احسان اللہ احسان کے بعد اب پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ڈان لیکس کے بادل چھاچکے ہیں۔ پہلے وزیر اعظم کا اپنی مشیر خارجہ کی سبکدوشی کا نوٹیفیکشن ، پھر آئی ايس پی آر کا اُسے مسترد کرنا اور پھر وزير داخلہ کے بیان نے معاملات کو ايک نيا ہی رُخ دے ڈالا۔
وزير داخلہ چوہدری نثار علی خان نے حساس معاملات پر سرکاری اداروں کی جانب سے ٹوئيٹس جاری کرنے کے عمل کو تنقيد کا نشانہ بناتے ہوئے اسے افسوس ناک قرار ديا ہے۔
کراچی ميں بروز ہفتہ ايک پريس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس قسم کی ٹوئيٹس ملک ميں جمہوريت کے ليے نقصان دہ ہيں۔ چوہدری نثار نے فوج کے ادارے انٹر سروسز پبلک ريليشنز کی طرف سے جاری کردہ اس ٹوئٹر پيغام پر رد عمل ظاہر کيا، جس ميں ’ڈان ليکس‘ کے حوالے سے وزير اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ايک ايگزيکيٹو آرڈر کو مسترد کر ديا گيا تھا۔
گزشتہ سال اکتوبر ميں انگريزی زبان کے پاکستانی روزنامے ’ڈان‘ ميں چھپنے والی ايک خبر کے مطابق وزير اعظم نواز شريف نے فوجی قيادت کے ساتھ اُس وقت ايک ملاقات ميں انہيں تمام دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کا کہا تھا۔ رپورٹ کے مطابق فوج پر زور ديا گيا تھا کہ ايسا نہ کرنے کی صورت ميں پاکستان دنيا ميں سفارتی سطح پر تنہا رہ جائے گا۔
رپورٹ کے شائع ہونے کے فوری بعد فوج و سويلين حکومت، دونوں ہی نے اسے مسترد کر ديا اور معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے ليے ايک انکوائری کميٹی تشکيل دے دی گئی۔ واضح رہے کہ نيوز ايجنسی ڈی پی اے کے مطابق انکوائری کی رپورٹ تاحال باقاعدہ طور پر جاری نہيں کی گئی ہے۔
وزير اعظم نواز شريف کے دفتر سے آج ہفتے کی صبح جاری ہونے والے ايک نوٹيفيکيشن ميں کہا گيا کہ ’ڈان ليکس‘ انکوائری کميٹی کی تمام تر تجاويز پر عمل کرتے ہوئے وزير اعظم کے خصوصی مشير طارق فاطمی سے خارجہ امور کی ذمہ دارياں واپس لے لی جائيں۔ علاوہ ازيں وزارت اطلاعات کے پرنسپل انفارميشن آفيسر راؤ تحسين علی کے خلاف تحقيقات کا آغاز کيا جائے۔ نوٹيفيکيشن ميں متعلقہ رپورٹر اور ايڈيٹر کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ بھی کيا گيا۔
بعد ازاں آج سہ پہر ہی آئی ايس پی آر کے ڈائريکٹر جنرل ميجر جنرل آصف غفور نے ايک ٹوئٹر پيغام ميں حکومتی ٹوٹيفيکيشن کو ’مسترد‘ کرتے ہوئے لکھا کہ وہ نا مکمل ہی نہيں بلکہ انکوائری بورڈ کے مشوروں کے مطابق بھی نہيں ہے۔
معروف پاکستانی صحافی عمران شيروانی نے اس حوالے سے ڈی ڈبليو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ آئی ايس پی آر يا فوجی قيادت کے پاس کوئی قانونی اختيار نہيں کہ وہ اس قسم کی بات کریں۔ شيروانی نے کہا، ’’اس ٹوئيٹ پر ان کا کورٹ مارشل ہونا چاہيے اور ان پر آرٹيکل چھ کا اطلاق ہونا چاہیے‘‘۔
پاکستانی صحافی کے بقول اس وقت وزير اعظم پر کافی دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزيد کہا، ’’جس طرح ہم نے ديکھا کہ سابق فوجی سربراہ راحيل شريف کو ايک مسيحا کے طور پر پيش کيا گيا۔ در اصل لوگوں کو يہ يقين دلايا جا رہا ہے کہ اصل اختيار و اقتدار فوج کے پاس ہے اور ہونا بھی چاہيے‘‘۔
شيروانی نے ڈی ڈبليو سے بات کرتے ہوئے بتايا کہ ’ڈان ليکس‘ کی رپورٹ کے مطابق سويلين حکومت نے فوجی اسٹيبلشمنٹ پر تنقيد کی تھی کہ دہشت گردی کے خاتمے کے ليے ان کے اقدامات کارآمد ثابت نہيں ہو رہے۔ ’’اس وقت اہم ترين سوال تو يہی ہے کہ دہشت گردی کيوں ختم نہيں ہو رہی؟ کيا ہم دہشت گردوں کو حمايت فراہم کر رہے ہيں؟ اگر ہاں، تو کھل کر بات کريں اور اگر نہيں، تو انہيں ختم کيوں نہيں کيا جاتا؟ سوال در اصل يہ ہے۔‘‘ شيروانی کے بقول اس سوال کے جواب سے بچنے کے ليے ہر قسم کی بات کی جائے گی اور کی جا رہی ہے۔
سوشلستان میں بھی تجزیہ نگاروں، صحافیوں اور عوام کی بڑی تعداد میں آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر میجر جنرل غفور کے اس ٹویٹ کی سختی سے مذمت کی جارہی ہے ۔
DW
♥
One Comment