ڈاکٹر برکت شاہ کاکڑ
فتح مکہ کے بعد جن لوگوں کو قتل کرنے کی تلقین کی گئی تھی ان میں سے ایک وحشی بن حرب بھی تھے، جو اب جبیر بن معطم کے غلام نہ تھے، بلکہ ایک آزاد فرد کی حیثیت سے طائف میں زندگی گزار رہے تھے۔ یاد رہے کہ اس حبشی غلام کو آزادی جنگ بدر میں سیدنا حضرت امیر حمزہ کی شہادت کے صلے میں ملی تھی۔ طائف میں وحشی بن حرب کو پتہ چلا کہ رسو ل اللہ نے دین کے بڑے بڑے دشمنوں اور مجرموں کو معاف کر دیا ہے اور ان میں ہندہ جگر خوار بھی شامل ہے جس نے حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبایا تھا۔
‘‘وہ مکہ آئے رسول اللہ کی خدمت میں پیش ہوئے ، آپ نے پہچان لیا، فرمایا، ۔ بیٹھو اور مجھے بتاؤ کہ حمزہؓ کو تم نے کیسے قتل کیا؟ وحشی بیٹھ گیا اور پورا واقعہ بیان کر دیا۔ وحشی خاموش ہوا تو آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو چکا تھا اور آپ نے صرف اتنا کہا کہ وحشی تم پر افسوس ہوا۔ پھر کچھ لمحوں کے بعد فرمایا کہ میری نظروں سے دور ہو جاؤ۔ تم مجھے نظر نہ آیا کرو’’(ماخوذ: ہم سب، رب العالمین کا رحمت اللعالمین، از نورالہدٰی شاہ)۔
احسان اللہ احسان کس کا چہتا ہے؟،اس کا اصل نام زبیر ہے یا لیاقت علی؟، قبیلہ خلیل ہے، مہمند یا داودزئی ؟ شاید اللہ شاید اور احسان اللہ احسان پہلے شاعر تھے پھر قاتل بنے یا معاملہ اسکے برعکس تھا؟ ریاست اور سیکیورٹی ایسٹیبلشمنٹ اسے کتنا عزیز رکھتی ہے؟ ہماری ریاستی مشنیری اس مہرے کو اب کہاں استعمال کرے گی، اسکی مسلمانی واقعی ہوئی ہے یا؟ عصمت اللہ معاویہ نے اسے ایک بُرے لونڈے سے نیک و صالح بنانے میں کیسے کیا کردار ادا کیا؟ یہ ساری باتیں اپنی جگہ اہم ہیں ، جس کی تفصیل شاید آئندہ نسلیں معاشرتی علوم یا مطالعہ پاکستان کے کتابوں میں پڑھیں گی ۔
طالبان کے خودکش حملے میں ہلاک ہونے والے بلوچستان کے وکلا
لیکن اسکے سپاٹ سرد مہر، کشادہ اور انسانی احساسات سے عاری چہرے پر جب بھی نظر پڑتی ہے تو اپنےدسیوں عزیز، دوست و احباب اوراقارب یاد آجاتے ہیں جن کو بے دردی سے شہید کرنے کا فاتحانہ اعلان ہر بار انہوں خود نے کیا۔وہ جس معمولی انداز سے کشت وخون کی اس کھیل پر تبصرہ کرتے تھے ایسا ہی محسوس ہوتا تھا جیسے وہ موسم کی صورتحال کے بارے میں معلومات دے رہے ہوں، کسی کرکٹ میچ کا آنکھوں دیکھا حال بتا رہے ہوں۔
شاید ملک کا کوئی ایک ایسا شہر رہاہو جہاں انہوں نے معصوم انسانوں کے تابوتوں کا تحفہ نہ بھیجا ہو۔ میں جس شہر مقتل میں رہتا ہوں وہاں کئی بار ان کی سپاہ نے سینچریاں سکو ر کیں، اور انہوں نے اس پر نہایت ہی فصیح و بلیغ کمنٹری کی ۔ہزارہ کمیونٹی کو ہدف بنانے کی بات ہو، سردار بہادر خان یونیورسٹی کےبیس ہونہار طالبات کا خون ہو یا اگست ۲۰۱۶ میں ۸۰ سے زاہد وکلا اور ۷۰ پولیس اہلکاروں کی شہادت ہو۔ خون ناحق بہانے کے ہر واقعے کی تصدیق ہر بار ہم نے انکی وساطت سے سُنی۔
ریاست دہشت گردی کو روکنے میں کہاں تک سنجیدہ ہے ۔ یا یہ کہ دہشت گردی سے متعلق معاصر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا بیانیہ کیا ہے یہ سوالات اب بار بار پوچھے جانے کے بعد اور ہر بار ایک جواب ملنے کے اپنی معنویت کھو چکے ہیں۔
عرض یہ ہے کہ ہمیں ریاست سے خون بہا چاہیے اور نہ ہی کسی مجرم کا سر، ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ اگر وعدہ معاف گوا بننے اور مسلمانی کرانے کے بعد اسکے کردار کے داغ دھبے دھل سکتےہیں، پھر اسی بھائی چارے ، اور فتح مکہ کے فارمولے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے کلبھوشن کو بھی معاف کیا جائے، وہ بھی تو آخر شیطان یا کسی انسان نما شیطان کے بہکاوے میں آکر چغل خوری اور دہشت گردی کی نیت سے آیا تھا۔ ہم یہ ہرگز نہیں کہتے کہ کلبھوشن آسانی سے اسلام اور مسلمانی کرانے کیلئے تیار ہو جا ئیں گے ، اور اسلامی تعلیمات پر دسترس حاصل کرنے کیلئے آپ انہیں اکوڑہ خٹک بھیج دیں۔
ہم بس یہ گذارش کرتے ہیں کہ جبر اور قتال کے اس استعارےسے اخبارات، رسائل اور جرائد کو مزید پلید نہ کیا جائے، ٹی وی چینلز رینکینگ کے چکر میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کو قومی ہیروز کے طور پر پیش نہ کیا کریں، ہم قسم اٹھانے کو تیار ہیں کہ ہم باری باری انکے چربہ زدہ اور معلومات اور تجزیے سے عاری پروگرام رضاکارانہ طور پر دیکھیں گے، بچوں کو بھی دکھائیں گے، لیکن ظلم کی ان علامتوں کو قدر و منزلت دے کر ہمارے شہدا کی روحوں کامذاق نہ اڑایا جائے۔
♦