ڈی اصغر
چلیے صاحب ایک اور مئی کی ٢ تاریخ آ گئی اور پھر گزر بھی گئی۔ ہمارے بڑے بڑے مایہ ناز صحافیوں نے ایک آدھ سطر پڑھی اور آگے کو ہو لیے۔ان سب کے لئے اس وقت جو قضیہ توجہ طلب ہے وہ ہے عسکری ادارے اور حکومت کے درمیان چلتی کشمکش۔ کئی کئی گھنٹے اس بات پر تبصروں اور تجزیوں کی نظر ہو رہے ہیں۔ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ٹی وی کی اسکرینوں پر براجمان بہت سارے اینکر در حقیقت طبلچی ہیں جن کا کام اشارے ملتے ہی بس وہی بات بار بار دہرانی ہے اور اتنی بار دہرانی ہے کہ سب ناظرین کے دل اور دماغ پر رقم ہو جائے۔
گزشتہ اکتوبر سے ایک شور بر پا ہے کہ ایک اخبار نے ایک خبر چھاپ کر قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ مجھ سے کم عقل بھی ورطہ حیرت میں ہیں کہ ایسی کون سی بات اس صحافی نے رقم کر دی جو ویسے ہی ایک کھلی حقیقت نہیں ہے۔ چلیے مان لیتے ہیں کہ، اس سے غالباً دشمن کے موقف کی تائید ہو گی۔ کونسا آسمان ٹوٹ پڑا؟ بہتر تو یہ ہوتا کہ دونوں فریقین اس خبر کو نظر اندازکردیتے۔ مگر آ بیل مجھے مار کے مصداق حکومتی جانب سے متضاد وضاحتیں منظر عام پرآ ئیں تو بس افواہوں اور تبصروں کا ایک بازار گرم ہو گیا۔
جو بات قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ اتنی حساسیت آخر کیوں؟ کیا ایسا مسئلہ ہے؟ یہ بات بھی ساری دنیا پر عیان ہے کہ پاکستان کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں میں پاک فوج کا ایک واضح کردار ہے۔ جس کی بدولت وہ سیاست میں بلواسطہ یا بلا واسطہ شامل ہیں۔ اس حقیقت کی روشنی میں اب سب اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں۔ سو جب سیاسی نوعیت کے فیصلوں میں فوج کا عمل و دخل ہو گا تو ان کے اثرات یا ان سے منسلک جو بھی مضمرات ہوں گے تو سیکورٹی اداروں کو انہیں برداشت بھی کرنا چاہیےکیوں کہ کسی بھی اشتراک کا یہ بنیادی اصول ہے۔ نفع اور نقصان دونوں برابر برابر۔
اک طوفان برپا ہے کئی ماہ سے، تفتیش پے تفتیش ، سفارشات ، رپورٹیں، کالمز، ٹویٹس ادھر سے ادھر جا رہی ہیں اور بے اعتمادی ہے کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ منتخب حکومت اور یوں کہیے کے دکھاوے لائق اس کے ماتحت دفاعی ادارے میں کھنچاؤ اورتناؤ کی ایک کیفیت سی ہے جو کافی حد تک قابل افسوس اور کسی حد تک باعث شرم بھی۔ کہنے کو مندرجہ بالا خبر کے منظرعام پر آنے سے ہمارے دشمنوں کے بیانیہ کی تائید ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عسکری ادارے اتنے چراغ پا ہیں۔ مجھ سے کم عقل اور نادان یہ کہنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں کہ حالیہ تناؤ نے اسی بیانیہ کی ایک طرح سے مکمل تائید کر دی ہے۔
وزیر داخلہ کا یہ راگ کہ سول و ملٹری ادارے ایک ہی پیج پر ہیں، سراسر جھوٹ نکلا۔ پچھلے ہفتے سے ١٤٠ حروف پر مبنی ایک ٹویٹ جو دفاعی ادارے کے تعلقات عامہ کے ترجمان نے کسی غلیل کی طرح نشانے پر دے ماری ہے، اس سے قیاس آرائیوں کا نیا تلاطم برپا ہے۔ بیچارے وزیر داخلہ کو یہ ١٤٠ حروف زہر قاتل محسوس ہو رہے ہیں۔
ایسے میں حکومت کے درباری یہ تاثرقائم کرنے کی کوشش میں ہیں کہ سب ٹھیک ہے۔ معاملات سلجھائے جا رہے ہیں۔جہاں تک اس ناچیز لکھاری کی کم عقلی کا تعلق ہے، وہ اس کا ببانگ دھل معترف ہے، لیکن ایک سوال ہے جو اس کے کند ذھن میں منڈلا رہا ہے ، کیا قومی سلامتی صرف ان ہی معاملات سے منسلک ہے جن پر سرکار نے ا ثبات کی مہر ثبت کی ہو۔ دو مئی ٢٠١١ کو بھی ایک واقعہ پیش آیا تھا اور قومی سلامتی کا ایک مسئلہ پیش آیا تھا، کیا وہ زیادہ سنگین ہے یا یہ؟
راقم آپ کی توجہ اس بات پر بھی مبذول کروانے کا خواہش مند ہے کہ شاید ارباب اقتدار جو در حقیقت با اختیار ہیں، شاید اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ یہ ٨٠ اور ٩٠ کی دہائی ہے۔ مگر پلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا ہے۔ لوگ بے انتہا باخبر اور بانظر ہو چکے ہیں۔ انھیں اس حقیقت کا مکمل ادراک ہے کہ جس گھوڑے پر وہ سوار ہیں اس کی رکابیں ، لگام اور چابک جن شہسواروں کے ہاتھ ہے وہ بھی بھول چوک کر سکتے ہیں اور یہ سر کش گھوڑا کبھی بھی بے قابو ہو سکتا ہے۔ وہ یہ حقیقت بھی اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ قومی سلامتی کا دار و مدار پڑوسیوں سے اچھے روابط پر منحصر ہے نہ کے کسی میمو یا پھڑکتی ہوئی خبر میں۔
♦