پہلی مرتبہ کسی عوامی انتخابات میں حصہ لینے والے ایمانوئل ماکروں نے اپنی مخالف امیدوار مارین لے پین کو شکست دے دی۔ جیت کے بعد ان کا کہنا تھا کہ وہ بطور صدر فرانس اور یورپ کا تحفظ کریں گے۔
اس مرتبہ کے فرانسیسی صدارتی انتخابات میں عوام کو دو انتہاؤں میں سے ایک کو منتخب کرنا تھا۔ ایک جانب قوم پرست، یورپی یونین اور تارکین وطن کی مخالفت کرنے والی دائیں بازو کی سیاست دان مارین لے پین تھیں تو دوسری جانب فرانسیسی سیاست میں ایک نیا چہرہ، ایمانوئل ماکروں۔ عوام کی ایک واضح اکثریت نے ماکروں کا انتخاب کیا۔ ماکروں نے پینسٹھ فیصد سے زائد جب کہ لے پین نے چونتیس فیصد سے زائد ووٹ حاصل کیے۔
جیت کے بعد ماکروں نے پیرس میں اپنے حامیوں سے مختصر خطاب کیا۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق پیرس سمیت ملک بھر میں ماکروں کے حامی جشن منا رہے ہیں۔ لیکن ماکروں کا خطاب فتح کا جشن نہیں تھا، بلکہ انہوں نے زیادہ توجہ بطور صدر خود کو اور فرانس کو درپیش چیلنجز پر مرکوز رکھی۔
ماکروں نے دہائیوں تک سیاست پر اجارہ داری رکھنے والی سوشلسٹ اور ریپبلکن کو بھی چھوڑ دیا۔ان کی حریف مِس لی پین جو کہ روایتی بائیں بازو کی سوشلسٹ ہیں نے میکخواں کو اعلیٰ طبقے کا نمونہ قرار دیا اور کہا کہ ان کا ایجنڈا جھوٹا ہے۔ بہت سے لوگوں نے انھیں طنزاً ‘ٹونی بلیئر کی کاپی پیسٹ‘ کہا۔
ماکروں کا کہنا تھا کہ انہیں معلوم ہے کہ موجودہ دور میں فرانسیسی معاشرہ کس حد تک منقسم ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہ پورے فرانس کے صدر ہیں اور سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ لے پین یورپی یونین اور مشترکہ یورپی کرنسی یورو کی بھی مخالف ہیں۔ لیکن ماکروں کو کہنا تھا کہ وہ فرانسیسی صدر کے طور پر نہ صرف فرانس بلکہ یورپ بھر کا دفاع کریں گے۔
انھوں نے یورپی یونین میں ادغام کے لیے بہت سے ووٹرز کی مخالفت کے باوجود بہت مدلل انداز میں اس کا دفاع کیا۔ان کا موقف ہے کہ فرانس کی معیشت کی بہتری کے لیے یورپی یونین کی منڈیاں بہت اہم ہیں۔
چار سال تک بزنس کرنے کے بعد انھوں نے سوشلسٹ صدر فرانسوا اولاند کی حکومت میں شمولیت اختیار کی۔ ابتدا میں انھوں نے صدر کے معاشی معاون کے طور پر کام کیا اور پھر سنہ 2014 میں وہ ملک کے وزیرِ حزانہ بنے۔
‘میکرون لا‘ کے ذریعے انھوں نے کچھ اصلاحات متعارف کروائیں جن میں اتوار کو بھی دکانوں کو زیادہ دیر کھلا رکھنے کی اجازت دی اور انڈسٹری کے کچھ شعبوں کو پابندیوں سے آزاد کیا۔فرانس کے تجارتی طبقے کے لیے وہ تازہ ہوا کا جھونکا تھے۔
وہ فرانس کے شمالی شہر امیاں میں پیدا ہوئے اور انھوں نے اعلیٰ تعلیمی ادارے ہینری فور پبلک سکینڈری سکول سے تعلیم حاصل کی۔
ان کے والدین ڈاکٹر تھے۔ ماکروں نے یونیورسٹی آف پیری ویسٹنانتیر سے فلسفہ پڑھا اور پوسٹ گریجوایشن پیرس کے ممتاز ادارے سائینس پو سے کیا۔
سنہ 2008 میں وہ روتھس چائلڈ اینڈ سیائی سے منسلک ہو گئے۔
سنہ 2006 میں صدر فرانسوا اولاند سے اپنی پہلی ملاقات کی۔
سنہ 2007 میں انھوں نے اپنی ایک ٹیچر بغیزیت تونیو سے شادی کی جو ان سے 20 سال بڑی ہیں۔
انھوں نے اپریل 2016 میں جب اپنی تحریک ایم مارشے کا آغاز کیاتو حکومت میں ان کی پوزیشن ناموزوں ہو گئی۔
اس موقع پر صدر فرانسوا اولاند نے بھی ان سے کہا کہ ‘ اگر تم قوانین کا ضوابط نہیں کرو گے تو تم باہر ہو۔‘
لیبر یونین سی جی ٹی کی جانب سے جون میں ہونے والے احتجاج کے دو ماہ بعد ماکروں نے استعفیٰ دے دیا اور صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے تیاریاں شروع کر دیں۔
DW/BBC