اگراس تنازعہ کے بارے میں سادہ الفاظ میں اور مختصراً اپنا مدعا بیان کرنے کی کوشش کروں تومعاملے کو کچھ اس طرح سے بیان کیا جاسکتا ہے کہ خواہ انسان کچھ بھی بن جائے استاد کا احترام واجب ہے۔ استاد کا احترام ہونا چاہئے۔ استاد کو عزت ملنی چاہے۔ اس کے برعکس کسی بھی ریاستی افسر کوتفویض کردہ امور کی انجام دہی میں اپنے قانونی اختیارات کے اندر رہ کرکام کرکے اپنا وقار اور عزت و احترام کو بحال رکھنا اور اس عزت و احترام کو بڑھانا اُس افسر کا بھی اختیار ہے۔ لیکن یہ تنازعہ ہمارے مجموعی قومی مزاج کی عکاسی کررہا ہے۔
اگر غور سے دیکھا جائے تو” امتحانات میں نقل روکنے” جیسے بنیادی مسئلہ کے لئے کئے جانے والے اقدامات پر فریقین کا جھگڑا نہیں ہے بلکہ جھگڑا دونوں کے درمیان “گریڈوں” کا ہے۔ دونوں اپنے اپنے اختیارات میں بے جا مداخلت پر الجھ رہے ہیں۔ میں نے دونوں فریقین کے موقف کواپنے تئیں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ جن جن ذرائع سےاس کے بارے میں خبر مل سکتی تھی، حاصل کی ہے اور اس کے بعد اپنی رائے کا اظہار کررہا ہوں۔
اس سلسلے میں میں جو بات سمجھ پایا ہوں وہ یہ ہے کہ ہماری مجموعی نفسیات یہ ہے کہ ہم نے یہ مان لیا ہے کہ شعور، علم و آگہی انسان کی عزت و تکریم کا سبب نہیں ہیں بلکہ دولت (خواہ وہ کسی طرح سے ہی کیوں نہ حاصل کی گئی ہو) یا پھر مرتبہ اور رتبہ ہی عزت کا سبب ہیں۔ ایسے لوگوں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ مرتبہ اور رتبہ گریڈوں اور اختیارات ہی میں پوشیدہ ہوتا ہے۔
دونوں فریقین کے ہاں اس احساس کہ عزت رعب ودبدبا اور گریڈوں سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ لوگوں کے دل جیت کر حاصل کی جاتی ہے، کا فقدان ہے۔ جب تک لوگوں کے دلوں میں آپ کے لئے احترام پیدا نہیں ہوتا، اُس وقت تک تمام عزت و احترام جھوٹا ہوتا ہے، اس احساس کا فقدان بھی ان کے ہاں دیکھا جاسکتا ہے۔ دونوں اپنے گریڈوں کی آڑ میں عزت و احترام حاصل کرنے کے چکر میں ہیں اور اپنی اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ دونوں ہی ایک دوسرے پر برتری و فوقیت قائم کرنے کے چکر میں ہیں۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج ہمارے اساتذہ خود ہی نصابِ تعلیم میں شعور و تربیت کو ثانوی حیثیت دیئے ہوئے ہیں۔ آج انہیں یہ فکر ہی نہیں ہے کہ وہ خود ہی اس ریاست میں انسان نہیں بلکہ جبر پر قائم ایک ریاسست کے لئے ریاستی پرزے پیدا کررہے ہیں۔ ایسے ریاستی پرزے جو ریاست کو اسی قسم کے روایتی رعب داب اورجبر سے چلانے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ یہی نصاب اس طرح کے کمشنر اور ڈی سی اور اسسٹنٹ کمشنر پیدا کررہا ہے۔ آخر یہ فریضہ کس کا ہے کہ وہ نصابِ تعلیم اور معاشرے کی کردار سازی میں مطابقت پیدا کرے۔
جدید دور کے تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے سماج کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا منصب اورفریضہ کس کا ہے؟ کیا یہ ہمارے محترم اساتذہ کا فریضہ نہیں ہے؟ کیا ہمارے طلبا کو علم اور تحقیق کی منطقی ضرورت سے اس طرح سے روشناس کرانا کہ وہ نقل کی طرف راغب ہی نہ ہوں ہمارے اساتذہ کا فریضہ نہیں ہے؟ میری نظر میں کسی بھی استاد کے یہی وہ حقیقی امورِ منصبی ہیں جو اُسے استاد کے مرتبے پرفائز بھی کرتے ہیں اور اُس کے لئے حقیقی عزت و احترام کا سبب بھی بنتے ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ معمول کے دنوں میں اساتذہ کمیونٹی میں اس احساس کا فقدان دیکھا جاتا ہے۔ پھر جب کوئی واقعہ پیش آتا ہے، اُس وقت بہت زیادہ شور شرابہ کیا جاتا ہے۔ گزشتہ دو عشروں میں ہمارے گرلز کالجز میں خواتین پرنسپلز بہت سی نصابی، ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے لئے ڈی سی ز کو مہمانِ خصوصی بنانے کے بجائے اُن کی بیگمات کومہمان خصوصی کے طورپر بلاتی رہتی تھیں۔ اس حرکت کے پسِ منظر میں کچھ انتظامی وجوہات پوشیدہ تھیں اور کچھ نفسیاتی۔ انتظامی وجوہات تو یہ ہوتی تھیں کہ ان دنوں کمشنرصاحباں پورے ڈویژن کے بلاشرکتِ غیر مالک ہوا کرتے تھے اور پورے ڈویژن کے فنڈز کے بھی بلا شرکتِ غیر مالک ہوا کرتے تھے۔
لہٰذا فنڈز وغیرہ حاصل کرنے کے لئے ڈی سی صاحب کی نمائندگی بیگم ڈی سی صاحب سے کروائی جاتی تھی۔ اس کی نفسیاتی وجہ یہ تھی کہ جو سی ایس ایس کرلیتا ہے وہ بہت ہی ذہین و فطین ہوتا ہے، اس لئے یہ بھی فرض کرلیا جاتا تھا کہ ڈی سی کے پاس انتظامی امور پر مہارت کے علاوہ دیگر شعبہ ہائے زندگی اورشعبہِ تعلیم کی مہارت بھی موجود ہے۔ اس سے ہماری بچیوں میں پروفیسراور استاد بننے سے زیادہ سی ایس ایس افسران بننے کی خواہش نے جنم لیا۔
یہ ایک روایت بن چکی تھی جو ڈی سی کلچر میں قانونی ترامیم کے بعد کچھ حد تک کم ہوئی ہے۔ اگرچہ میں تدریسی اداروں میں ڈی سی شی سی کو بھی مہمان ِ خصوصی بنائے جانے کا قطعاً مخالف ہوں چہ جائیکہ بیگم ڈی سی کوبلایا جائے۔ لیکن یہ کام بھی ہماری محترم لیڈیز پروفیسرز ہی کرتی رہی ہیں۔ اُنہیں اُس بات کا احساس کیوں نہیں ہوا کہ اس سے ہمارے بچوں کی نفسیات پر بڑے منفی اثرات مرتب ہونگے۔ آج جب یہ واقعہ ہوا ہے سب کو یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ یہ تو بڑی زیادتی ہوگئی ہے۔
ایسے واقعات کے تدارک کے لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسٹنٹ کمشنر صاحبہ کو اپنی تعلیم اور تعلیمی امور کے بارے میں اپنی قابلیت اور اہلیت پرخود ہی سوال کرنا چاہئے اور تفویض کئے گئےاس انتظامی فریضے پرجواز کے بارے میں غور کرلینا چاہئے۔ آخر ان کمشنر/ڈی سی/ بیوروکریٹس کا نفسیاتی مسئلہ کیا ہے کہ وہ ہر وقت ہر شعبہ میں اپنی انتظامی بالادستی قائم رکھنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ کیا یہ اُن کا نفسیاتی مسئلہ نہیں ہے کہ وہ اس طرح سے معاشرے میں عزت و احترام خریدنے کےچکررہتے ہیں اور اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کرکے ریاستی جبر کے حامی اور ساتھی بن جاتے ہیں۔ اگر وہ اس طرح کے ہر انتظامی امور میں ٹانگ اڑانے کی کوشش کریں گے اورحکومت کو اس طرح سے خود کو بے جا طور پر زیرِ بار کرنے کے خلاف بات نہیں کریں گے تو کیاعوام کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ان کے اختیارات کو اپنی ذات تک مرکوزرکھنے کے اس فلسفہ کو ان کا نفسیاتی مرض نہ گردانیں۔
حقیقتِ حال تو یہ ہے کہ یہ اپنے متعلقہ شعبوں میں انتظام و انصرام کو بہتر طورپر چلانے کے اہل بھی نہیں ہیں۔ بزعمِ خود اگر کوئی قابل سے قابل افسر بھی یہ دلیل دے کہ وہ اتنظامی امور کی بھر پور اہلیت رکھتے ہیں تو پھرعوام کو بھی یہ پوچھنے کا حق حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ ان کے حقیقی انتظامی امورمیں ان کی کارکردگی پر سوال کریں۔ وہ یہ پوچھیں کہ محکمہ مال کو کیسے چلایا جارہا ہے۔ اس میں کرپشن کیوں نہیں ختم ہورہی۔ کیسے کسی شہر میں غیر قانونی اور بغیر منظوری کے پٹرول پمپ کھل جاتے ہیں، کیسے کسی شہر میں لینڈ مافیا راج کرتا ہے۔ کیسے گلی محلوں میں کھلے عام پٹرول فروخت ہوتا ہے، کیسے ملاوٹ والی خوراک اور ادویات فروخت ہوتی ہیں۔ اس وقت ان کی انتظامی صلاحیتں کہاں سو جاتی ہیں۔ اگر کوئی ازعام گزیدی کوئی افسر پھر بھی اس کا جواب “ہاں” میں دیتا ہے توپھراس قوم کا خدا ہی حافظ ہو۔
قانونی پہلوؤں سے بھی اگر اس جھگڑے پر غور کیا جائے تو یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اسٹنٹ کمشنر صاحبہ کو فوری طورپر اپنے عہدے سے معطل کرکے اس واقعہ کی آزادانہ تحقیق کرائی جائے کیونکہ ڈی سی وغیرہ کو اُن کی ارسال کردہ رپورٹ میں اُن کا یک طرفہ موقف سامنے آ رہا ہے۔ پروفیسر صاحب کا یہ موقف کہ انہیں کمرہِ امتحان میں مجسٹریسی اختیارات حاصل ہوتے ہیں درست ہے کیونکہ الیکشن اور امتحان کے ہنگامی دنوں میں سویلین افسران کے قانوناً یہ اختیارات تفویض ہوجاتے ہیں اور وہ اپنے انہیں اختیارات کا بھر پور استعمال کرسکتے ہیں لیکن اگر ان پر کوئی چیک اینڈ بیلنس درکار ہو تو پھر متعلقہ افسر کو اپنے اور دوسرے کے اختیارات میں توازن کرنا ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ موصوفہ اسٹنٹ کمشنر صاحبہ کا یہ موقف کہ وہ پرنسپل آفس میں گئیں تو پرنسپل غیر حاضر تھیں، گزٹڈ افسرز کا حاضر رجسڑ میں حاضری لگانا ضروری نہیں ہوتا، تو پرنسپل کے سیٹ پر موجود نہ ہونے کے بعد یہ فرض کرلینا کہ وہ غیر حاضر تھیں، قابلِ تحقیق بات ہے۔ بہرحال وجوہات خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہوں اقتدار کی اس رسہ کشی کی آزادانہ تحقیق کے لئے ضروری ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ کو فوراً اپنے عہدے سے معطل کرکے معاملات کی آزادانہ تحقیقات کرائی جائیں۔ ایسے ان انتظامی افسران کو سر پر چڑھانے سے محکمہ تعلیم اور اتنظامیہ کے درمیان تضادات بڑھیں گے اور صورتحال مزید خراب ہوگی۔
میری محترم اساتذہ/پروفیسرصاحباں سے بھی گزارش ہے کہ پرائیویٹ اکیڈمیوں/ٹیوشن سینٹرز اور درسی کتب کی اشاعت سے تھوڑی سی توجہ ہٹا کر تعلیمی اداروں میں طلبہ کے حقیقی مسائل، ان کے ہاں پائے جانے والے بلکہ خود اساتذہ کے ہاں پائے جانے والے شدت پسندی کے رحجانات پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ جدید تعلیم اور جدید معاشروں پرغور کرکے کوئی قابلِ عمل نظامِ تعلیم مرتب کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ یہ وہ امور ہیں جن سے حقیقی عزت و احترام حاصل کیا جاسکتا ہے۔ گریڈز اور عہدے کبھی بھی حقیقی عزت و احترام کا باعث نہیں ہوتے۔ یہ گریڈز اور عہدے ہمیشہ بھی نہیں رہتے۔
♦