ڈی اصغر
کاش کہ میری آواز میں بھی، علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری والا، جاہ و جلال ہوتا تو میں بھی ان کی طرح چلّا چلّا کے کہتا، “مبارک ہو مبارک ہو۔” آپ غالباً یه جاننا چاہیں گے، کہ کس بات کی مبارک تو میں انتہائی ادب سے گوش گزار کرنے کا خواہش مند ہوں کہ، ٢٠ کروڑ عوام کی سلامتی کا معاملہ، بلآخرطے پا ہی گیا۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ صرف ٧ ہی ماہ لگے، ورنہ تویہ حکومت تمام معاملات کو طول دینےکی چیمپئن ہے۔ پانی جب سر سے گزرتا ہے، تو ان کے کانوں پر بیہوش جوں کو رینگنے کا “خیال آنے کا خیال” بقدر مشکل آتا ہے۔
اب تک تو سنتے آئے تھے، ممالک کے درمیان رابطوں میں وقت صرف ہو ہی جاتا ہے۔ پر یہ تو ایک ہی ملک کے دو ادارے ہیں جو ایک دوسرے سے شاید چند کلومیٹرز کے فاصلے پر واقع ہیں۔ مگر ان ظالم دشمنوں نے غالباً کوئی جادو ٹونا وغیرہ کر دیا تھا، جو ہمیشہ ایک ھی پیج پر پائے جانے والے ادارے، اپنی شہرہ آفاق کتاب، کسی نکڑ کے پنواڑی کی دکان پر شاید بھول آئے تھے۔
جب “ستے خیراں” کی اطلاعات موصول ہوئیں، اس وقت تلک تین عدد بکرے قربان کیےجا چکے تھے، اور سب کو بتلا دیا گیا تھا کہ، سب کشل منگل ہے۔ اور وہ کیا کہتے ہیں، وہ ہماری پیاری سی پشتو زبان میں، “فکر مکا وا (کوئی فکر نہیں)۔” اب جو بیچارے جانے کون سے تعویذ اور چللے، اس امید پر باندھ اور کاٹ چکے تھے کہ ” اب کے شیر ڈھیرہو گا۔“، انھیں شدید مایوسی ہوئی۔ سچ پوچھیں تو بات بنتی بھی ہے، کب سےآس لگائےبیٹھے ہیں کہ امپائر اپنی انگلی دکھا ہی دے، پرلگتا ہے، کہ امپائر نے میچ کوہر حال میں جاری رکھنے کا سگنل ایک بار پھر دے دیا ہے۔
عزت مآب جناب وزیر داخلہ نے بھی فکرو استدلال کو جھنجھوڑنے کے لئے، حسب معمول اپنی پریس کانفرنس فرمائی۔ اس نشست میں انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں جوش اور جذبے کے ساتھ چٹکلوں کی بارش فرمائی۔ جو خوش نصیب اس محفل میں موجود تھے وہ اپنی بے ساختہ جمائیوں پر قابو نہ رکھتے ہوئے، خود کو جگائے رکھنے کے لئے چائے کا سہارا لیتے ہوے پائےگئے۔
اب ذرا تذکرہ ہو جائے کچھ ٹی وی کے اینکر خواتین و حضرات اور ان کے مہمانان گرامی کا۔ ان میں سے اکثر طوطا فالوں، زائچوں اور علم نجوم کی روشنی میں دختراول پر فرد جرم بھی عائد فرما چکے تھے۔ بس ہو نہ ہو یہ ان کی ہی شرارت تھی۔ پر جب عسکری ادارے کے ترجمان نے متعدد بار ان کو اپنے اعلامیے میں، اس قضیے سے غیر منسلک ہونے کا عندیہ فرمایا، تو جناب ان سب کی بولتی بند ہو گی۔ وہ جوش اور خروش جو سیمابی کیفیت اختیار کر چکا تھا، آناً فا ناً جم سا گیا۔
چلیے یہ سب تو ہو گیا، تھوڑا تفنن طبع کے لئے۔ اب تھوڑی سنجیدہ گفتگو بھی ہو جائے۔ جو صحافی حضرات ٹی وی کی اسکرینوں پر سکھ کا سانس لے رہے تھے، خوش اسلوبی سے یہ بحران حل، ہوا، در حقیقت وہ بھی دامن بچاتے ہوے آگے کو بڑھنے کے خواہشمند تھے۔ سب زور تصیفے پر تھا۔ بقول شاعر، “وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا ” کے مصداق انہوں نے اپنی تمام قیاس آرائیوں سے خلاف معمول گریز کیا۔ وہ بات کیا تھی ؟
اگر آپ نے پچھلے برس اکتوبر میں جب وہ خبر شائع ہوئی تھی، تو اس خبر میں دونوں اداروں کے مابین ایک گلہ ہوا تھا۔ خبر میں یہ بھی صاف اور عام فہم الفاظ میں درج تھا، کہ یہ گلہ، خوشگوار ماحول میں ہوا تھا۔
ہمارے حالات حاضرہ کے ماہرین نے جو یوں تو بال کی کھال اتارنے کے ماہر ہیں، اس کو گول ہی کر دیا۔ سب کا یہ اصرار تھا کہ جلد از جلد تحقیقاتی رپورٹ جو اس تنازعے کی شفاف تحقیق کے لئے تشکیل دی گی تھی، منظرعام پر آنی چاہیے۔ یہ کج فہم لکھاری، چند ایک “معصومانہ سوالوں” سے جو اس کے ناقص ذہن میں گردش کر رہے ہیں کچھ پریشان سا ہے۔
بظاھر خبر کے عین مطابق جب کوئی بحث مباحثہ یا جھگڑا نہ ہوا تو اتنی کشمکش کیوں؟ کیا جس بات پر گلہ ہوا تھا، وہ بات پوری ہوگئی؟ جن تین مشیران کی قربانی ہوئی، ان کا قصور کیا تھا۔؟ تینوں اپنے اپنے بیانات سے کسی بھی خطا کے انکاری ہیں۔ پھر اتنا ہیجان اور ہنگامہ کیوں؟ اگر یہ گتھی آپ کی سمجھ میں آ گئی ہو تو ازراہ کرم اس کم عقل کے لئے بھی سلجھا دیجئے۔
♥