آصف جیلانی
اس سال 17اپریل سے ،اسرائیل کی جیلوں اور نظر بندی کیمپوں میں قید پندرہ سو فلسطینیوں نے غیر معینہ مدت کے لئے بھوک ہڑتال شروع کی ہے۔ یہ بھوک ہڑتال ، فلسطینی رہنما مروان برغوثی اور انکے ساتھیوں نے ’’ آزادی اور عزت نفس‘‘کے نعرہ کے تحت شروع کی ہے ۔ فلسطینی سیاسی قیدیوں کا مطالبہ ہے کہ ان پر کوئی الزام لگائے اور مقدمہ چلائے بغیر قید یا تو ختم کی جائے یا ان پر مقدمہ چلایا جائے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ جیل میں قید فلسطینیوں کے خاندان کے افراد کو ان سے ملنے کی اجازت دی جائے، انہیں مناسب طبی سہولت فراہم کی جائے اور ان پر ایذا رسانی اور قید تنہائی کی اذیت دینے کا سلسلہ بند کیا جائے۔
اس وقت اسرائیل میں 6500فلسطینی قید ہیں جن میں سے 500قیدی مقدمہ چلائے بغیر پابند سلاسل ہیں۔ ان کے علاوہ 13فلسطینی اراکین پارلیمنٹ قید ہیں اور 300 بچے جیلوں میں سسک رہے ہیں ، بہت سے ان میں 13سال کی عمر کے ہیں۔ گذشتہ سال کے دوران اسرائیلی حکام نے 400 فلسطینیوں کو سوشل میڈیا پر تحریروں کے الزام میں قید کیا ہے۔ گذشتہ پچاس سال کے دوران جب سے اسرائیل نے ارض فلسطین پر قبضہ کیا ہے ، 8لاکھ فلسطینی قید اور نظر بندی کا عذاب بھگت چکے ہیں ۔
ستاون57سالہ مروان برغوثی جو فلسطینیوں کے پہلے اور دوسرے انتفاضہ میں قائد تھے ، پچھلے پانچ سال سے اسرائیلی جیل میں قید ہیں۔ انہیں 2002میں اسرائیلی فوج نے رحم اللہ سے گرفتار کیا تھا اور ان پر انتفاضہ کے دوران دھشت گردی اور قتل کے مقدمات چلائے گئے تھے ، جن میں عدالت نے انہیں پانچ عمر قید کی سزائیں دی تھیں۔ جب سے وہ پابند سلاسل ہیں۔
مروان برغوثی نے فلسطینی قیدیوں کی بھوک ہڑتال کی وضاحت کرتے ہوئے نیویارک ٹایمز میں لکھا ہے کہ جب میں پہلی بار قید کیا گیا تھا تو میری عمر پندرہ برس تھی۔ انہوں نے لکھا ہے کہ جب میں اٹھارہ سال کا تھا تو پوچھ گچھ کرنے والے اسرائیلی افسر نے مجھے ننگا کر کے ٹانگیں کھولنے کا حکم دیا۔ اور اس کے بعد اس نے میرے اعضائے رئیسہ پر بری طرح سے ڈنڈے برسائے جس کی وجہ سے میں بے ہوش ہو کر گر پڑا ۔ میری پیشانی پر ایسا زخم آیا کہ اب تک اس کا نشانہ برقرار ہے۔ برغوثی نے لکھا ہے کہ اس اسرائیلی افسر نے میرا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ اب تم بچہ پیدا کرنے کے قابل نہیں رہے ۔ تمہیں یہ سزا اس لئے دی گئی ہے کیونکہ تم جیسے لوگ ، صرف دھشت گرد اور قاتل پید ا کرتے ہو۔
مروان برغوثی نے نیویارک ٹا ئمزمیں لکھا ہے کہ میرے چار بچے ہیں جن میں سب سے بڑا 31سال کا ہے ۔ میں اب بھی میدان میں ڈٹا ہوا ہوں اور ہزاروں فلسطینی قیدیوں کی آزادی کے لئے جدوجہد کر رہا ہوں اور لاکھوں فلسطینی اور دنیا بھر میں آزادی پسند افراد میری حمایت کرتے ہیں۔ برغوثی کا کہنا ہے کہ یہ ارض فلسطین پر قابضوں ، ظالموں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کا غرور ہے جس نے ان کو اس حقیقت سے بہرہ کردیا ہے کہ ھماری زنجیریں ایک دن ٹوٹیں گی کیونکہ یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ آزادی کی پکار پر لبیک کہتا ہے چاہے اس کے لئے کتنے ہی مصائب اٹھانے پڑیں اور قربانیاں دینی پڑیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم امہ نے ان فلسطینی قیدیوں کو یکسر بھلا دیا ہے ۔دنیا میں پچاس سے زیادہ مسلم ممالک میں سے کسی بھی ملک میں ان بھوک ہڑتالی فلسطینی قیدیوں کی حمایت اور ان سے یک جہتی کا اظہار نہیں کیا گیا۔ ۔ اگر ان فلسطینی بھوک ہڑتالی قیدیوں سے کسی نے یک جہتی کا اظہار کیا ہے تو وہ جنوبی افریقہ کی قیادت اور عوام ہیں۔ جنہوں نے 14مئی کی شام سے 15مئی تک 24گھنٹے کی بھوک ہڑتال کی ہے۔ اس بھوک ہڑتال میں جنوبی افریقہ کے نایب صدر سرل رامافوسا کے ساتھ کابینہ کے بیشتر وزیروں نے حصہ لیا۔ ان رہنماؤں نے نسلی تفریق کی حکومت کے دور میں قید و بند کے جو مصائب اٹھائے ہیں انہیں قیدیوں پر ٹوٹے جانے والے مظالم کا بخوبی احساس ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے فلسطینی قیدیوں کے ساتھ یک جہتی کے اظہار کے لئے چوبیس گھنٹے کی بھوک ہڑتال کی۔
اس دوران کسی مسلم ملک سے یہ خبر نہیں آئی کہ وہاں بھوک ہڑتالی فلسطینی قیدیوں کی حمایت میں کسی نے آواز اٹھائی یا یک جہتی کا اظہار کیا۔
یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ہمارے وزیر اعظم سعودی عرب کے فرماں روا کی دعوت پر بلا کسی تردد کے اسلامی ممالک کے سربراہوں کے اس اجتماع میں شرکت کے لئے بھاگے بھاگے جا رہے ہیں جس سے امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ خطاب کریں گے ، اس امریکا کے صدر جس کے ہاتھ افغانستان، عراق ، لیبیا ، یمن اور شام میں مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ یہ اہم بات ہے کہ مسلم ممالک کے سربراہوں کے اس اجتماع میں ایران کو دعوت نہیں دی گئی ۔
وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع ہیں پھر اس سربراہی اجتماع میں سعودی عرب کے قائم کردہ اسلامی فوجی اتحاد کے ممبر ممالک کو دعوت دی گئی ہے اور چونکہ ایران اس اتحاد میں شامل نہیں ہے لہذا اسے ریاض کے اجتماع میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی اور پھر چونکہ اس اجتماع میں شام اور یمن کی صورت حال اور اس کے بارے میں آیندہ حکمت عملی طے کی جائے گی ، اس لئے اس میں ایران کی شمولیت کا قطعی کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
اس دوران یہ خبریں ہیں کہ امریکا نے شام میں روس کا سیاسی اور فوجی اثر توڑنے اور بشار الاسد کا تختہ الٹ کر پچھلے چھ سال سے جاری خانہ جنگی کے فوری خاتمہ کے لئے نیا منصوبہ تیار کیا ہے جس کے تحت اردن کی سمت سے مشرقی شام پر فوج کشی کی جائے گی ۔ اس مقصد کے لئے اردن میں ایک عرصہ سے امریکی فوج ، عرب اتحاد کی افواج کو تربیت دے رہی ہے۔ بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان ، کھلم کھلا اپنے قریب ترین پڑوسی ایران کے خلاف حکمت عملی میں شامل ہو کر خطرات میں گرفتار نہیں ہورہا ہے۔
اس وقت جب کہ ارض فلسطین پر اسرائیل کے تسلط کو پچاس برس ہوں گے ، اصل مسئلہ جس پر اسلامی ممالک کے سربراہوں کو غور کر نا چاہئے وہ ہے کہ کس طرح ارض فلسطین کو اسرائیل کے قبضہ سے آزاد کرایا جائے اور فلسطین کی مضبوط اور مستحکم ریاست قائم کی جائے اور ان فلسطینیوں کو کس طرح ان کے وطن میں دوبارہ آباد کیا جائے جو ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ سے مختلف عرب ممالک میں پناہ گزینوں کی حیثیت سے کس مپرسی کے عالم میں زندگی گذار رہے ہیں۔
جہاں تک دہشت گردی کا مسئلہ ہے ہر مسلم ملک اپنے طور پر اس کا دلیری سے مقابلہ کر رہا ہے ، اس مقصد کے لئے اسلامی فوجی اتحاد قائم کرنے کے بجائے ضرورت تھی کہ ارض فلسطین اور مسجد اقصی کی آزادی کے لئے کوئی ٹھوس منصوبہ تیار کیا جاتا۔ اس صورت حال میں اس کے علاوہ او رکچھ نہیں کہا جا سکتا۔
ہم پہ لازم ہے مہرو وفا کا ماتم۔