ت تھے۔مزید بڑھتے ہوئے بھٹو نے1973ء کے آئین میں ترمیم کرکے ’احمدیوں‘ کو غیر مسلم قرار دے دیا۔ اِس ایک اقدام سے مذہبی جماعتوں کی یہ دیرینہ خواہش پوری کی گئی کہ 1973ء کے آئین کو با وضو کیا جائے۔ ؛بھٹو صاحب کا یہ اقدام اسلام کی سربلندی کے لئے نہیں بلکہ ایک سیاسی مصلحت تھی، جس کا خمیازہ ہماری اقلیتی براداری آج تک بھگت رہی ہے۔
بھٹو سے ہوتے ہوئے ہم زمانہ مردِمومن ضیاء الحق کے دور میں داخل ہوجا تے ہیں ۔ ضیا ء الحق کا صر ف ایک ہی منشا تھاکہ لوگوں کو اُن کے نظریے کا مطابق مسلمان کے کیا جائے ۔ اس مقصد کے لئے ضیا ء صاحب نے اپنے دور میں حدود آرڈیننس کا اجراء کیا۔ان کے خیال میں لوگوں کو مسلمان بنانے اور جناح کے نام نہاد مذہبی تصور کو عام کرنے میں یہ بدنامِ زمانہ آرڈ ینس ان کی مدد کریگا۔
جناح صاحب مزید آگے بڑھے اور اپنے روحانی استاد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نصابی کتابوں میں جہاد اور دیگر اسلامی تصورات کا اجراء کیا۔رہی سہی کسر ضیاء صاحب کا پین اسلامزم کا تصور تھا جس کے تحت ہماری خارجہ پالیسی کا تبدیل ہونااور دوسرے ممالک میں دخل اندازی کرنا۔ پین اسلامزم کو فروغ دیتے دیتے ہمارا اپنا معاشرہ کلاشنکوف ، مہاجروں اور افیون کاروبا ر کی آماجگاہ بن گیا۔ضیاء دور کی کارستانیوں کو پاکستانی قوم ابھی تک بھگت رہی ہے۔
مختصراً جنا ح صاحب کو مُتقی اور پرہیزگار کرتے کرتے ہم نے نہ صرف تاریخ کو مسخ کیا بلکہ اب مجموعی طور پر معاشرے کو مسخ کر رہے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم جناح صاحب کہ شخصیت خواہ وہ مذہبی طور پر چاہے جیسے بھی ہو اُن میں جھانکنے کی کوشش نہ کریں ورنہ وہی ہوگا جو ہوتا آیا ہے اور ہو رہاہے اور ہم اپنے حال اور مستقبل کو تباہ کر تے رہیں گے۔
انہیں تباہ کاریوں ، ذہنی پسماندگی اور رُجعت پسندی نے معاشرے کو مکمل انحطاط کے قریب لا کھڑا کیاہے۔
اِسی دوران ڈاکٹر سنہا انگلستان چلے گئے۔ سات سال گذارنے کے بعد جب واپس تشریف لائے تو ملکی کی سیا ست سے بے خبر تھے نئے سیاسی اُتار چڑھاؤ کے بارے میں اپنے آپ کو باخبر رکھنے کے واسطے جنا ح صاحب سے استفسار کیا، تو جنا ح صاحب نے ان الفاظ میں جواب دیا۔
’ملک، کیسا ملک اور کہا ں کا ملک؟ ہمارے یہاں کوئی ملک نہیں ، صر ف ہندو ہیں اور مسلمان ہیں۔ ‘
اگر غور سے دیکھا جائے تو جناح صاحب کے نقطہء نظر میں یہ بڑی تبدیلی صرف کانگرس کے رہنماؤں کے رویوں کی وجہ سے پیداہوا تھا، یعنی اگرکانگریسی رہنما جناح صاحب اور عموماً مسلمانوں کے مفادات کے تخفظ کو یقینی بناتے ، تو مسلم لیگ وجود میں نہ آتی۔اور نہ پاکستان بنانے کی نوبت آتی۔
ڈاکٹر اسچد کتا ب کے آخری صفحات میں رقمطراز ہیں۔
’میں سمجھتاہوں جنا ح میں یہ تبدیلی کانگرس لیڈران کی رویے میں تبدیلی سے جڑی ہوئی تھی۔برطانیہ کے حکمران جب کانگرس کی طرف جُھکے تو کانگرس نے نتیجتاً جناح صاحب اور مسلم لیگ کو نظر انداز کرنا شروع کیا، جس کے نتیجے میں دوریاں مزید بڑھ گئیں، یہاں تک کہ ہندوستان تقسیم ہوگیا۔‘
مختصراً یہی کہا جاسکتاہے کہ برصغیر کی تقسیم میں کانگریسی لیڈران پوری ذمہ دار تھے اور یہی گِلہ فخرِافغان عبدالغفار خان نے بھی کیا۔اُنہوں نے اپنی کتاب ‘میری زندگی اورمیری جدوجہد ‘ میں یہاں تک کہہ دیا ’آخری وقتوں میں کانگرس کا رویہ ہمارے ساتھ ٹھیک نہیں تھا۔‘ انہوں نے مزید لکھا ہے کہ ’ ہماری تحریک کے ابتدائی دنوں میں، میں اور میرے کچھ ساتھی مسلم لیگ کے پنجاب کے لیڈران سے ملے تاکہ وہ ہمیں دوستی کا ہا تھ دیں تاہم اُن کی سردمُہری ہمیں کانگرس کے قریب لے آئی۔ ‘
جناح صاحب ہندومسلم اتحاد کے حا می تھے۔یہاں تک کہ سروجنی نائیڈو نے آپ کو ’ہندومسلم اتحاد کا سفیر‘کے خطاب سے نوازا۔ڈاکٹر اسچد اس سلسلے میں جناح صاحب کی ایک تقریر کا حوالہ دیاہے ۔ یہ تقریر جناح نے نہرو رپورٹ جو کہ 1928ء میں شائع ہوئی کے جواب میں کی۔
’اس مسئلے پر میں آپ کے سامنے ایک مسلمان کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک ہندوستانی کی حیثیت سے تقریر کر رہاہوں۔ ہندو اور مسلمان کو دو فرقے گردانتے ہوئے ان دو فرقوں میں اتحاد ہونی چاہیئے کیونکہ ان کے مفادات مُشترک ہیں۔اور انہیں شانہ بشانہ آگے بڑھنا چاہیئے۔ ہمیں آپس کے اختلافات خواہ کیسے بھی ہوں سے دُشمنی پیدا نہیں کرنی چاہیئے ۔ مُجھے اس سے زیادہ خوشی کسی اور بات سے نہیں ہو سکتی کہ میں ہندو اور مسلمانوں کو مُتحد دیکھو۔‘
وقت گزرتا گیا تاوقتیکہ کانگرس کے لیڈران خاص کر گاندھی کے رویے میں تبدیلی آئی۔کانگرس کے لیڈران نے جناح صاحب کا تمسخر اڑایا اور ان کے خلاف زہر اُگلنا شروع کیا۔ غلط اخباری بیانات سے جناح صاحب کی کردار کشی کی۔اس بارے میں ڈاکٹر اسچد جناح صاحب سے ملک کے سیاسی حالات کے میں پوچھا۔
بعد میں جناح صاحب مسلم لیگ کے تسلیم شدہ لیڈر ہو گئے، تو لیگ کے پلیٹ فارم پر جناح صاحب نے کیپ کا استعمال شروع کیا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ شیروانی اور ایک ڈھیلا ڈھالا پائجامہ بھی زیبِ تن کیا۔
ڈاکٹر سنہا ، جناح کی نفسیات اور اُن کے کانگرس چھوڑنے کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کر تے ہیں۔
’جناح صاحب نے ہندو مسلم سوال پر نا اتفاقی کے سبب کانگرس نہیں چھوڑی بلکہ یوں کہ وہ اپنےآپ کو نئے اور زیادہ طریقہ یافتہ نظریہ میں نہیں ڈھا ل سکے۔اور اس بھی زیادہ یوں کہ وہ ایسی بھیڑ کو نا پسند کرتے تھے جس کا لبا س خستگی اور بدحالی ہو، جو ہندوستانی بولتی ہو اور جو کانگرس کا حصہ ہو‘۔
مزید یہ کہ’جناح صاحب کی دلی خواہش تھی کہ وہ زندگی کے ہر شعبے اور ہر نقطے میں مقدم رہیں۔ گرہن کی طرح وہ سب پر چھا جائیں۔ بقیہ ہر شے معدوم ہو جائے ۔ جب تک کانگرس نے اُنہیں یہ موقع دیا وہ ان کے ساتھ رہے۔ لیکن 1926ء میں کانگرس کے لئے لیڈر گاندھی کے آنے کا بعد جنا ح صاحب پر یہ انکشاف ہو ا کہ اب وہ کا نگرس میں اپنی برتری برقرار نہیں رکھ سکے گی۔
اسی کتا ب کے صفحہ 49 پر ڈاکٹر سنہا لکھتے ہیں۔
’جناح کسی کے ماتحت کا م نہیں کر سکتے تھے۔ وہ یا تو لازمی طور پر قیادت کریں گے یا پھر کہیں نہیں رہیں گے۔ ان کا مطمع نظر یہ تھا کہ جنت میں غلامی سے جہنم میں حکومت بہتر ہے‘۔
♣
One Comment