سید انور محمود
ایران ہمارا پڑوسی ملک ہے، پاکستان کا وجود عمل میں آیا تو سب سے پہلے ایران نے ہی پاکستان کوتسلیم کیا تھا۔شروع سے ہی پاکستان اور ایران کے تعلقات بہت اچھے رہے ہیں، محمد رضا شاہ پہلوی شاہ ایران وہ پہلے غیر ملکی سربراہ تھے جنہوں نے 1950 میں پاکستان کا دورہ کیا۔ شاہ ایران کے دورے کے دو ماہ بعد دونوں ممالک نے تہران میں دوستی کے معاہدے پر دستخط کئے، یہ پاک ایران دوستی کےسفر کا آغاز تھا جس نے بعد میں دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے بہت نزدیک کردیا تھا۔
حتی کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب پاکستانی پارلیمنٹ نے تہران کو ایک درخواست بھیجی کہ وہ ایران کے آئین کی کتاب بھیجے جس کی روشنی میں پاکستانی آئین ترتیب دیا جاسکے۔ شاہ ایران کے زمانے میں ہی آر سی ڈی شاہراہ کی تعمیر ہوئی جو پاکستان ، ایران اور ترکی کی دوستی کا ایک ثبوت ہے، شاہ ایران کے زمانے تک پاک ایران دوستی میں مذہب کا کوئی دخل نہیں تھا۔
سنہ1979 کےانقلاب خمینی کے بعد پاکستان اور ایران کے تعلقات وہ نہ رہے جو کبھی ہوا کرتے تھے، انقلاب نے حالات کو بدل دیا۔ جنرل ضیاء الحق نےایران کے اسلامی انقلاب کے بعد دو طرفہ تعلقات بڑھانے کےلیے موقع کو غنیمت جانا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ وہ خمینی اور اس کے لوگوں کی نظر میں اپنے مذہبی خیالات کی وجہ پسندیدہ ہوگا مگر وہ اسے مذہبی نہیں بلکہ امریکیوں کا ایجنٹ سمجھتے تھے۔ اس سلسلے میں جنرل ضیاء نے پاکستان میں شیعہ رہنماؤں سے بھی مدد چاہی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا البتہ نقصان یہ ہوا کہ اس وقت سےفرقہ واریت کا آغاز ہوا اور یہ بڑھتے بڑھتے دونوں ممالک کے تعلقات میں بنیادی وجہ بن گیا ۔
پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے کچھ عرصے پہلے تک سعودی عرب سے پاکستان کے تعلقات مثالی رہے ہیں ۔ آج بھی دس لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں کام کررہے ہیں ۔ سعودی حکومت اور سعودی عوام نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے تو دوسری طرف پاکستان کی حکومت اور عوام نے بھی سعودی عرب کا ہمیشہ خاص خیال رکھا ہے۔افغان روس جنگ اور پھر نائن الیون کے بعد پاکستان تو ایک عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہے لیکن اب دنیا بھر میں دہشت گردی بہت بڑھ چکی ہے، آج دہشت گردی کا شکار ہونے والےملکوں میں ایک کثیر تعداد مسلم ممالک کی ہے۔
دسمبر 2015 میں سعودی عرب نے اپنی ہی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف ایک تنظیم ’’اسلامی فوجی اتحاد‘‘ کے نام سے بنانے کا اعلان کیا ،کہا جارہا تھا کہ یہ تنظیم دہشت گرد تنظیموں کے خلاف بنائی گئی ہے، لیکن اس اتحاد میں ایران، عراق، شام اور دوسرئے شیعہ ممالک شامل نہیں ہیں۔ مارچ 2016 میں جب سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے یمن پر حملہ کیا تو پاکستان پر اس جنگ میں شمولیت کےلیے براہِ راست دباؤ ڈالا گیا، لیکن پاکستان کی پارلیمنٹ کا جواب نفی میں تھا۔
نومبر2016 میں ایک مرتبہ پھر جب سعودی عرب نے اچانک’’اسلامی فوجی اتحاد‘‘ میں پاکستان کا نام اپنی طرف سے شامل کردیا تو پاکستانی دفترِ خارجہ نے پہلے تو حیرت ظاہر کی لیکن پھر اس اتحاد میں شامل ہونے کی حامی بھرلی۔ پاکستانی عوام اس بات پر پھر بھی راضی نہ تھے۔ اپریل 2017 میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے صد سالہ یوم تاسیس پر’’تین روزہ عالمی اجتماع’’ میں امام خانہ کعبہ الشیخ صالح بن محمد ابراہیم آل طالب اورسعودی وزیرمذہبی امورشیخ صالح بن عبدالعزیز نے بھی شرکت کی ہے۔ اس تین روزہ عالمی اجتماع میں امام کعبہ اور سعودی وزیر پاکستانی عوام کو’’اسلامی فوجی اتحاد‘‘ کے حق میں کرنے کوشش کرتے رہے۔
ایران اور سعودی عرب سے پاکستان کا تعلق مذہبی بھی ہے، سیاسی بھی اور دوستانہ بھی ، لیکن ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں سخت کشیدگی ہے۔ جتنے حقوق ایران میں سنی اقلیت کو حاصل ہیں اتنے ہی سعودی عرب میں شیعہ اقلیت کو حاصل ہیں۔ سعودی عرب اور ایران دونوں میں مذہبی آمریت ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں سرد مہری اور کشیدگی آج کی بات نہیں بلکہ دونوں ممالک کے درمیان مخاصمانہ تعلقات کی تاریخ بڑی پرانی ہے۔
بد قسمتی سے یہ تعلقات صرف حکومت کی سطح پر ہی خراب نہیں بلکہ دونوں ممالک کے عوام کی اکثریت بھی ایک دوسرے کو پسندنہیں کرتی اور انکے رویے بھی برادرانہ جذبات سے خاصی حد تک عاری ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات 85 سال سے زیادہ پرانے ہیں لیکن ان تعلقات کو کبھی بھی خوشگوار نہیں کہا گیا۔ اس وقت بھی ایران اور سعودی عرب کے درمیان بہت سےمختلف معاملات پر شدید اختلافات ہیں۔
سعودی عرب “وہابی سنی” نظریات کا حامل ہے تو ایران “اہل تشیع” نظریات کا امین۔ سعودی عرب کو خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ کا نمائندہ تصور کیا جاتا ہے جبکہ ایران کو امریکہ کا مخالف مانا جاتا ہے۔2 جنوری 2016کو معروف شیعہ عالم شیخ نمر النمر اور دوسرے 46افراد کے سر قلم کرنے کی وجہ سے سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات مزید خراب ہو گئے۔
ایران سمجھتا ہے کہ پاکستان کا جھکاؤ سعودی عرب کی جانب ہے جس کی وجہ پاکستان کی اسلامی فوجی اتحاد میں شرکت ہے، اس لیے اب ایران پاکستان کےلیے مختلف مسائل کھڑئے کررہا ہے۔ ایرانی فوج کے سربراہ جنرل محمد حسین باقری نے دھمکی دی ہے کہ پاکستان نے اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی نہ کی تو ایران خود انہیں نشانہ بنائے گا اور تباہ کردے گا۔
تاہم پاکستان اور ایران کی سرحد مشترک ہے جہاں اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے ہونے والی کارروائیوں کے علاوہ ایرانی سیکورٹی فورسز کی حکومت مخالف باغیوں کے درمیان اکثر جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ ایران کو شک ہے کہ باغیوں کی تنظیم جنداللہ کے دہشت گردوں نے پاکستانی علاقے میں اپنے ٹھکانے بنا رکھے ہیں جہاں سے وہ ایرانی علاقے میں گھس کر حملے کرتے ہیں۔ چند روز قبل ایسے ہی ایک حملے میں کچھ ایرانی سیکورٹی گارڈز جاں بحق ہوگئے تھے۔
ادھر ایرانی وزیر دفاع جنرل حسین دیگہان نے سعودی ولی عہد کے ایک ایران مخالف بیان پرسعودی عرب کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کوئی حماقت نہ کرے ورنہ اسلام کےمقدس مقامات مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے سوا پورے سعودی عرب کو تباہ کردیا جائےگا۔
پاکستان کے حکمرانوں کو سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں بڑھتی کشیدگی پرشدید تشویش ہونی چاہیے، مشرق وسطیٰ کی پیچیدہ صورتحال سے دہشت گرد اور انتہا پسند مسلم امہ میں اختلافات کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ایک طرف ایران ہے جو ہمارا پڑوسی ہے اور جس کے ساتھ صوبہ بلوچستان میں ہزاروں میل کی مشترک سرحد ہے، جبکہ دوسری طرف سعودی عرب ہے جس سے ہمارے بہت زیادہ معاشی مفادات وابستہ ہیں۔
اس صورتحال میں پاکستان مسلسل دونوں ممالک سے درخواست کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے اختلافات پرامن طریقے سےحل کریں جبکہ دونوں ممالک کی ایٹمی قوت کے حامل ملک پاکستان سے یہ امید ہے کہ وہ ان کا ساتھ دے۔ یہ صورتحال نواز شریف حکومت کے لیےمشکل ہے اور ان کے لیے ایک امتحان سے کم نہیں۔اس صورتحال میں نواز شریف اور ہماری وزارت خارجہ کے ذمہ داروں کو انتہائی دانشمندی سے پاکستان کا کردار متعین کرنا ہوگا۔
♣