عطاالرحمن عطائی
آہ ،اے مجاہد اسلام
تجھے کھو کر تحریک طالبان اپنی بینائ کھو بیٹھی ہوگی، اب کہیں پر دھماکہ کر کے عوام کے پرخچے اڑاکر کون کسی نامعلوم مقام سے ذمہ داری قبول کرے گا۔ جس کی آواز میں تیری طرح شریعت سے بھرپور و منور انگڑائیاں ہوں گی۔ اب کون گرج کر یہ دھمکی دے گا کہ ساری عوام روافض ہیں اور ایسے تمام منکرین شریعت کو ہم اسی طرح جہنم رسید کرتے رہیں گے۔
آہ ، اے جنت کی سند تقسیم کرنے والے، تو اپنے مار دھاڑ ، کشت و خون کے ان لہولہان راستوں سے کیوں لوٹ آیا جہاں پر ہزاروں تڑپتی ہوئی طالبان کی روحیں بین کرتی ہوں گی جن کو جنت میں آپ کے جعلی اسناد کے سبب داخلے کی اجازت نہیں ملتی ہوگی۔
اے دھماکے کی گونج میں گرم لہو بہتا دیکھ کر محظوظ ہونے والے، ہم تیری بے رحم زبان سے لاشوں اور مقتولین کی تعداد سن کر ہر وقت سکتے میں آجاتے تھے۔ ہمیں خوف کی عادت ہوچکی تھی، عوام ہر روز تجھ سے موت کا پروانہ پانے کی منتظر رہتی تھی۔
اب نہ جانے کون تیری طرح موت کی وبا پھیلا کر ذمہ داریاں قبول کرتا رہے گا مگر وہ شاید وہ ماحول نہ بنا سکے جو تم نے بنایا تھا۔
آہ اے نڈر قصاب جب تم اپنی تنظیمی طاقت کی بنیاد پر محفوظ و ممنون تھے ،اس وقت تو تم نہتے پشتونوں کے اجسام بوٹیوں میں کاٹتے ہوئے کبھی نادم نہ ہوئے، تجھے کبھی یہ احساس نہ ہوا کہ تحریک طالبان بھارت کی پیداوار ہے ۔
اب جب تحریک کی کمر ٹوٹ گئی اس کو تیری حقیقی بہادری کی ضرورت پڑی تو اے میرے بہادر قصاب تجھے نہتی عوام کا غم ادھ موا کرنے لگا اور تم شریف بن کرگناہوں کا اعتراف کر بیٹھے۔ اور اپنے دیگر ساتھیوں جو ہزاروں مجبوریوں اور لاعلمیوں کی بنیاد پر تیری تحریک کا حصہ بنے تھے۔ جنہوں تحریک کے بیانئے کے لئے اپنی جانیں دیں اور لاکھوں بے نوا پشتونوں بے گھر بنا ڈالا ۔
اس وقت تو ان ساتھیوں کو تم نے بڑی داد دی ہوگی ۔ پر اب تم نے اپنے اس عمل سے ان کو اپنی ہی نظروں میں سوالیہ نشان بنا ڈالا۔ تم بے وفا نکلے ساتھیوں کی نظر میں ۔ کرائے کے قاتل نکلے عوام کی نظر میں۔رہی بات پاکستانی ریاست کی ۔ تو اے مملکت ،تجھ سے کیوں گلہ کریں، مگر کچھ کر بھی تو نہیں سکتے سوائے گلے کے،صرف گلہ ہی کر سکتے ہیں۔
آہ اے ریاست پاکستان ، سنا ہے تیری فوج دنیا کی بڑی افواج میں شمار کی جاتی ہے۔ سنا ہے تیری خفیہ ایجنسیاں ٹاپ پر ہیں۔ مگر آپ کو یہ بات ماننی پڑے گی کہ آپ لاکھوں پشتونوں کو اس احسان اللہ احسان سے نہیں بچا سکے جو آج خود آکر تیرے آغوش میں آ بیٹھا۔ اس لئے عوام کے شک کی سوئی انڈیا پر آنے کی بجائے تیرے ڈھیلے اور مشکوک انداز پر آکر رکتی ہے۔ اس لئے ہم طالبان کو مطعون ٹھہرانے کی بجائے تجھ سے تیرا بیانیہ بدلنے کی التجا کرتے ہیں۔ جس نے ہمارے معاشرتی رفتار کو لنگڑا بنا کر معذور بنا دیا ہے ۔
اگر ریاستی بیانیہ ضیائی نفسیات کے مطابق اسی طرح مذہبی و جہادی رہا ۔ اور ساتھ ساتھ عوام کی غربت و بیگانگی کی یہی حالت رہی تو کو بھی طاقت چاہے ریاستی ہو یا عالمی وہ عوام کو ان انتہاپسندانہ بیانیوں کی بنیاد پر مختلف تحریکوں میں شامل کرتی رہیں گی اور پھر ہر مرحلے کے آخر میں کوئی نہ کوئ احسان اللہ احسان اعتراف جرم کر کے تمام ماسٹر مائنڈ مجرم طاقتوں پر پردہ ڈالتا رہے گا۔
♦