سید انور محمود
گذشتہ سال 6 اکتوبر 2016 کو انگریزی اخبار ڈان نے وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے ایک اجلاس سےمتعلق ایک خبر شائع کی تھی، جس میں کالعدم تنظیموں کے معاملے پر فوج اور سول حکومت میں اختلافات کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ اس خبر کی اشاعت کے بعد اعلیٰ فوجی کمانڈروں کے ایک اجلاس میں اس خبر کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے اس پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ فوج نے اسے قومی سلامتی کی خلاف ورزی بھی قرار دیا تھا۔
اس خبر پر تمام جانب سے شدید تنقید کے بعد سابق وزیر اطلات پرویز رشید کو ان کے عہدے سے ہٹادیا گیا اور اس خبر کی تحقیقات کے لیے جس کو ڈان لیکس کا نام دیا گیا جسٹس ریٹائرڈ عامر رضا کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی، جس کے 16 اجلاسوں میں گواہوں سے بیانات لئے گئے۔وزارت داخلہ نے تحقیقاتی رپورٹ چند روز قبل وزیر اعظم ہاؤس کو ارسال کی تھی، جس میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی کو ان کے عہدے سے ہٹانے اور وزارت اطلاعات کے ایک اعلیٰ افسر کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی تھی۔ 29 اپریل 2017 کو وزیر اعظم ہاؤس سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ طارق فاطمی کو ان کے عہدے سے ہٹادیا گیا ہےاور وزیراعظم نے وزارت اطلاعات کے اعلیٰ افسر کے خلاف کارروائی کی منظوری بھی دے دی ہے۔
ہفتہ 29 اپریل 2017کو ہی پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفورنےدو سطروں کا ایک ٹویٹ پیغام کیا جس میں انہوں نے وزیراعظم نواز شریف کے اس حکم نامہ کو جس میں انہوں نے ڈان لیک کمیشن رپورٹ کی سفارشات پر عمل درآمد کرنے کو کہا تھا بہت سخت انداز میں مسترد کردیا۔
جنرل آصف غفورنے اس ٹویٹ میں بہت ہی نامناسب اورسخت الفاظ استعمال کیے اور آخر میں تو وہ اپنی حد پار کرگئے اور ملک کے وزیر اعظم کی بے عزتی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، ان کا اپنے ٹویٹ میں فرمانا تھا کہ ’’رپورٹ انکوائری بورڈ کی سفارشات کے مطابق نہیں۔ ڈان لیکس سےمتعلق نوٹیفکیشن نامکمل ہے، نوٹیفکیشن کو مسترد کرتے ہیں‘‘، (اصل ٹویٹ انگریزی زبان میں تھا)۔
نواز شریف ملک کے وزیر اعظم ہیں انہیں ملک کی اکثریت نے اپنے ووٹوں کے ذریعے وزیراعظم بنایا ہے، اس لیے ملک کے تمام سرکاری اداروں کے ملازمین کا فرض ہے کہ ان کے احکامات پر عمل کریں اور اگر کسی وجہ سے وہ ان احکامات پر عمل کرنا نہیں چاہتے تو پھروزیر اعظم آفس کو اس سے مطلع کریں لیکن کسی عوامی ذریعے سے نہیں ۔
میجر آصف کو اگر وزیر اعظم کے حکم پر اعتراض تھا تو وہ وزیراعظم کے ملٹری سیکریٹری سے رابطہ کرکے وزیر اعظم کو مطلع کرسکتے تھے کہ اس حکم نامے کو نہیں مانا جاسکتا جس کی وجوہات یہ یہ ہیں۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اداروں کی جانب سے ٹوئٹس کے ذریعے معاملات ہینڈل کرنا درست نہیں، اس کے لئے اداروں میں براہ راست رابطہ ضروری ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ماتحت ادارہ وزیراعظم کا حکم نامہ مسترد کرسکتا ہے؟۔ ایک بات کا یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ حفظ مراتب کا احترام بھی از حد لازم ہے جس کے بغیر طوائف الملوکی پیدا ہوتی ہے۔ ویسے اس انداز میں وزیر اعظم کے حکم نامہ کو مسترد کیا گیا جس سے نہ صرف فوج اور سول حکومت کے درمیان اختلاف کو واضح کیا گیا بلکہ وزیر اعظم کے لیے شرمندگی کی صورتحال بھی پیدا کی گئی ہے۔
کیوں ایک منتخب وزیراعظم کے حکم کو ان کے ایک ماتحت فوجی افسر نے اس انداز میں مسترد کیا ہے کہ جیسے وزیراعظم نواز شریف فوجی ترجمان میجر جنرل آصف کے ماتحت ہوں۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ 2008 کے بعد آنے والی سول حکومتیں کرپشن کی کیچڑ میں لتھڑی ہویں ہیں۔ پیپلز پارٹی کے 2008 سے 2013 تک کی مرکزی حکومت اور 2008 کے بعد سے اب تک کی سندھ حکومت نے صرف ایک کام کیا ہے، کرپشن کرپشن اور صرف کرپشن کی ہے۔
سولہ 16 فروری 2015کو ایپکس کمیٹی کے ایک اجلاس جس میں وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف زرداری بھی موجود تھے سندھ میں موجود پیپلز پارٹی کی حکومت کو رینجرز کی جانب سے نااہل کہا گیا اور ساتھ ہی یہ الزام بھی لگایا کہ کراچی آپریشن میں سندھ حکومت کی جانب سے تعاون نہیں کیا جارہا ہے۔ گیارہ جون 2015 کو اپیکس کمیٹی میں ڈی جی رینجرز نے ایک رپورٹ پیش کی جس کے مطابق سالانہ 230 بلین روپے دہشت گردی میں استعمال ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
مختلف غیر قانونی طریقوں سے حاصل کی گئی رقم لیاری گینگ اور مختلف دھڑوں اور سندھ کی کچھ اعلیٰ شخصیات میں تقسیم کی جاتی ہے۔ چور کی ڈاڑھی میں تنکہ کے مصداق آصف زرداری فوج پر برس پڑئے اور وہ وہ دعوئے کرڈالے جو اُن کی پہنچ سے دور ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے اس وقت کے آرمی چیف راحیل شریف کو جو اس وقت غیر ملکی دورے پر تھے فون کرکے بتایا کہ آصف زرداری نے جو کچھ کہا میں ان سے متفق نہیں ہوں۔
چند دن بعد آصف زرداری ملک چھوڑ کر چلے گئے اور واپس تب آئے جب جنرل راحیل شریف ریٹائر ہوگے اور جنرل باجوہ نئے فوجی سربراہ بن گئے۔واپس آنے سے پہلے آصف زرداری نے جنرل باجوہ کو ان کے نئے عہدے کی مبارکباد دی۔
نواز شریف نے 6 جون 2013 کو وزیراعظم کے آفس کا چارج لیا اور اب ان کی میعاد میں 400 دن سے بھی کم دن باقی ہیں لیکن گذرئے ہوئے تین سال اور گیارہ ماہ میں نواز شریف حکومت کی طرف سےعوام کو کوئی سہولت میسر نہ ہوسکی، نواز شریف اُس ملک کے وزیراعظم ہیں جہاں 20 کروڑ سے زیادہ آبادی میں 60 فیصد عوام پینے کے صاف پانی کی سہولت سے محروم ہیں۔ تعلیم کے شعبے پر کوئی توجہ نہیں ہےبیس کروڑ سے زیادہ کی آبادی میں 60 فیصد آبادی خط غربت کے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔
نواز شریف کی حکومت میں اور زرداری کی حکومت میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے کرپشن۔ پانامہ پیپرز کے سلسلے میں20 اپریل 2017 کے فیصلے میں سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بینچ کے پانچوں جج صاحبان متفق ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف ایک کرپٹ وزیراعظم ہیں، دو ججوں جسٹس کھوسہ اور جسٹس گلزارنے بغیر کسی اگر مگر کےلکھا ہے کہ’’وزیراعظم نا اہل ہیں، صادق اور امین نہیں ہیں۔
میجر جنرل آصف غفورنےدو سطروں کا ایک ٹویٹ پیغام کرتے وقت شاید یہ ہی سوچا ہوگا کہ ایک بدعنوان وزیراعظم کے حکم کو نہ ماننے بلکہ اس کو مسترد کردینے سے ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی اور یہ ہی میجر جنرل آصف کی غلطی ہے۔ یہ بات اب سب ہی جانتے ہیں کہ نواز شریف ایک کرپٹ حکمران ہیں لیکن میجر جنرل آصف آپ آئینی اور قانونی طور پر وزیر اعظم کے حکم کو مسترد کرنے کے قطعی مجاز نہیں ہیں۔
میجر جنرل آصف غفور یہ بات ضرور یاد رکھیں کہ پاکستان، فوجی نہیں ایک جمہوری ریاست ہے، اور وزیر اعظم کے کسی حکم کو یا تومنتخب پارلیمینٹ مسترد کرسکتی ہے یا پھر سپریم کورٹ اس کو رکواسکتی ہے کوئی فوجی افسر نہیں۔ آصف زرداری، نواز شریف اور ملک کےدوسرے سیاستدان کچھ تو ملک کےلیے سوچیں اور اس ملک سے کرپشن کو ختم کرنے میں مدد کریں تاکہ عوام کا کچھ تو بھلا ہو۔
♦