بھارت کی جانب سے مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کی سزائے موت کو عالمی عدالت میں چیلنج کرنے سے پاکستان ایک بار پھر سفارتی محاذ پر مشکل میں گھر گیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق کارگل کے بعد پاکستان آرمی کی غلط پالیسیوں کا دفاع ایک بار پھر سویلین حکومت کے کندھوں پر آن پڑا ہے۔
پاکستان آرمی کی عدالت کی طرف سے کلبھوشن کو سزائے موت دینے کو بھارت نے مسترد کرتے ہوئے یادو تک سفارتی رسائی کا مطالبہ کیا تھا جسے پاکستانی حکومت نے مسترد کر دیا تھا۔ بھارت نے اس سزا پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ مقدمہ کب اور کونسی عدالت میں چلا؟ کیا کلبھوشن کو صفائی کا موقعہ دیا گیا ؟ تجزیہ نگاروں نے بھی اس سزائے موت کے اعلان پر حیرانگی کا اظہا رکرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی حکومت کو یہ مقدمہ کھلی عدالت میں چلانا چاہیے تھا۔
پاکستان آرمی کی جانب سے 10 اپریل کو کلبھوشن کی سزا کا فیصلہ سنانے کے بعد پاکستانی حکام نے بھارت حکام کے خدشات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے بھارت کو یادو تک سفارتی رسائی دینے سے نہ صرف انکار کیا گیا بلکہ کوئی وکیل بھی اس کی سزائے موت کے خلاف اپیل کرنے کے لیے تیار نہ ہوا۔
پاکستان کے فوجی حکام کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ بھارت یہ معاملہ عالمی عدالت میں لے جاسکتا ہے۔وہ اس خوش فہمی میں مبتلاہوگئے کہ یادو کا کیس اب تقریباً ختم ہو گیا ہے لیکن بھارت کی طرف سے عالمی عدالت میں جانے سے اس کی امیدوں پر پانی پھر چکا ہے۔
پاکستان کے روزنامہ انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبیون نے اپنی تیرہ مئی کی اشاعت میں لکھا ہے کہ اٹارنی جنرل کے دفتر میں ماہرین قانون کی ہنگامی میٹنگز جاری ہیں ۔ جن میں لا سیکرٹری، خارجہ سیکرٹری اور آرمی کی لیگل برانچ کے نمائندے سر جوڑ کر بیٹھے ہیں۔ اخبار کے مطابق اس میٹنگ میں شرکا نے کلبھوشن کو سزائے موت کا فیصلہ سنانے پر برہمی کا اظہار بھی کیا اور کہا کہ پاکستان کو ا س فیصلے کا دفاع کرنے کے لیے بہت کم وقت ملا ہے۔
ایک سینئر پاکستانی افسر کے مطابق وقت کی کمی کے باعث پاکستان شاید بہتر طور پر اس کیس کا دفاع نہ کر سکے۔پاکستانی افسر کے مطابق قانونی ماہر عالمی عدالت میں یہ نقطہ اٹھا سکتے ہیں کہ فوجی عدالت کی جانب سے سزائے موت کا فیصلہ کوئی حتمی نہیں ہے اس فیصلے کے بعد کم ازکم تین فورم ہیں جہاں اس سزا کے خلاف اپیل کی جا سکتی ہے، پہلا فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی عدالت، دوسرا سپریم کورٹ اور تیسرا صد ر کے پاس رحم کی اپیل۔لہذا عالمی عدالت ابھی یہ کیس نہیں سن سکتی۔
علی نواز چوہان جو کہ عالمی عدالت میں 2006-09 تک جج رہ چکے ہیں نے کہا کہ ان کا موقف بھی یہی ہے ۔’’ پاکستان کا بہترین دفاع یہی ہے کہ وہ عالمی عدالت میں کہے کہ ابھی یادو کے پاس اپیل کے کئی مواقع ہیں‘‘۔
لیکن انہوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ عالمی عدالت انسانی حقوق کے معاملے میں زیادہ حساس ہے وہ اس کیس پر 1969 کے ویانا کنونشن کا اطلاق کر سکتی ہے جس پر پاکستان نے بھی دستخط کر رکھے ہیں جس کے مطابق انسانی حقوق کی کسی بھی جگہ خلاف ورزی کو عالمی عدالت سن سکتی ہے۔
Hindustan Times/Epress Tribune/News Desk
Pingback: پاکستان کو سفارتی محاذ پر ایک بار پھر شکست – Niazamana