علی احمد جان
ہمارے دوستوں نے نگر میں واقع رش جھیل کی مہم کے بعد ہنزہ واپسی پر خنجراب کے درے تک جانے کا ارادہ کیا ۔ اس مہم میں جرمنی کے پاکستان میں تکنیکی معاونت کے ادارے جی آئی زیڈ سے وابستہ دوست جارج ا ور میرے علاوہ میرے شریک کاروبار اور دوست ایاز آصف، سیالکوٹ سے حسن مبارک خواجہ ، امریکہ میں مقیم پاکستانی امین سکھیرا، لندن میں مقیم عدنان پاشا صدیقی، وائس آف امریکہ کی پاکستان اور افغانستان کے لیٔے نمایٔندہ عائشہ تنظیم اور وال اسٹریٹ جرنل کے پاکستان میں نمائندہ سعید شاہ شامل تھے ۔
ہنزہ کریم آباد سے نکلتے ہی گنیش کے مقام پر پتھروں پر کنندہ تحریریں دیکھنے کے فوراٌ بعد ہی عطا آباد جھیل آجاتی ہے جو کبھی قدرتی آفت بن کے گرنے والے عطا آباد گاؤں کے ملبے سے وجود میں آئی تھی مگر آج مشہور آذری شاعر فضولی کے اشعار کی حسین محبوبہ کی مانند حسن اور رعنایٔیوں میں یکتا آفت ہے۔ یہاں اس جھیل کو دیکھنے والے سیاحوں کا ہجوم اور نئے نئے ریستورانوں پر انگریزی زبان کی کہاؤت ٌایک کی مصیبت دوسرے کا بخت ٌصادق آتی ہے۔ اس جھیل کیوجہ سے بہنے، ڈوبنے اور بند ہونے والے شاہراہ قراقرم کو بحال کرنے کے لیٔے چینیوں نے سنگلاخ پہاڑوں میں طویل سرنگیں کھود کر یہاں آنے والوں کو مزید ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔
خنجراب پاکستان اور چین کے سرحدی علاقے کا نام ہے جس کے اصل تلفظ وخی زبان میں خون جروف کے ہیں ۔ جب سن ساٹھ کی دھائی میں چین اور پاکستان نے شاہراہ قراقرم کی تعمیر کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا تو سلسلہ ہاۓ کوہ قراقرم کے نازک قدرتی ماحول پر اس منصوبے کے برے اثرات کم کرنے اور یہاں پر پائی جانے والی جنگلی حیات اور خصوصاٌ مشہور سیاح مارکو پولو کے نام سے منصوب جنگلی بھیڑ (مارکو پولو شیپ) ، نیلی بھیڑ(بلیو شیپ) برفانی چیتا اورہیمالیائی آیبکس جیسے جانوروں کی نسلی بقاء کے خطرے کے تدارک پر عالمی سطح پر زور دیا گیا۔
حکومت پاکستان نے چینی سرحد سے متصل علاقے کو نیشنل پارک قرار دے کر اس علاقے کے قدرتی ماحول کے تحفظ کی یقین دھانی کرادی۔ یوں ۱۹۷۳ میں اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو کے دستخط سے خنجراب نیشنل پارک کا قیام عمل میں آیا۔ آج شاید یہ واحد نیشنل پارک ہے جہاں ہم یقینی طور پر کسی بھی دن کم از کم کچھ نہیں تو آیبکس کا نظارہ بغیر دوربین کے بھی کر سکتے ہیں۔
پاکستان کی طرف آخری قصبے سوست میں پاکستان کسٹم کی چوکی اور دیگر اداروں کے دفاتر کی وجہ سے ہوٹل اور بازار کھلے رہتے ہیں اور یہ سرحدی گاؤں سالہا سال آباد رہتا ہے۔ یہاں ملک بھر سے پاکستان اور چین کے مابین تجارت کرے والے تاجروں کا آنا جانا رہتا ہے۔ تجارت کی فروغ اور تجارتی مال کی کسٹم کلیرنس اور ترسیل تک بہ حفاظت ذخیرے کے لئے مقامی لوگوں نے ایک ڈرائی پورٹ بھی قائم کر رکھا ہے جس کے بنانے میں راقم نے بھی اپنا حصہ ڈالا تھا اور اس کے بنانے والے ابتدائی چند افراد میں ناچیز بھی شامل ہے۔
اس ڈرائی پورٹ کے بننے سے پہلے تاجروں اور خصوصاٌ چینی ٹرک ڈراییٔوروں کو کئی کئی دنوں تک اپنے ٹرکوں کے خالی ہونے کا انتظار کرنا پڑتا تھا اور تاجروں کے ساتھ ان کے جھگڑے ہوتے رہتے تھے۔ اس مسئلے کی نشاندہی سنہ2000میں چینی حکام کی جانب سے اس وقت ہوئی تھی جب راقم ایک وفد لیکر خنجراب نیشنل پارک اور سرحد کے اس پار تاشکرغن نیچر ریزرو کے درمیان تعاون کی ایک یاد داشت پر مذاکرات کے لیٔے کاشغر اور اورمچی گیا تھا۔ دورے سے واپسی پر یہاں کے مقامی لوگوں کی مدد کی اور اس ڈرائی پورٹ ٹرسٹ کا قیام عمل میں لانے میں اپناکردار ادا کیا جس کے اعتراف میں ناچیز کو بھی مقامی لوگوں نے اس ٹرسٹ کے بانی ارکان میں شامل کیا۔
سوست سے نکل کر خنجراب کی طرف پہلی فارسٹ چیک پوسٹ پر ایک پنجرے میں مادہ برفانی چیتا رکھا گیا ہے جو پیدا ہوتے ہی ماں سے بچھڑ کر لوگوں کے ہاتھ لگی تھی۔ لوگوں نے اس کی زندگی تو بچالی مگرآزاد فضاؤں میں شکار کرنے کے لیٔے پلٹنے ، جھپٹنے، دبوچنے اور چیرنے پھاڑنے کی صلاحیت نہ دے سکے اور آج بھی جنگلی حیات کا یہ بادشاہ ایک قیدی کی زندگی گزار رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی ایک نر برفانی چیتا اس طرح ملا تھا جس کو مقامی لوگوں نے پالا اور اسکا نام لیو رکھا تھا جو آج کل امریکہ کے شہر نیویارک کے چڑیا گھر میں عارضی طور پر بغرض افزائش نسل منتقل کیا گیا ہے اور بمطابق معاہدہ اس کی واپسی بھی جلد متوقع ہے۔
حکومت نے ان دونوں کے علاوہ اس طرح کے چیتوں کی رہایٔش کے لیٔے نلتر کے مقام پر ایک خصوصی رہائش گاہ کے بندوبست کی تیاریاں کر رکھی ہیں۔ ہمارے دوست عدنان پاشا صدیقی کو اس قیدی برفانی چیتے کی حالت زار پر بڑا دکھ ہوا اور اس نے اس کی کفالت کی ذمہ داری اٹھانے کا وعدہ کیا ۔ اس چیتے کے کفیل اور نگران کمال صاحب اور سرکاری رینج آفیسر سے بات کرنے کے بعد مستقبل میں رابطوں کا وعدہ بھی ہوا۔
خنجراب نیشنل پارک شاید پاکستان کا واحد مقام ہے جہاں آپ یقینی طور پر قدرتی ماحول میں مختلف جانور یا کم از کم ہمالیائی آیبکس اپنی آنکھوں سے بغیر دوربین کی مدد کے دیکھ سکتے ہیں ۔ اگر آپ کو پرندوں ، جانوروں اور پودوں کی پہچان اوران میں دلچسپی ہے تو یہاں ان کی انواع اقسام ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ مگر اس پارک کے اندر تعمیر کی گئی غیر ضروری عمارتوں کو دیکھ کر افسوس بھی ہوتا ہے جس میں پولیس کی ایک عمارت اور خود محکمہ جنگلات کی عمارتیں شامل ہیں۔
جگہ جگہ تعمیراتی ملبے کے ڈھیر ہیں جو شاہراہ قرارقرم کی حالیہ مرمت اور توسیع کے بعد سے پڑے ہوۓ ہیں جن کا آئندہ بھی یہاں سے ہٹاکر اس نیشنل پارک کے قدرتی ماحول کو دوبارہ بحال کرنے کے آثار نظر نہیں آتے۔ ہماری حکومت اور اس کے کام کرنے والے اداروں کو کسی نیشنل پارک یا کسی بھی اپنے ہی محفوظ کردہ علاقے کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ۔ یہ بات میں وثوق سے اس لئے کہتا ہوں کہ اس موضوع پر مجھے ذاتی طور پر مختلف اداروں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ہے۔ اگر مضمون کی طوالت سے آپ کی عدم دلچسپی کا خدشہ نہ ہو تاتو میں تفصیل سے بات کرسکتا تھا مگر آپ کو بھی آخر میں میری طرح مایوسی ہی ہوتی۔
خنجراب کے درے ارد گرد کی پہاڑیوں پر ابھی بھی برف جمی ہوئی تھی لیکن سڑک سے برف ہٹاکر آمد ورفت کو جاری رکھا گیا تھا۔ ہمارے وہاں پہنچنے کے ساتھ ہی دوسری طرف سے چینی سیاحوں کی ایک ٹولی بھی پہنچی جنہوں نے چین کی طرف سے نئے تعمیر شدہ بڑے سے دروازے کو پار کیا اور دونوں سرحدوں کے درمیان بغیر کسی آدمی کی زمین یا نو مینز لینڈ میں پہنچے۔
زبان یار من ترکی و من ترکی نہ می دانم کے مصداق ایک دوسرے کی زبانوں سے نابلد کبھی انگریزی یا پھر اشاروں کی آفاقی زبان کی مدد سے حال احوال کیا اور ایک دوسرے کے ساتھ تصاویر بنا ئیں جو موبائل کیمروں کی وجہ سےآج کل ایک بین الاقوامی رواج بن گیا ہے۔
چار ہزار چھ سو ترانوے (۴،۶۹۳)میٹر یا پندرہ ہزار تین سو ستانوے (۱۵،۳۹۷) فٹ کی بلندی پر چند لمحے گزارنے کے بعد ان ہی راستوں اور ان ہی مقامات سے واپسی کا سفر شروع کیا ۔
♦
حصہ اول
پریوں کے دیس میں۔1
حصہ دوم
جہاں گلیشیٔر بھی مرد و زن ہوتے ہیں
حصہ سوم
One Comment