علی احمد جان
چین کی تہذیب میں کاغذکے ایجاد سے قبل انسان نے جس شے کو بطور قرطاس استعمال کیا وہ ایک خاص بلندی پر اگنے والے درخت کی کھال ہے۔ اس درخت کا اردو میں کوئی نام کم از کم میرے علم میں نہیں مگر اس کو انگریزی میں برچ کہتے ہیں۔ برچ کی کھال تہہ در تہہ انتہائی ملائم ہوتی ہے جس کی چوڑائی درخت کے تنے کے قطر کے برابر اورلمبائی درخت کے تنے کے حساب سے ہوتی ہےجس کو حسب ضرورت درخت کو کاٹے بغیر ہی اتاری جاتی ہے۔
لکھائی کے علاوہ اس درخت کی کھال کو مکانات کی چھتوں میں استعمال کرنے کے علاوہ اس میں لپیٹ کر مکھن زمین کے اندر دفن کیاجاتا ہے جوزمین کے اندر تا دیر استعمال کے قابل رہتاہے۔ یہ بڑے پتوں والا سطح سمندر سے بلندی پر ٹری لائن کاآخری درخت ہوتا ہےجس کے بعد درخت نہیں اگتے۔ خزاں کے موسم کا آغاز بھی برچ درخت کے چوڑے پتوں پر چھا جانے والی زردی سے ہوتا ہے جو اس بلندی پر دور سے نظر آتی ہے۔
برچ کا مذکورہ درخت جنوبی ایشیا میں افغانستان کے علاوہ کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی پایا جاتا ہے۔ اس خطے میں اشوک کے بدھ مت کا عقیدہ اختیار کرنے سے پہلے ہندو مذہب کے پنڈتوں نے اپنے مذہبی نسخے اسی درخت کی کھال پر ہی لکھے اور اس کے بعد بدھ مت کے دو رکے قدیم قلمی نسخے بھی اسی چھال پر لکھے ملتے ہیں۔
سنہ ۱۹۳۱ میں گلگت شہر کے نزدیک ساتویں صدی عیسوی میں لکھے ایسے ہی قلمی نسخے دریافت ہوئے جو انگریز اور ہندوستانی ماہرین اپنے ساتھ لیکر گئے جو بغرض تحقیق و دیدار عام دہلی کے عجائب گھر میں رکھے گئے تھے ۔ انگریزوں کے جانے کے بعد جموں و کشمیر اورہندوستانی حکومت کے درمیان ان نسخوں کی ملکیت پرایک عدالتی تنازعہ کھڑا ہو ا۔ ہندوستانی عدالت نے ان نسخوں کو جموں و کشمیر کی ملکیت قرار دیا اور یہ نسخے سری نگر منتقل کئے گئے۔
منتقلی کے بعد یہ نسخے سری نگر میں واقع شری پرتاب سنگھ میوزیم میں رکھے گئے تھے مگر صد حیف کہ ۲۰۱۴ء میں اس عجائب گھر میں سیلابی پانی گھس آیا جس کی وجہ سے یہ نسخے بھی دیگر نازک نوادرات کے ساتھ تباہ ہوگئے۔ اس عجائب گھر کے دورے کے دوران منتظمین تو شرم کی وجہ سے کچھ بتانے سے گریزاں تھے مگر ایک مخلص چھوٹے درجے کے ملازم نے راقم کو یہ بات انتہائی راز کیساتھ بتادی تھی۔
گلگت سے ملنے والے یہ پہلے اور آخری نسخے نہیں تھے۔ ایسے قدیم قلمی نسخے دیگر نوادرات کے ساتھ ہزاروں نہیں تو سینکڑوں کی تعداد میں ملے ہیں اور ملتے رہتے ہیں جومقامی لوگ سیاحوں کے ہاتھ فروخت کردیتے ہیں یا نوادرات کا غیر قانونی کاروبار کرنے والے ان نسخوں کو خرید کر بین الاقوامی زیر زمین منڈی میں فروخت کردیتے ہیں۔ اب تک کئی اقسام کے رسم الخط میں یہ نسخے دریافت ہوئے ہیں جن میں ادویات، فلسفہ ، اخلاقیات اور مذہب کے مختلف موزوعات پر تحریریں ملی ہیں ۔ چونکہ یہ نسخے چوری چھپے خریدے اور بیچے جاتے ہیں اس لئے ان کے تراجم نہیں ہوتے اور یہ علوم باقاعدہ طور پر منظر عام پر نہیں آتیں اس لئے ہم ان کے بارے میں کچھ زیادہ جاننے سے قاصر ہیں۔
ان نسخوں کے بارے میں جتنا ہم جان سکے ہیں اس کے مطابق شاردھا، خروشتی، برہمی اور سنسکرت سمیت کئی ایک رسم الخط پتھروں پر کندہ اور برچ کی کھال پررقم شدہ دریافت ہوئےہیں۔ ان نسخوں میں سنسکرت کے علاوہ شینا زبان میں لکھے گئے نسخے بھی شامل ہیں جو اس بات کی نشاندہی ہےکہ شینا زبان آج سے ایک ہزار سال پہلے لکھی اور پڑھی جاتی تھی۔ شینا زبان کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ اس زبان کی مقامی شمنوں کےگائے جانے والے گیتوں کی صورت میں قدیم شکل بھی ابھی تک موجود ہے۔ شینا زبان پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاوہ ہندوستان کے انتظام کشمیر اور پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے زیر انتظام ضلع کوہستان میں بھی بولی جاتی ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ قدیم زمانے میں پڑھی اور لکھی جانے والی مترنم گیتوں کی یہ زبان آج کے جدید دور میں رسم الخط سے محروم ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت پاکستان گلگت سے ملنے والے قدیم قلمی نسخوں کا تحفظ کرتی ان پر تحقیق کرواتی اور ان زبانوں کی پھر سے ترویج کرتی۔ اس سے ایک طرف دنیا کو علم کا ایک خزانہ مل جاتا تو دوسری طرف پاکستان کا وقار عالمی برادری کی صف میں بلند ہوجاتا اور اس کومسئلہ کشمیر پر عالمی برادری کی حمایت میں اضافہ ہوجاتا ۔ لیکن ہوا یہ کہ پاکستان کی آج تک آنے والی کسی بھی حکومت نے اس پر توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے ایک طرف ہم ایک بڑے علمی ورثے سے محروم ہوگئے تو دوسری طرف ان زبانوں کے بولنے والے اپنے تاریخی اور ثقافتی میراث سے محروم رہ گئے۔
شینا کے علاوہ اس خطے میں بلتی زبان بھی ہے جو دیوناگری رسم الخط میں آج بھی لکھی اور پڑھی جاتی ہے ۔ بلتی زبان پاکستان کے زیر انتظام بلتستان سے ہندوستان کے زیر تسلط لداخ اور کارگل تک بولی جاتی ہے۔ اس خطے میں بولی جانے والی زبانوں میں سے بروشسکی ایک ایسی زبان ہے جس کی جڑیں یہاں مقامی کسی اور زبان کیساتھ نہیں ملتی ہیں۔ پاکستان، افغانستان، چینی ترکستان اور تاجکستان میں مشترکہ طور پر بولی جانے والی وخی زبان کے بولنے والے بھی گلگت بلتستان میں کثیر تعداد میں رہتے ہیں۔ چترال اور گلگت کے مابین صدیوں پر محیط ربط اور تعلق سے یہاں چترالی یا کہوار بولنے والوں کی ایک کثیر تعداد رہائش پزیر ہے۔
ان تمام زبانوں کے لاکھوں بولنے والوں کی موجودگی کے باوجود حالیہ مردم شماری میں ان میں سے کسی کا بطور مادری زبان اندراج نہ ہو سکا۔ پاکستان کی ریاست اپنے آ ئین کے مطابق ہر دس سال بعد مردم شماری کروانے کی پابند ہے جس میں ملک میں بسنے والے افراد کے بارے میں اعداد و شمار اکھٹے کئےجاتے ہیں۔ ان اعداد و شمار میں دیگر کوائف کے ساتھ لوگوں کی مادری زبان کے بارے میں بھی معلوم کیا جانا ضروری ہے تاکہ مختلف زبانوں کے بولنے والوں کی مخصوص فہم کی ضروریات کے مطابق علم واگہی اور ابلاغ کے منصوبے ترتیب دئے جاسکیں ۔
جب کسی زبان کے بولنے والے لوگوں کے بارے میں معلومات ہی اکھٹی نہیں ہونگی تو ان کے بارے میں منصوبہ بندی کیسے ممکن ہوگی۔ بادی النظر میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کو چند ایک زبانوں کے علاوہ دوسری زبانیں بولنے والوں کا امور مملکت میں شرکت سے کوئی دلچسپی نہیں جو ایک جمہوری اور شراکتی ریاست کے قیام و استحکام کی طرف ترقی معکوس کا سفر ہے۔
یاد رہے کہ شینا اور بلتی بولنے والوں کی ایک تعداد ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں بھی رہتی ہے جن کی تعداد پاکستان میں ان زبانوں کے بولنے والوں سے کہیں کم ہونے کے باوجود ہندوستان کی سرکار نے وہاں ان زبانوں کے سکولوں میں پڑھانےکے لئے اقدامات کئے ہیں جن میں ان زبانوں میں لکھی کتب کی دستیابی اور پڑھانے کےلئے اساتذہ کی تعیناتی شامل ہے۔
ایسے میں پاکستان میں کی جانے والی قومی مردم شماری میں ان زبانوں کا بحیثیت مادری زبان کے اندراج ہی نہ کرنا انتہائی افسوس ناک ہے۔ جب گلگت بلتستان کے اعداد و شمارمیں لوگوں کی مادری زبان کا خانہ ہی خالی ہو گا تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ یہاں کے لوگ گونگے ہیں ؟