علی احمد جان
آپ نے وہ کہانی تو سن رکھی ہوگی کہ ایک شہزادہ جب کسی شہزادی کی تلاش میں نکل پڑا تو اس کا سامنا ایک ایسے جن سے ہوا جس کے کئی سر تھے۔ شہزادہ جب جن کا ایک سر کاٹ لیتا تھا تو دوسرا سر نکل آ جاتا تھا۔پھر شہزادے کو شہزادی نےیہ پیغام دیاکہ اس جن کی جان دراصل ایک طوطے میں کسی محفوظ مقام پر چھپا کر رکھی گئی ہے۔ جب تک اس طوطے کی جان نہ لی جائے جن کے بے شمارسر یوں ہی نکلتے رہیں گے اس لئے جن کو مارنے کے بجائے طوطے کو مارنا ہوگا۔
میڈیا میں دہشت گردوں کی زبان بن کر پورے ملک میں خون کی ہولی کھیلنے والوں کی وکالت کرنے والے احسان اللہ احسان کو ایک اہم دریافت کے طور پر جب پیش کیا جارہا ہے تو اس کے انکشافات میں سے ایک ننگا پربت کے بیس کیمپ میں غیر ملکی سیاحوں کا قتل بھی شامل ہے جس کی خبر پوری دنیا میں جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی تھی۔
اس اندوہناک واقعے کا اقرار اس وقت پنجابی طالبان عرف معاویہ گروپ نے بھی کیا تھا جس نے بعد میں ہتھیار ڈال دئے اور ہوا میں تحلیل ہوگئے تھے۔ یہ تو کوئی نہیں جانتا کہ قاتلوں کے ایسے وکیل کو واسکٹ پہن کر معززین کی طرح کیمرے کے سامنے آرام اور اطمینان کیساتھ اپنی درندگی کی روئیداد سنانے کی اجازت کیسے مل سکتی ہے جبکہ ہمارے انسداد دہشت گردی کا قانون کسی ایسے شخص کو میڈیا میں پیش کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتا اور نہ ہی زیر سماعت اور زیر تفتیش کسی مقدمے کے ملزم کو ایک بھولا بھالا معصوم شہری بنانے کی کسی سعی کی کوئی گنجائش موجود ہے۔
پاکستان کا قانون صاف اور واضح ہے کہ جب تک کسی پر جرم ثابت نہ ہو وہ معصوم ہے مگر جب تک کوئی ملزم اپنی معصومیت کسی عدالت میں ثابت نہ کرے اس وقت تک وہ مشکوک رہے گا۔
اس دوران سوشل میڈیا ، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں لکھاریوں ، باہمت شہریوں اور اہل فہم و دانش نے اپنی سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا جس کی وجہ سے پیمرا کو اس معصوم گردانے جانے والے موت کی مشین کے آلہ کار کے ایک نجی ٹی وی چینل کو سات پردوں کے پیچھے سے دئے گئے ایک خصوصی انٹرویو کو نشر ہونے سے پہلے ہی روکنا پڑا۔ ورنہ اس کے بعد ملک کے پچاس سے زائد چینلز پر اس دہشت گرد کے معصومیت کی نہ ختم ہونے والی جے جے کار شروع ہونی تھی۔
احسان اللہ احسان دراصل ایک نام ہے جو پاکستانی طالبان نے اپنے ترجمان کو دیا تھا اس سے پہلے جو شخص ترجمان تھا اس کا بھی شائد ایسا ہی کوئی نام تھا کیونکہ یہ لوگ اپنی اصل شناخت چھپاتے ہیں یا بدل دیتے ہیں ۔ طالبان کا ترجمان عموماً ایک پڑھا لکھا آدمی ہوتا ہے جو انگریزی زبان کے علاوہ ای میل ، فیس بک اور ٹویٹر جیسی کافرانہ ایجادات سے بھی واقف ہوتا ہے۔
اب جو دوسرا ترجمان اس کی جگہ لے گا اس کا بھی ایسا ہی کوئی نام ہوگا اور وہ بھی وہی کام کرے گا جو یہ کرتے رہے ہیں۔ اس سےپہلے سوات میں طالبان کا ایک ترجمان ہوا کرتا تھا اس کا نام مسلم خان تھا وہ بھی یہی کام کرتے تھے۔ سنا ہے وہ کہیں برطانیہ وغیرہ سے آئے تھے جو اپنی بات منوانے ،صحافیوں کو دھمکانے اور بات نہ ماننے پر جان سے ماردینے کا فن بہت خوب جانتے تھے۔ ایک دفعہ تو سوات میں طالبان کے ایک جلوس میں کسی نجی ٹی وی چینل کے رپورٹر کو دن دھاڑے قتل بھی کردیا گیا تھا جو ہم سب نے ٹی وی کے سکرین پر دیکھا بھی۔
یہ سب مسلم خان کے کارنامے ہوا کرتے تھے۔ گرفتاری کے بعدمسلم خان کو کسی عدالت کی طرف سے سزا دینے کو کبھی نہ سنا نہ کہیں پڑھا تو پھر اتنے سارے معصوم لوگوں کا یہ قاتل بھی اپنے مرشد و مربّی مولانا صوفی محمد کے ساتھ کسی سرکاری مہمان خانے میں عبادات میں مشغول ہیں؟
تحریک طالبان کے باجوڑ کے ترجمان کا نام بھی ملا عمر تھا۔ اندرون ملک ہجرت کرنے والوں کی حالت زار پر ایک تحقیق کے دوران ان کی والدہ سے میری پشاور کے ایک پناہ گزین کیمپ میں ملاقات ہوئی تھی ۔ ہم نے جب پوچھا کہ طالبان ان کو کیسے لگتے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ جب وہ ان کو گھر سے باہر نکلنے، اپنے کھیتوں میں کام کرنے ، سبزیاں اگانے اور مرغیاں پالنے سے روکتے ہیں تو بہت برے لگتے ہیں ۔
ہم نے پوچھا کہ پھر انھوں نے اپنے بیٹے کو منع کیوں نہیں کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ پہلے سوزوکی کا ڈرائیور تھا اب ایک ملک کی طرح عیاشی کی زندگی گزارتا ہے تو وہ اس کی بات کیوں ماننے لگا ۔ پھر ملا عمر نام کے اس ترجمان کا بھی کسی نے نہیں سنا ، اگر ڈرون کے حملے میں نہیں مارا گیا ہے تو وہ بھی کسی محفوظ مقام پر عوام کے ٹیکس کے پیسے سے مفت کی روٹیاں توڑرہا ہوگا۔
آگ اور خون کا جو کھیل افغانستان سے شروع ہو ا تھا اب پاکستان بھی اسی کے لپیٹ میں ہے۔ ہمارے ستر ہزار شہریوں کا قتل تو صرف گزشتہ سترہ سالوں میں ہوا ہے۔ ہم اس کھیل کے تانے بانے ہندوستان اور امریکہ میں ڈھونڈتے رہ گئے اور آگ ہمارے گھروں میں داخل ہوگئی۔ ہم ابھی بھی آگ کا منبع جہاں سے یہ آگ پھیلتی ہے اس کو ختم کرنے میں لیل و لعت سے کام لے رہے ہیں۔
ایک احسان اللہ احسان ، مسلم خان یا ملا عمر کے پکڑے جانے سے یہ سلسلہ نہ پہلے رکا تھا نہ اب رکنے والا ہے۔ تو نہیں ،تو تیرے بھائی تیس ہزار کے مصداق ایک کے جانے کے بعد ہزاروں اور آجاتے ہیں اور ہماری گلی کوچوں، سکولوں، ہسپتالوں ، عدالتوں اور عبادت گاہوں میں موت کا رقص رکنے میں نہیں آتا ۔
ہم دشمن کے بچوں کو پڑھانے نکلے تھے مگر ہمارے اپنے بچے بغل سے نکل نکل کر ان کے ساتھ شامل ہورہے ہیں۔ یہ احسان اللہ احسان نا م کا دہشت گرد کسی مدرسے سے نہیں آیا بلکہ ہماری ہی کسی یونیورسٹی سے یہاں تک پہنچ گیا ہے۔ ہماری تبدیلی والی سرکار نے دارالعلوم حقانیہ کو تیس کروڑ روپے کی خطیر رقم سرکاری خزانے سے دشمن کے بچوں کو سدھارنے کے لئے دی تھی مگر اس کے بازو میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں جو ہوا اس کو دیکھ کر اہل مدرسہ معصوم نظر آنے لگے ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی ، گومل یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی میں ایک مذہبی طلبہ تنظیم جس بیانیے کا پرچار کر رہی ہے اس کو اگر پنپنے دیا گیا تو مستقبل قریب میں ہماری یونیورسٹیوں کے مقابلے میں قبائلی علاقوں کے مدرسے زیادہ مہذب اور ترقی یافتہ نظر آئیں گے۔ ابھی تک ہونے والے واقعات کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں باہر کی فکر کرنے کے بجائے اپنے گھر کو اندر سے سدھارنے کی زیادہ ضرورت ہے ۔
احسان اللہ احسان ، مسلم خان یا ملا عمر کی معصومیت کا ڈھنڈورا ضرور پیٹیں مگر ان کے اس نہج تک پہنچ جانے کے محرکات اور وجوہات کی چھان بین بھی ضروری ہے۔ کیا یہ کبھی معلوم ہو سکے گا کہ وہ کون سے محرکات تھے جن کی وجہ سے احسان اللہ احسان سماجی علوم اور سائنس پڑھانے والی کسی شہری یونیورسٹی سے نکل کر پہاڑوں میں جا پہنچے۔ ان کو کس نےایسا کرنے پر اکسایا اور اور ان کی ذہن سازی کس نے کی کہ وہ کسی سکول ، کالج اور یونیورسٹی میں ایک معلم بن جانے کے بجائے ہتھیار اٹھاکر معصوم طلبہ اور ان کے اساتذہ کے سروں پر گولیاں مارنے ، صحافیوں کو دھمکانے ، مارنے، موت کی پرچار کرنے اور انسانی جانیں لینے کی وکالت کرنے نکلے ؟
کیا کبھی وہ چہرے بھی ٹیلی ویژن کے سکرین پر بے نقاب ہوں گے جو ہمارے معصوم نوجوانوں کو دنیا سے بیگانہ کرکے حوروں کے حصول کی ہوس میں مبتلا کردیتے ہیں جس کے لئے وہ دوسروں کی جانیں لینے کے درپے ہو جاتے ہیں؟
اگر احسان اللہ احسان ایک عام طالب علم سے شدت پسند جنگجو بن جانے کی اپنی کہانی کو عوام کو بتادے تو کئی طلبہ، والدین اور اساتذہ کی راہنمائی ہوسکتی ہے، مستقبل میں کئی ایک لوگ بھٹکنے سے بچ سکتے ہیں اور کئی لوگوں کی جانیں بھی بچ سکتی ہیں۔ نہیں تو کہانی کے اس جن کی طرح ایک کے بعد دوسرا سر نکل آتا رہے گا اور یہ سلسلہ یوں ہی جاری و ساری رہے گا۔
کیا احسان اللہ احسان اپنی اصل کہانی بھی سنائےگا اور ان کرداروں کو بے نقاب کرسکے گا جنھوں نے ان کو ایک طالب علم سے دہشت گرد اور ایک انسان سے درندہ بنا دیا تھا۔ کبھی ایسا ہوا تو یہ احسان اللہ کا اصل احسان ہوگا۔
♦