ناچ اے نرتکی
ناچ اُن کے لیے
وہ جو جُدائی کے صدمے میں ہیں
جن کی سانسوں کی دہلیز پر
اُن کے جسموں کے مہتاب گہنا گئے
جو پُراسرار خواہش کی بیلوں کو چُھوتے ہی
پتھرا گئیں
ناچ ہاں ناچ اُن کے لیے
وہ جوانی کے شہروں میں
تنہائیوں کو پہن کر نکلتی ہیں
اور وصل کی رات مہندی کی خوشبو سے ڈرتی ہیں
ہاں ناچ اے سانولی
کہ تیری انگلیوں میں
ہرے موسموں کے نرِت بھاؤ ٹھہرے ہیں
تُو خواہشوں کے قبیلے میں
سُورج کا کنگن پہن کر
جبلّت کے تہوار میں ناچتی ہے
سلامت رہیں یہ ترے نرِت بھاؤ
کہ ہم موت کے تابلو میں زمانوں سے ساکت ہیں
تیری پُراسرار آنکھوں میں کھویا ہوا
اپنا پچھلا جنم ڈھونڈتے ہیں
تھِرک نرِتکی
کہ ترے لہلہاتے بدن کے تموج سے
دِن رات چڑھتے اُترتے ہیں
صدیوں میں پھیلی ہوئی سیڑھیوں پر
ترے گھنگھرؤں کی دھمک گونجتی ہے
تجھے ہم نے جنموں کی سنگت میں دیکھا ہے
ہاں ناچ اے نرِتکی
ناچ اُجڑے دِلوں میں
گہن خوردہ آنکھوں میں
سنسان جسموں میں
ماتم زدہ آرزؤں میں
ہم پر کرم کر
کہ ہم موت کی نیند سے
تازہ سانسوں کے موسم میں جاگیں
چمک باؤلی
جسم پر پھڑ پھڑاتے پرندوں کے پر کھول
ہاں ناچ اے کامنی
پد منی رس بھری
کہ دِلوں کے طبل پر
ترے پاؤں کی چھن چھنا چھن
بیابان سینوں کی دف پر
تری انگلیوں کی چھما چھم
تڑپ نرتکی
کہ رگیں کھنچ کے تاریں بنیں
ایک اک انگ تیرے سُروں میں پگھل جائے
ہاں ناچ اے سانولی
مدھ بھری
تیرے چڑھتے اُترتے نرت بھاؤ کی فاختائیں
جنم در جنم
دیس پر دیس
سارے گھروں کی منڈیروں پہ اُڑتی رہیں
اور ترے پاؤں کی تتلیوں کے تعاقب میں
بچے ہمیشہ بھٹکتے رہیں
***