حیدر چنگیزی
آزادیِ اظہار رائے سے مراد وہ زبانی، تقریری یا تحریری آزادی ہے جو کسی مخصوص نظریہ،سوچ و فکرِ ، عمل یا نظام پر قائم کی جا سکے، چاہے و ہ تحریر و تقریر یا نقطہِ نظر اُس مخصوص عمل، سوچ و فکرِ، نظریہ یا نظام کی حمایت میں قائم کی جائے یا پھرِ اصلاح کے باعث تنقید کی صورت میں قائم کی جائے، دونوں طرح سے آزادی اظہارِ رائے کہلاتا ہے۔
دوسرے الفاظ میں اس عمل کو زبان پر اختیار بھی کہا جاتا ہے جو انسان کی بنیادی و اخلاقی حق ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کی تخلیقی سوچ و صلاحیت اور انسانی شعور کو پروان چڑھاتا ہے۔ لیکن آزادی اظہارِ رائے کا انسانی بنیادی حق ہونے کے باوجود زمانہِ قدیم سے ہی اسِ حق کی خلاف ورزی اور پامالی ہوتی نظر آرہی ہے۔
کبھی سقراط جیسی عظیم حق پرست فلسفی کو اس کی حق پرستانہ رائے اور خیالات پر اہلِ ایتھنز کی جانب سے دیوتاؤوں کا نافرمان ٹھہرا کراور اسُے زہر پلاِ کر اظہارِ رائے کو ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی تو کبھی گلیلیو جیسی فلسفی اور ماہرِ فلکیات کو اسُکی جدید تحقیقات و تخلیقات پر ملک بدر کرکے انسان کی تخلیقی عمل کو روکا گیا۔
لیکن اس کے باوجود حق پرستی و حق گوئی کا سفر رُک نہ سکا۔ جہاں انسان کو اسُکی اظہارِ رائے سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی، وہاں اسِ آزادی کی تحفُظ کو یقینی بنانے کیلئے انتھکِ عملی جدوجہد کی گئی جو آج بھی انگلستان کی” میگنا کارٹا آف کنگِ جان” اور” یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس” کی صورت میں موجود ہیں۔
پاکستان کے علاوہ دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں آج بھی اظہارِ رائے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ ٹی وی چینلز پر بیٹھے صحافی وتجزیہ نگارہو، یا پارلیمنٹ میں موجود سیاسی مخالفین، سوشل میڈیا کا کوئی بلاگر ہو یا کوئی عام سوشل ایکٹیوسٹ، سب کو اظہارِ رائے کی آزادی حاصل ہیں اور سب کو ملک پر برابر حق حاصلِ ہیں یہی وجہ ہے کہ آج انُ کے عوام میں ہر قسم کی سیاسی شعور اور تخلیقی صلاحیت دن بہ دن اجُا گر ہوتی نظر آرہی ہیں۔
اب اگر پاکستان کی صورت حال کو دیکھا جائے تو پاکستان کی آئین 1973کی آرٹیکل 19اور19اے بھی ہر پاکستانی کی حقِ اظہارِ رائے کی تحفُظ کی یقین دہانی کرتی ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کے کسی بھی کونے میں یہ آزادی نظرنہیں آتی۔ پاکستان کی تاریخ میں اسِ آزادیِ اظہارِ رائے کیلئے جن شخصیات نے قربانیاں دی ہیں، اُن میں ہمارے مشہور سیاست مدارشعراء حبیب جالب اور بلوچستان کے میر گل خان نصیر کے نام سرِ فہرست ہیں جنِہیں انُ کی بے خوف و بے باک اظہارِ رائے اور حق گو شاعری پر اپنی عمر کا اچھا خاصا وقت سلاخوں کے پیچھے گزارنا پڑا۔ اس کے علاوہ بہُت سے صحافیوں ، تجزیہ نگاراور کالم نگاروں، سیاست دانوں اور بلاگرز کو آئے دنِ غائب کردیا جاتا ہے یا پھرِ ڈرا دھمکا کر خاموش کیا جاتا ہے۔
اب حال ہی میں وزیر داخلہ چوہدری نثارِ نے سوشل میڈیا پر ریاستی ادِاروں کی تضحیک پر ایف آئی اے کو گرفتاری کی ہدایت دی ہیں جو کہ ادِاروں کی تضحیک کے نام پر ایک بار پھرِ سرِ عام اظہارِ رائے پر پابندی عائد کرنا ہے تاکہ ہم میں جاگتی سیاسی شعور ختم ہوسکے اور ہم یوں ہی غلامی اور ذلِت کا شکار بنے رہیں۔ لیکن انِ تمام رکِاوٹوں اور مظالم کے باوجود نہ یہ سلسلہ رُکا تھا اور نہ ہی کبھی رکے گا۔
بقولِ حبیب جالب
میرے ہاتھوں میں قلم ہے ، میرے ذہن میں اُجالا
مجھُے کیا دبا سکے گا ، کوئی نفرتوں کا پالا
مجھُے فکرِ امنِ عالم ، تجھُے اپنی ذات کا غم
میں طلوع ہو رہا ہوں ، توُ غروب ہونے والا