ایران کے صدارتی انتخابات میں موجودہ صدر حسن روحانی دوسری مدت کے لیے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔حسن روحانی ایک معتدل مزاج رکھنے والے سیاسی رہنما ہیں جو ایران کو مذہبی قیادت کی انتہا پسند پالیسیوں سے نجات دلانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
حسن روحانی نے اپنی کامیابی کے بعد کہا کہ رائے دہندگان نے دنیا کے ساتھ تعمیری اشتراک عمل کے راستے کا انتخاب کیا ہے۔ ان کے بقول عوام کا پیغام واضح ہے کہ انہوں نے انتہا پسندی کے بجائے دنیا کے ساتھ مل کر کام کرنے کا راستہ چنا ہے۔ یاد رہے کہ ایران پر پچھلی کئی دہائیوں سے مذہبی انتہا پسند ڈکٹیٹر شپ مسلط ہے اور جمہوریت کو بھی ایک حد سے زیادہ پنپنے نہیں دیتی۔
حسن روحانی تقریباً انسٹھ فیصد ووٹ لے کر دوبارہ صدر منتخب ہوئے ہیں جبکہ ان کے قریب ترین حریف ابراہیم رئیسی کو اڑتیس فیصد سے زائد ووٹروں کی حمایت حاصل ہوئی۔ یہ امر اہم ہے کہ رئیسی ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے معتمد خاص بھی ہیں۔
حسن روحانی کی کامیابی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایرانی عوام ملائیت اور مذہبی انتہا پسندی سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔
صدارتی انتخابات میں کامیابی کے بعد ٹیلی وژن پر اپنے خطاب میں روحانی نے مزید کہا کہ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران اپنے ہم وطنوں سے جو وعدے کیے تھے وہ سب پورے کیے جائیں گے۔ روحانی نے مزید کہا،’’ ایرانی شہری دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ پرامن اور دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں۔ تاہم ایران کسی طرح کی بھی تذلیل اور دھمکیوں کو قبول نہیں کرے گا‘‘۔
اس موقع پر روحانی کا مزید کہنا تھا، ’’ہماری عوام نے پڑوسی ممالک اور خطے کی دیگر ریاستوں پر واضح کر دیا کہ سلامتی کو یقینی بنانے کا اصل راستہ جمہوریت کا نفاذ ہے نا کہ غیر ملکی طاقتوں پر بھروسہ کرنا‘‘۔
دوسری جانب ایران میں حسن روحانی کے دوبارہ صدر منتخب ہونے پر جرمنی کے اقتصادی حلقوں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ جرمن صنعت کاروں کی تنظیم کے سربراہ ڈیٹر کیمف نے کہا کہ یہ انتخابی نتیجہ ایران کے ساتھ مزید تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافے کی حوصلہ افزائی کا باعث بننے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں پیش رفت چاہتا ہے۔ اس بیان میں مزید کہا گیا کہ روحانی کو داخلہ سطح پر اطلاحات کو لازماً متعارف کرانا چاہیے۔
کیا صدر وحانی ملک میں موجود مذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے؟
تجزیہ نگاروں کے مطابق ایران کی سیاست پر انتہا پسند مذہبی سوچ رکھنے والے ملاؤں کی گرفت بہت مضبوط ہے اور ایران میں جمہوریت کنٹرولڈ جمہوریت ہے ۔ ایران کے مذہبی قیادت ، جمہوری حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کو منسوخ بھی کر سکتی ہے۔
صدر روحانی نے اپنی پہلی مدت صدارت میں سب سے بڑے دشمن امریکہ اور مغربی ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کرکے معاشی پابندیوں کا خاتمہ کروایا جس کی وجہ سے ایران کی معیشت میں مثبت تبدیلیاںرونما ہوئی ہیں۔
دیکھنا یہ ہے کہ صدر روحانی اپنی دوسری مدت صدارات میں ایرانی سماج سے طالبانائیزیشن کے وائرس کو ختم کرنے میں کس حد تک کامیابی حاصل کرتے ہیں اور ملک کو ترقی کی جانب لے جاتے ہیں۔
DW/News Desk
♦