منیر احمد فردوس
دسمبر 2016 میرے لئے بہت انمول ثابت ہوا، جو مجھے ایک نئے فکر ی سفر پر روانہ کر کے خود رخصت ہو گیا۔میرے اس روشن سفر کے ہمنوا چارچاند ٹھہرے جو قرطاس کے لامتناہی مداروں میں گھومتے گھماتے مجھے سیدھا سلطنتِ بشیریت کی دہلیز پر لے آئے۔ اس عظیم الشان راجدھانی میں داخلے کا اجازت نامہ دوتحریریں جیسی عمدہ کتاب کی صورت میں محمودہ کے پاس تھا۔ان کی طرف سے اجازت نامہ موصول ہوتے ہی میں بشیریت میں داخل ہو گیا۔جہاں “جو ملے تھے راستے میں” کے اندرسے احمد بشیر کے بچھے راستوں کے سراغ ملے تو میں ان ہی پر چل پڑا اور واپسی کی راہیں گم کر بیٹھا۔
ان خوبصورت راستوں پر رواں دواں میں اردو ادب کے نامی گرامی ادیبوں سے ملنے میں مصروف تھا کہ اچانک سلطنتِ بشیریت میں ظہیر بدر صاحب سے ملاقات ہو گئی جن کا چہرہ طمانیت کی پھوار سے کھلا ہوا تھا۔ اس تازگی کی وجہ پوچھی تو کہا کہ احمد بشیر کے چاہنے والوں کے لئے ایک میوزیم تعمیر کر کے آ رہا ہوں۔ میں نے یہ سنا تو دیکھنے کے لئے مچل اٹھا۔کہنے لگے احمد بشیر: شخصیت اور فن کے نام کا ٹکٹ لو اور اس تاریخی میوزیم میں داخل ہو جاؤ۔ میں نے فوری طور پراحمد بشیر کی ادبی جانشین نیلم احمد بشیر سے یہ ٹکٹ منگوایا اور آنکھوں میں تجسس کے دیپ جلائے ظہیر بدر کے تعمیر کردہ میوزیم میں داخل ہو گیا۔ اندر کی خوبصورتی اور چکاچوند نے میری آنکھوں کو خیرہ کر دیا۔ ہر طر ف خوبصورت لفظوں سے تیار کئے گئے احمد بشیر کے جگمگاتے حیرت انگیز مجسمے آنے والوں کو اپنی طرف بلارہے تھے۔
مجھے ظہیر بدر صاحب کے فنِ مجسمہ نگاری کا دل سے قائل ہونا پڑا اور میں اس بات پر ایمان لے آیا کہ واقعی احمد بشیر : شخصیت اور فن کتاب نہیں بلکہ ایک میوزیم ہے ، جہاں مصنف نے احمد بشیر کی پرتوں میں لپٹی شخصیت کے مختلف گوشے بڑی دلکشی کے ساتھ سجا رکھے تھے جو دیکھنے والوں کو اسی جہانوں میں لے چلتے ہیں جو کبھی انہوں نے جئے تھے۔ میں بے اختیار پہلے گوشے کی طرف بڑھا جہاں احمد بشیر کا ایک قد آور دیدہ زیب مجسمہ میری آنکھوں کے سامنے تھا۔ ان کی سحر انگیز چمکتی آنکھوں میں جھانکا تو اچانک منظر بدلا اور میں ایمن آباد کی قدیم گلیوں اور پرانے طرز کے مکانوں کی طرف جا نکلا جہاں ننھے احمد بشیر ایمن آباد کے پرائمری سکول میں ٹاٹوں پر بیٹھے الف انار، ب بکری ، ت تختی پڑھنے میں مصروف تھے ۔
میں نے قدم ان کی طرف بڑھا ئے ہی تھے کہ وہ ایک دم سے اتنے بڑے ہو گئے کہ سری نگر کشمیر کے اسلامیہ ہائی سکول میں مجھے پڑھتے نظر آئے۔ میں حیرت کی رم جھم میں بھیگتا چپ چاپ ان کے شب و روز دیکھنے لگا۔ کرکٹ کے دیوانے کھلنڈرے احمد بشیر بیٹ اٹھائے گھر میں داخل ہوئے تو ان کے ماہرِ تعلیم باپ نے انہیں سرزنش کر ڈالی۔جواب میں سرکش احمد بشیر اپنے اندر کے ضدی گھوڑے پر جا بیٹھے جیسے کہہ رہے ہوں کہ مجھے اتار کر دکھائیں تو مانوں۔ان کی کرکٹ کا سلسلہ پروان چڑھا تو وہ کشمیر میں نواب پٹودی ، لالہ امرناتھ اور نذر محمد جیسے مشہور کرکٹرز کے ساتھ کھیلتے دکھائی دیئے ۔ سینما بینی کے ساتھ ساتھ کشمیر کی وادیوں کو اپنے اندر نقش کرتے ہوئے وہ کالج کی لائبریری میں رکھی ساری کتابیں بھی اپنے اندر اتار چکے تھے۔ دوستوں کے لئے مر مٹنے والے احمد بشیر ایک ہندو دوست کی خاطر ایک جھگڑے میں کیا کودے کہ انہیں کشمیر ہمیشہ کے لئے چھوڑ نا پڑ گیا۔
میں ان کے اس پہلے مجسمے میں ہی کھویا ہوا تھا کہ مجھے ظہیر بدر صاحب کے تیار کردہ دوسرے مجسمے نے آواز دی ۔ میں ان کی ہنرمندی کی تعریف کرتے ہوئے جلدی سے ان کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ جہاں دو مجسمے اور بھی رکھے ہوئے تھے، انہیں غور سے دیکھا تو چونک اٹھا۔ وہ ان کے ماموں اشفاق حسین اور ممتاز مفتی تھے جو گورداسپور میں دن کو سکول ماسٹری کرتے اور شام کو گھر میں موسیقی کی محفلیں برپا کرتے تھے، جہاں احمد بشیر اور ممتاز مفتی کی دوستی کا پودا پروان چڑھا تھا۔ مجسمے میں بھی انہوں نے دوستی کا ہاتھ تھام رکھا تھا ، میں نے ان کے ہاتھوں پر ہاتھ رکھا تو وہ یکایک مجھے وہاں سے فلمی میگزین فلمان کے سلسلے میں کرشن چندر کے گھر بمبئی اپنے ساتھ لے گئے جہاں وہ حمید اختر، میرا جی، ساحر لدھیانوی اور آغا طالش جیسے بڑے لوگوں سے ملتے ملاتے نظر آئے۔
میں رشک بھری نظروں سے حیرت انگیز احمد بشیر کو دیکھنے لگا ۔ میرا جی ابھی نہیں بھرا تھا کہ اچانک برصغیر دو لخت ہو گیا اور تمام سفید منظر سرخ ہوتے چلے گئے۔ ہر طرف لوٹ مار، چیخ و پکار اور قتل و غارت گری کے بازار گرم ہو گئے۔ مگر نڈر احمد بشیر لال آندھیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ستمبر 1947 میں لاہور پہنچے اور ایمن آباد میں لہو رنگ آنکھوں والے بھیڑیوں کے چنگل میں پھنسی خوفزدہ ننھی کرشنا کو چھڑا کر فرتو جیسی جان چھڑکنے والی سہیلی اس کے حوالے کر دی۔ ہر طرف دنگے فساد کے جلتے الاؤ میں اپنی جان پر کھیل کر انہوں نے ممتاز مفتی کے لئے مکان الاٹ کروایا مگر بے گھری کے باجود اپنے لئے کوئی بھی فائدہ نہ اٹھایا۔یہاں تک کہ بعد میں انہیں گولی مار کراچی میں چھپر جھونپڑی میں بھی کچھ عرصہ رہ کر حوصلوں کی ایک نئی داستان رقم کرنا پڑی۔ سچائی، دیانتداری اور خودداری کے اجلے خمیر سے گندھی ان کی خوبصورت شخصیت میرے سامنے تھی اور میں ان کے ساتھ ان کے اندر کے حیرت کدوں میں گھوم رہا تھا۔
اچانک مجھے ایک شور سا سنائی دینے لگا۔ آگے بڑھ کر دیکھا تو کئی مجسمے مجھے چیختے چلاتے نظر آئے۔ میں بے چین ساعتوں میں لپٹا اس شیلف کے سامنے جا کھڑا ہوا جس کے ماتھے پر شادی بیاہ لکھا ہوا تھا۔اپنی پہلی شادی کو ظلم سے تعبیر دینے والے باغی احمد بشیر کی دوسری شادی کروانے کے لئے ان کے ماموں اشفاق حسین اور ممتاز مفتی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے جبکہ ایمن آباد میں ایک ہنگامہ بپا تھا۔ مگر ہر طرح کے طوفان سے ٹکراتے ہوئے بالآخر دونوں نے مل کے احمد بشیر کی پہلی بیوی سے جان چھڑوا کر محمودہ بیگم کے ساتھ ان کی دوسری شادی کروا ہی ڈالی اور احمد بشیر اپنی محمودہ کو ساتھ لے کراپنی زندگی جینے محبتوں کے نئے سفر پر روانہ ہو گئے۔
میں دونوں پر رشک کرتا ہوا آگے بڑھا تو حیرت نے میرے پاؤں جکڑ لئے۔چار پانچ مجسمے آپس میں سر جوڑے بیٹھے تھے اور ان سے روشنیاں ہی روشنیاں پھوٹ رہی تھیں۔ میوزیم میں رکھے مجسموں میں سب سے زیادہ روشن وہی لگ رہے تھے۔ وہ احمد بشیر، حفیظ جالندھری، ابنِ انشاء اور ممتاز مفتی تھے۔ میں دل ہی دل میں ظہیر بدر کا شکریہ ادا کرنے لگا کہ ان کی بدولت آج ایک لازوال لمحہ جینے کا موقع مل گیا تھا اور انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے ولیج ایڈ شعبہ میں ملک کے اتنے زرخیز ذہنوں کو ایک ساتھ دیکھا تو خوش بختی میرا ماتھا چومنے لگی۔ پھر دیکھا کہ فن کے قدردان احمد بشیر ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہنرمند لوگوں میں نوکریاں بانٹ رہے تھے۔ وہ سٹینو کے سر پر کھڑے ایک مزدور پیشہ ماہرِ موسیقی قادر خان عرف پیا رنگ کے لئے ہارمونیم ماسٹرکا تقرر نامہ ٹائپ کر وا نے میں لگے ہوئے تھے۔ پھر انہوں نے اختر عکسی کے ذریعہ گلی گلی گھوم پھر کر گانے والے ایک ستار نواز عنایت خان کو بلوا کر نوکری کا پروانہ اس کے ہاتھ پر بھی تھما دیا۔
فن کی یہ قدردانی اور دریا دلی کا یہ اندازِ دلبرانہ دیکھ کر میں فرطِ جذبات سے احمد بشیر کے ہاتھ چومنے کے لئے آگے بڑھنے ہی لگا تھا کہ اچانک مجھے کسی کی ٹھنڈی سانس بھرنے کی آواز سنائی دی۔ میں نے حیرت سے اس طرف نگاہ دوڑائی ، وہ ایک قدرے نیم تاریک سا گوشہ تھا۔ تذبذب کی حالت میں میرے قدم اسی طرف ہی اٹھ گئے۔اگلے مجسمے میں احمد بشیر پریشان، رنجیدہ اور بے بس سے لگ رہے تھے۔ چھوٹا سا ایک اور مجسمہ بھی ان کے سامنے کھڑا تھا، توجہ کرنے پر کھلا کہ وہ ان کا اکلوتا بیٹا ہمایوں تھا۔میں معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔ دفعتاًمیری نظر احمد بشیر کے آگے رکھی آڑی ترچھی لکیروں والی اجلی تصویروں پر جا پڑی ، جنہیں جھٹلاتے ہوئے ان کا بیٹا طنزیہ انداز میں ہنس رہا تھا۔ میں نے ان پر غور کیا تو یہ احمد بشیر کی زندگی کی وہ سچی اور کھری تصویریں تھیں جو انہوں نے بھرپور انداز میں جی کر اپنے اندر کے سچے رنگوں سے بڑے فخر کے ساتھ تجسیم کی تھیں، جن میں ان کی روح کے جڑے ہوئے چمکتے ٹکڑے واضح دکھائی دے رہے تھے۔ مگر انہیں بڑی آسانی کے ساتھ ان کے بیٹے نے ماننے اور پہچاننے سے صاف انکار کر دیا تھا۔دکھی احمد بشیر کے ہونٹ ہل رہے تھے، میں نے انہیں اپنی سماعتیں پیش کیں تو مجھے بھی سنائی دینے لگا۔ وہ بیٹے سے مخاطب تھے: ۔
“کاش کہ تم نے اپنے بوڑھے بابا پر طنز کرنے اور اس کی جہالت پر رحم کھانے کی بجائے کچھ پوچھا ہوتا۔ میں تو سمجھ گیا تھا کہ تمہارے آگے بولنا منع ہے اور چپ رہنے کا عادی ہوں کیونکہ میں بیٹے کو جو میرے کلیجے کی ٹھنڈک ہو، کبھی بھی ناراض نہیں کرنا چاہتا۔
میں ہاتھ پیر ہلانے کے قابل نہیں۔ تیس برس سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوں اور ہر گھڑی میرے پیر جلتے ہیں، جیسے انگیٹھی پر رکھے ہوں۔ میں اس مسلسل اذیت کے باجود چڑچڑا نہیں ہوں۔ تم تو میرے پیارے بچے! ایک منٹ میں بھڑک جاتے ہو۔ فتوے دینے لگتے ہو۔اگر میں نے کچھ اتنا کہہ دیا ہو جو مجھے نہیں کہنا چاہئے تھا تو مجھے ایک بیوقوف بوڑھا سمجھ کر معاف کر دینا۔”
احمد بشیر جیسے اتنے بڑے ادیب کی بیچارگی اور عاجزی کا یہ عالم دیکھ کر میری روح کو کچوکے سے لگنے لگے کہ ایک دبنگ صحافی جن کے سچے قلم کی ایک جنبش سے زمانہ خائف رہتا تھا مگر گھر کی دنیا میں وہی گیانی ادیب اپنے بیٹے کے سامنے ایک بے بس باپ بنا بیٹھا تھا۔میں یہ بات تسلیم کرنے کو قطعاً تیار نہیں تھا مگر ظہیر بدر نے میرے کانوں میں سرگوشی کی کہ یہی سچ ہے مان لو ورنہ مشکل میں پڑ جاؤ گے۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی سر ہلانے لگا اور ساتھ ہی ظہیر بدر کو ایک کامیاب مجسمہ نگار ماننے پر مجبور ہو گیا کہ انہوں نے وہی جانگسل احساسات میرے اندر بھی دوڑا دیئے تھے جن کی زد میں احمد بشیر تھے۔
میں سر کو جھٹکتے ہوئے رنجیدہ کیفیات میں ڈوبا آگے بڑھ گیا۔ ارے یہ کیا….. ؟ میں چونک پڑا۔ اگلے پڑاؤ پر مستی بھری مسکانیں احمد بشیر کے چہرے پر نئے رنگ بکھیر رہی تھیں اور وہ قلم ہاتھ میں لئے ٹیبل کے سامنے بیٹھے کچھ لکھنے میں مصروف تھے۔ میں تجسس کے مارے چپکے سے ان کے ساتھ جا کھڑا ہوا۔ وہ امریکہ کے کسی ہوٹل کا کمرہ تھا جہاں احمد بشیر فلم میکنگ کورس کے سلسلے میں سکونت پذیر تھے۔ میں نے جھک کر دیکھا تو یقین ہی نہ آیا کہ صحافت کی دنیا میں شعلے اگلتا ان کا قلم لیٹر پیڈ پر پیار محبت کے دلکش منظر بنا رہا تھا ۔ لکھا تھا :
“پیاری مودی…!مجھے تم بہت یاد آتی ہو اور آگے چل کر اور زیادہ یاد آؤ گی۔کیونکہ تمہارے بغیر مجھے رہنے کی عادت نہیں۔ میری بیٹیوں کو بہت پیار سے رکھنا ، ان پر سختی نہ کرنا اور ان کے ننھے ننھے دل نہ دکھانا۔“
چوں چوں کرتا ایک اور چہکتا ہوا منظر بھی بول رہا تھا، جس میں وہ پھدکتی چہکتی اپنی چڑیوں سے یوں مخاطب تھے:
“میری پیاری چڑیو! تم کیا جانو، تم مجھے کتنی پیاری ہو؟ سارا خزانہ میرا تم ہی ہو۔ پوپے سور بچے…. ! تم کیا سکول جاتے ہو کہ نہیں؟ ابھی تک دڑنگے مارتے ہو؟ تم بڑی بھولی ہو ، مجھے ہر وقت تمہاری فکر رہتی ہے… اور گوپا آج کل کیا بکواس کرتا ہے؟ پوری کہانی لکھو۔
گوپو پیارے! مجھے مانے کا کوئی فکر نہیں، کیونکہ مانے کو تو تم سنبھال ہی لو گی اور وہ ہمت والی ہے مگر تمہارا سنبھالنے والا کون ہے؟ تم بالکل الو کی پٹھی ہو، غم کھاتی ہو۔ مشکل زندگی دیکھنی ہے تو نیلم کی طرف دیکھو۔“
محبت کے یہ انداز، چاہت کے یہ قرینے…. واللہ….. میں تو جھوم ہی اٹھا۔ ان کے ایک ایک لفظ میں اپنی پیاری چڑیوں سے سچی محبت کی متحرک داستانیں دوڑتی ہوئی صاف نظر آ رہی تھیں، جن کے ساتھ میں بھی دھڑکنے لگا۔ پتہ ہی نہ چلا اور میں سرشار جہانوں میں اتر کر گھومتے گھومتے دور تک چلا گیا کہ دفعتاً کسی کی درد بھری سسکیاں ابھریں اور پلک جھپکتے میں ہی یہ چہکتے ہوئے خوبصورت منظر میری آنکھوں سے گر گئے۔میں ایک دم سے پریشان ہو گیا۔ یا اللہ یہ کیسا میوزیم ہے کہ کہیں قہقہے سنائی دیتے ہیں تو کہیں اداسیاں پیچھا کرتی ہیں۔ کبھی پیار و محبت کے نغمے گونجنے لگتے ہیں تو کبھی روتی آوازوں کے قافلے سماعتوں میں پڑاؤ ڈال دیتے ہیں۔ میں کچھ نہ سمجھتے ہوئے اس طرف بڑھ گیا جہاں سے سسکیوں نے مجھے صدا دی تھی۔ وہاں پہنچا تو ہل کر رہ گیا، مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ یہ مجسمہ نہیں بلکہ دکھوں کی الکھ نگری تھی۔
سروسز ہسپتال کے بالائی وارڈ کا اداسی بانٹتا کمرہ نمبر تین اور احمد بشیر کا بے حس و حرکت پڑا ہوا ٹھنڈا وجود۔ ان سے لپٹی ہوئی ان کی پیاری چاروں گوپیوں کی کمرے میں گونجتی درد بھری آہیں اور انہیں حوصلہ تسلیاں دیتے بیٹے سے بڑھ کر ان کے داماد کرنل عباس۔یہ سب کچھ ناقابلِ برداشت تھا، میں اپنا دل تھام کر رہ گیا۔ مجھے کچھ نہیں سوجھ رہا تھا کہ احمد بشیر کی روتی بلکتی چڑیوں کو اس دکھی لمحے سے کیسے آزاد کرواؤں…؟ مگر میں بے بس تھا ،اس لئے خاموشی کو اپنے ہونٹوں پر باندھے چپ چاپ دیکھتا رہا۔ جب ان کا جنازہ اٹھایا گیا تو ان کی لاڈلی بہن پروین عاطف نے روتے ہوئے کہا “دیکھو جس شخص نے کبھی کسی کندھے کا سہارا نہیں لیا تھا وہ آج کندھوں پر سوار جا رہا ہے۔” یہ الفاظ نہیں ، جلتے ہوئے انگارے تھے جس نے میری روح میں چھید کر ڈالے۔
میوزیم میں احمد بشیر کے اور بھی مجسمے میرے منتظر تھے مگر پروین عاطف نے مجھ سے سکت چھین لی تھی اور میں خود ایک پتھر کا مجسمہ بن کر رہ گیا بالکل بے حس و حرکت۔آنکھوں کی نمی کے اس پار مجھے احمد بشیر کے بے شمار مجسمے دکھائی دے رہے تھے۔ کہیں وہ رگوں میں اندھیرا جیسا عمدہ ڈرامہ لکھنے والے یونس جاوید کا ماتھا چوم رہے تھے تو کہیں فلم نیلا پربت کی ناکامی پر فاقوں کو نیچا دکھانے میں مصروف تھے۔ اپنے صحافت کے گرو مولانا چراغ حسن حسرت سے صحافت کے داؤ پیچ سیکھ رہے تھے تو کہیں کمیونیز م کے حق میں گرما گرم بحثوں میں الجھے دکھائی دیتے تھے۔ نیا زمانہ کے لئے تیز و تند کالم لکھتے ہوئے کہیں ان کے خلاف سازش ہوتی نظر آتی تھی تو کہیں وہ موسیقی کی محفلوں کا حصہ بنے ہوئے تھے۔
مگر میں حوصلے ہار چکا تھا اور بت بنا چاروں طرف دیکھ رہا تھا ۔ میوزیم میں دیگر بھی بڑے بڑے لوگوں کے بنے ہوئے مجسمے احمد بشیر کے لئے رطب اللسان نظر آرہے تھے اور ایک گوشہ میں ان کی تمام تصانیف جیسا کہ دل بھٹکے گا، جو ملے تھے راستے میں، خونِ جگر ہونے تک، ڈانسنگ وِد وولوز کے علاوہ ان کے سبھی کالموں کے نام اور ان کے خوشبو بکھیرتے پیراگراف بھی پیش کئے گئے تھے ، جن سے ان کی مکمل شخصیت جھلکتی نظر آتی ہے۔مگر میوزیم کے آخری گوشے کا جواب نہیں، جس میں ظہیر بدر صاحب نے ان کے فن کا مجموعی جائزہ لے کر احمد بشیر کی ہمہ جہت شخصیت کو نئی بلندیاں عطا کر دیں ، جہاں ان کے فرمودات و نظریات کے ٹھنڈے میٹھے بہتے چشمے دل و دماغ کو سیراب کرتے نظر آتے ہیں۔ ظہیر بدر کے تعمیر کردہ اس خوبصورت میوزیم میں احمد بشیر کے کے حوالے سے کیا کچھ نہیں ہے؟ میں تو یہاں ان کے صرف چند ایک مجسموں کا احوال ہی پیش کر پایا ہوں ، سب کو جاننے کے لئے ایک عمر چاہئے۔
اس خوبصورت کارنامے پر ظہیر بدر صاحب یقیناً مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے احمد بشیر کے چاہنے والوں کے لئے ان کی تمام تر خوبصورتیاں ایک ہی جگہ جمع کر کے بشیریت کے معاملے میں تسکین آمیزی کی ایک نئی روایت قائم کی ہے۔
♦
2 Comments