سید انورمحمود
آج میں جس شخص کا تذکرہ کرنے جارہا ہوں یہ نہ تو پریوں کے دیس سے آیا ہے، نہ ہی یہ کسی ریاست کا شہزادہ ہے، نہ ہی یہ مفتی ہے اور نہ ہی کسی مسجد کا پیش امام اور نہ ہی یہ ایک عام انسان ہے، یہ ایک درندہ ہے جو ہمارے بچوں کے قتل پر خوشی مناتا تھا، جو پاکستانیوں کوقتل کرکے ان کے سر کاٹ کے ان سے فٹبال کھیلتا تھا۔ ہر دہشت گردی کے بعد یہ میڈیا پر نمودار ہوتا اوراپنی اور اپنے ساتھیوں کی بربریت کو بڑئے فخر سے تسلیم کرتا تھا، یہ پاکستانیوں کے لیے خوف کی علامت تھا۔
سوات میں تعلیم کی شیدائی ملالہ یوسف زئی پرنو اکتوبر، 2012 کو طالبان دہشت گرد حملہ کرتے ہیں اور یہ طالبان دہشت گردوں کے ترجمان کے طور پر اس بچی پرحملے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے، اور کہتا ہے کہ ملالہ کفر اور بے شرمی کی علامت ہے، پھر اپنی اس بربریت کو قرآن سے درست ثابت کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے ، ساتھ ہی دھمکی دیتا ہے کہ اگر ملالہ یوسف زئی نے ایسا دوبارہ کیا تو پھر حملہ کرینگے۔
ملالہ یوسف زئی تو کامیابی سے اپنی راہوں پر گامزن ہے جبکہ مہمند ایجنسی کا رہنے والایہ درندہ جس کا اصل نام تو لیاقت علی ہے لیکن دہشت گردوں کی دنیا میں ’’احسان اللہ احسان‘‘ کے نام سے ان کا ترجمان تھا،آجکل پاکستانی افواج کی تحویل میں ہے۔سال 2012 میں اس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے اس کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والے کو بیس کروڑ روپے انعام دینے کا اعلان کیا تھا۔ رحمان ملک نے کہا تھا کہ احسان اللہ احسان کا تعلق تحریک طالبان سے نہیں بلکہ وہ ملک میں بیرونی عناصر کے لیے کام کررہا ہے۔
احسان اللہ احسان تحریک طالبان پاکستان، تحریک طالبان مہمندایجنسی اور جماعت الاحرار کا ترجمان رہا، ملک میں دہشت گردی کی کوئی بھی کارروائی ہوتی تو احسان اللہ احسان اس کی فوراً ذمہ داری قبول کرتا، صحافیوں کو فون کرتا، اگر کوئی صحافی طالبان کے موقف کے خلاف جارہا ہوتا تو اس کو دھمکیاں دیتا تھا۔
دہشت گردی کے عروج کے زمانے میں پاک فوج نے 15جون سے آپریشن ضرب عضب شروع کیا اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر بھرپور حملے کیے جس سے دہشت گردی میں کافی کمی آئی، اس کے بعد21 فروری 2017 کو فوج کی جانب سے ایک اور ملک گیرآپریشن’’ردالفساد‘‘ کے نام سے شروع کیا گیا ہے جس میں بری بحری فضائی افواج اور قانون نافذ کرنیوالے تمام ادارے شامل ہیں۔
نئے آپریشن ’’ردالفساد‘‘ کے بارے میں کہا گیا ہےکہ اس کے ذریعے دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا صفایا کیا جائے گا، ملک بھرسے غیرقانونی اسلحے اور گولہ بارود کا خاتمہ بھی اس آپریشن کے ذریعے کیا جائے گا۔ نیشنل ایکشن پلان پرعمل درآمدآپریشن’’ردالفساد‘‘ کا بنیادی مقصد ہے۔ نئے آپریشن ’’ردالفساد‘‘ کے شروع ہونے سے قبل پورے ملک میں جنوری اور فروری میں 10 سے بارہ دہشتگردی کے واقعات ہوئے جن میں 100 سے زیادہ لوگ جاں بحق ہوئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ نے 17 اپریل 2016 کو راولپنڈی میں ایک میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے خود کو پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے حوالے کر دیا ہے۔ پاک فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پاک فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے والوں میں احسان اللہ احسان اکیلا نہیں ہے بلکہ مستقبل میں ایسی اور اطلاعات سے بھی میڈیا کو آگاہ کیا جائے گا۔
چھبیس 26 اپریل کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے کالعدم جماعت الاحرار اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے اعترافی ویڈیو بیان جاری کردیا، اعترافی ویڈیو بیان میں احسان اللہ احسان کا کہنا تھا کہ وہ دو ہزار آٹھ میں کالعدم تحریک طالبان میں شامل ہوا تھا۔احسان اللہ احسان کی طرف سے اس کا اعترافی بیان جس میں کئی قسم کے انکشافات کیے گئے ہیں گذشتہ روز سے ذرائع ابلاغ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر مسلسل دیکھا جارہا ہے اور اس پر تبصرے بھی کیے جارہے ہیں۔
احسان اللہ احسان کی گرفتاری سے قبل 25 مارچ 2017 کوروزنامہ جنگ کے کالم نگار سلیم صافی جو جیو نیوز چینل کے پروگرام ’’جرگہ‘‘ کے اینکر بھی ہیں انہوں نے ’’طالبان کے خلاف عام معافی کیوں؟‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھا اور اس میں واضح طور پر لکھا کہ ’’حکومت پاکستان عسکریت پسندوں کے لئے عام معافی کا اعلان کردے‘‘۔ دہشت گردوں کے بہت سے سہولت کا رہیں جن میں اسی قبیل کے کئی قلم کار بھی ہیں لیکن ابھی تک کسی ایک نے بھی اسقدر بے باکی کا مظاہر نہیں کیا تھا جو سلیم صافی نے 25 مارچ 2017 کےاپنے مضمون میں کیا۔
یہ دہشت گردوں کا نیا سہولت کار ہے اور اب مسلسل دہشت گردوں کےلیے کام کررہا ہے۔ جیو نیوز نے 26 اپریل سے ایک اشتہار چلانا شروع کیا ، جس میں یہ عندیہ دیا جارہا تھا کہ کل رات جیو کے پروگرام ’’جرگہ‘‘ میں احسان اللہ احسان کا انٹرویو دیکھیں، یہ ایک حیران کن بات تھی کہ اس سے پہلے پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ اپنے طور پر صولت مرزا، عزیر بلوچ اور اب احسان اللہ احسان کا ویڈیو میڈیا کو عام عوام کو دکھانے کےلیے دیا ، اس میں تمام میڈیا چینل شامل تھے لیکن اچانک کسی ایک چینل پر اس قدر مہربانی کیوں، اور کیسے اس درندے کو جو ہزاروں انسانوں کا قاتل ہے اس کو سلیبرٹی بناکر پیش کیا جانا تھا۔
بات سمجھ میں یہ آئی کے کروڑوں پاکستانی اس پروگرام کو دیکھتے، اور جیو کی ریٹنگ بلند ترین سطح پر چلی جاتی اور ادارے کو کروڑوں روپے کا فائدہ ہوتا، جیو نیوز اس بات سے قطعی متاثر نہیں ہوتا کہ کس پر کیا گزری۔ لیکن اس سے پہلے کہ یہ انٹرویو نشر ہوتا پیمرا نے اس انٹرویو پر پابندی لگادی۔
پیمرا کے مطابق تحریک طالبان پاکستان جو کہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور احسان اللہ احسان اس دہشت گرد تنظیم کا ترجمان رہا ہے اور اس شخص نے تنظیم کے رکن کے طور پر ہزاروں پاکستانیوں کو شہید کرنے کا گھناؤنا اعتراف کیا ہے۔ ایسے شخص کا کسی بھی چینل کے پلیٹ فارم پر انٹرویو کرنا اُس کو دکھانا اُن ہزاروں فوجیوں‘ سویلین اور شہید بچوں کے والدین‘ رشتہ داروں‘ دوستوں اور کروڑوں پاکستانیوں کیلئے ایک انتہائی تکلیف دہ عمل ہے۔
جیو نیوز نے پیمرا کی جانب سے زیر حراست دہشت گرد کے خصوصی انٹرویو پر پیمرا کی یک طرفہ پابندی پر اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ جیو نیوز اس معاملے پر قانونی چارہ جوئی کرے گا اور جیو وسیع تر عوامی مفاد میں حقائق منظر عام پر لاتا رہے گا۔
یہ وہی احسان اللہ احسان ہے جو دہشت گردوں کا ترجمان تھا اور اب اس نے انکشاف کیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے لیے افغان خفیہ ادارے این ڈی ایس اور انڈین ایجنسی ‘را‘ پاکستان میں دہشت گردی کرنے کے اہداف مقرر کرتی تھیں اور ان اہداف کو حاصل کرنے کی قیمت بھی دہشتگردوں کو ادا کرتی تھی۔یہ حکیم اللہ محسود کا دست راست تھا، اس نے سینکڑوں دہشت گرد کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی اس کی گرفتاری ایک بڑی کامیابی ہے۔ امید ہے پاک فوج اس کو جلد اس کے انجام تک پہنچائے گی اور جلدہی یہ پھانسی کے پھندئے پر لٹکا ہوا نظر آئے گا۔
پیمرا نے جیو نیوز کے 27 اپریل کے پروگرام جرگہ پر پابندی لگاکر بالکل درست اقدام کیا ہے، لازمی بات ہے پیمرا کی اس پابندی سے جیو نیوز کی دوکانداری پر اثر پڑا ہوگا اور دہشت گردوں کے سہولت کارسلیم صافی کو اپنے آقاؤں کی صفائی کا موقع نہ ملا۔
♥