علی احمد جان
پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی راہ داری کے منصوبے کو جب سے سی پیک کہا گیا ہے اس کے خلاف بات کرنے کو ہم قومی مفاد کے خلاف سمجھتے ہیں ۔ اس یکتائے روزگار منصوبے کے خلاف بکواس کرنے والوں کو سبق سیکھانے کے لئے کچھ تجربات گلگت بلتستان میں کئے گئے جو کارگر ثابت ہوئے ہیں ۔
ایک تجربے کے مطابق عاقبت نا اندیش ناقدین پر سیدھے سیدھے تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۱۲۴ (الف) کاا طلاق یا پھر انسداد دہشت گردی کے قانون کے شیڈول چار میں ڈال دیا جائے تو ایسے لوگ باقی ماندہ زندگی توبہ تائب کے ساتھ گزارتے ہیں۔ انسداد دہشت گردی کا شیڈول چار فساد پھیلانے والے ملاؤں اور ذاکرین کی نقل و حمل کو محدود کرنے میں تو موثر ثابت نہیں ہوسکا مگر اس کا استعمال سیاسی کارکنان ، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور قلمکاروں پر مجرب ثابت ہوا ہے۔ اگر عدلیہ مخل نہ ہو تو یہ نسخہ پاکستان بھر میں آزمایا جا سکتا ہے۔
کہا جاتا ہے اس منصوبے کی تکمیل کے بعد سات ہزار کنٹینر زاستایئس سو کلومیٹر لمبی سڑک سے روز گزرا کریں گے جس کے لئے سڑکوں کی کشادگی بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرضہ لے کر کی جائیگی جو بمع سودادا کی جائیگی۔ ہم تو ویسے قرضے لینے دینے میں اب کافی تجربہ کار ہوچکے ہیں جو ایک قرضہ اتارنے کے لئے دوسرا قرضہ لیتے ہیں اور پھر اس کو چکانے کےلئے تیسراقرضہ لیا جاتا ہے۔
ہر دور میں قرضے لینے کا الزام پچھلی حکومت کو الزام دینے سے عوام خوش ہو جاتی ہے اور ووٹ بھی دے دیتی ہے ۔ جب اس قرضے کا بھی واپس کرنے کا وقت آئیگا تو ٹیکس اور بجلی کے نرخ بڑھاتے ہوئے اس کی ساری ذمہ داری بھی پچھلی حکومت پر ڈال دی جائیگی ۔
چین اپنے مال کی ترسیل اور 26 پہیوں والے لمبے کنٹینر زکے گزارنے کی چونگی ادا کرے گا یا نہیں اس کا ذکر تاحال کسی دستاویز میں نہیں۔ سڑکوں کی کشادگی میں پچاس ہزار درختوں کے کٹنے کے جس خطرے کی نشاندہی کی گئی ہے اس کے ازالے کے لئے خیبر پختونخواہ میں ایک ارب نئے درخت لگائے جارہے ہیں جس سے یہ شکایت بھی ختم ہو جائیگی ۔
عوامی جمہوریہ چین اپنے کوئلے سے تونائی پیدا کرنے کے سارے کارخانے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو عنایت کرے گا کیونکہ چین کو اس کی معیشت کو دوام بخشنے والے ان کارخانوں سے اتنا پیار ہے کہ وہ ان کوعمر پوری ہونے پر ضائع کرنے کے بجائے شہد سے میٹھی ، ہمالیہ سے اونچی اور سمندر سے گہری دوستی والے ہمسائے کی ترقی کا ضامن بنانا چاہتا ہے ۔ پاکستان بھی چین سے وفا نبھائے گا اور اگلے تیس سالوں کے لئے ان کارخانوں سے ہی بجلی خریدےگا بھلا اس دوران اس کے دیگر منصوبو ں سے سستی پن بجلی پیدا ہوناشروع کیوں نہ ہوئی ہو ۔
یہ تو کبھی بھی پتہ چلے نہیں گا کہ تیس سال کے لئے کی جانے والی کوئلے کی اس پیمانے کی دلالی میں کس کا منہ کالا ہوا ہےمگر ہم اگلی کئی دہایوں تک اس ملک سے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے لئے کوئلے کا کاروبار کرنے والوں کا احسان مند ضرور رہیں گے۔
ویسے تو ہمیں بتایا گیا تھا کہ سی پیک ایک خالص تجارتی منصوبہ ہے جس میں چینی مال کی بحیرہ عرب تک ترسیل کے بعد یہاں دودھ اور شہد کی ندیاں خود بخود بہنے لگیں گی لیکن اب پتہ چلا ہے کہ چین والے یہاں کھیتی باڑی بھی کیا کریں گے جس کے لئے سرکار ان کو زمین بھی مہیا کرے گی۔ نہ صرف کھیتی باڑی بلکہ اپنی گیتی کے لئے وہ کھاد سے بیج تک ہر شے خود ہی پیدا کریں گے اور استعمال کریں گے۔ اگر ایسا ہوا تو ہمارے کاشتکار چینیوں کے لئے کتے پکڑنے اور گدھوں کی قصائی کا کام کریں گے بشرطیکہ چینیوں نے گدھے اور کتے بھی زرعی فارم میں پالناشروع نہ کیا ہوتو۔
بلوچستان سے گلگت بلتستان تک کے پہاڑوں کے اندر جو کچھ ہے اس کا ہمیں تو کچھ زیادہ معلوم نہیں لیکن یورپ کی جواہرات بنانے کی کمپنیاں اس خزانے سے بخوبی واقف ہیں اس لئے ان کے ایجنٹ یہاں نہایت مستعدی کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔ سنا ہے کہ اب ان پہاڑوں کو کھودنے کا کام بھی چینی کیا کریں گے۔
ایسا ہی ایک منصوبہ بلوچستان میں سیندک کا تھا جس کے بارے میں بتایا گیاتھا کہ وہاں سے منوں اور ٹنوں کے حساب سے سونا نکلنے کے بعد پاکستانیوں کو محنت مزدوری کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی لیکن گزشتہ پچیس سالوں سے سونے کی یہ کان بھی چینیوں کو دی گئی ہے جس سے سونا نکلنے کی خبر کم از کم مجھے نہیں۔ چینی اگر ان پہاڑوں سے پتھر وغیرہ نکالنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو ان کو دے دینا چاہیے کیونکہ ہم خود گزشتہ ستر سالوں میں ان پہاڑوں سے کچھ نہیں نکال سکے ہیں تو اگلے ستر سالوں میں کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
جو خبر سی پیک کے منصوبے کے حوالے سے انتہائی دلچسپی کی باعث ہے وہ سندھ اور بلوچستان کے سمندری ساحلوں پر سیاحت کے فروغ سے متعلق ہے۔ کہا گیا ہے کہ ان مقامات پر سیاحت کی جدید سہولیات مہیا کی جائینگی اور مقامی ثقافت ومذہبی عقائد کے تقدس کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کو روزگار کے مواقع دئے جائیں گے۔
سیاحت میں لوگوں کو روزگار کے مواقع دینا کونسا مشکل کام ہے مشکل تو باہر سے آنے والے سیاحوں کو ویزہ دینا ہے جو ہماری وزارت داخلہ کے لئے انتہائی جان جوکھوں کا کام ہے۔ ویسے بھی چینی ویزہ سے مستثنیٰ ہونگے ، عربی تو پہلے سے ہی ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدائی ماست کے قائل ہیں جب چاہے اپنے جہاز اڑاتے ہیں اور یہاں نازل ہو جاتے ہیں۔ ۔
عرب کے شیوخ اور چین کے گلفام اب بلوچستان کے ساحلوں پر ملا کریں گے جہاں مقامی کھانوں اور کھجوروں سے ان کی تواضح کی جائیگی۔ ان ساحلوں پر روز شام کو محفل سماع ہوگا اور دن بھر سندھی ملاکھڑا ہوا کرے گا۔ جب یہاں سیاحوں کی آمد بڑھ جائیگی تو جابجا خالی بوتلیں اور پلاسٹک کے تھیلے بکھر جائیں جن کے اکھٹا کرکے بیچنے کے کام سے مقامی لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا ہونگے۔
سی پیک کے آغاز سے قبل ہی گلگت بلتستان میں یہود و نصاریٰ کی سازشوں کو ناکام بنانے کی تیاریاں مکمل کی گئی ہیں۔ یہاں غیر سرکاری تنظیموں کی آڑ میں آنے والے جاسوسوں اور کو پیمائی اور کوہ نوردی کے بہانے یہاں جاسوسیاں کرنے والوں کو ویزہ لینا اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے کہ اب یہ لوگ یہاں آنے کے بجائے بھوٹان اور نیپال جارہے ہیں کیونکہ وہاں فی الحال سی پیک نہیں جارہا ۔
غیر سرکاری تنظیموں کی اہمیت سے بھی سرکار آگاہ ہے اس سلسلے میں مذہبی فلاحی اداروں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے کہ وہ لوگوں کی دین ودنیا کی بھلائی کا کام جاری رکھیں۔ پچھلے کچھ سالوں سے ملکی سیاح اتنے جارہے ہیں کہ ہوٹلوں میں جگہ نہیں مل پا رہی اور لوگ کھیتوں کھلیانوں میں خیمہ زن ہو جاتے ہیں۔
مقامی لوگ ملکی سیاحوں کو ان کاکھانا پکانے میں مدد دینے کے ساتھ ان کے جانے کے بعد اپنے کھیت کھلیاں سے ان کا پھیلایا گند صاف کرنے میں بھی مصروف رہتے ہیں۔ اب چینیوں کی بھی بغیر ویزہ آمد ہوا کرے گی اورمقامی لوگ ملکی سیاحوں کے ساتھ ساتھ چینی سیاحوں کے پھیلائے گند کو بھی صاف کیا کریں گے تو گلگت بلتستان کے لوگوں کا بھی سیاحت کے شعبے میں روزگار یقینی ہو جائیگا۔
♣