ظفر آغا
آخر مسلم پرسنل لا بورڈ نے سپریم کورٹ کے ذریعہ تین طلاق کو خود بھی طلاق دے دیا۔ چونکیئے مت ، باضابطہ طور پر بورڈ نے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا ہے، مگر گھما پھرا کر یہی ہوا ہے۔ ہوا یوں کہ پچھلے ہفتے سپریم کورٹ میں اس سلسلہ میں چل رہی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے مسلم پرسنل لا بورڈ کے وکیل کپل سبل ( یاد رہے کہ مسلم پرسنل بورڈ کو کوئی قابل مسلمان وکیل نہیں ملا ) سے سوال کیا کہ کیا بورڈ نکاح نامہ میں کوئی ایسی شق شامل کرنے راضی ہے جس میں لڑکی اپنے ہونے والے شوہر سے یہ منظوری لے کہ لڑکی کو شادی کے بعد تین طلاق نہیں منظور ہوگی۔
سپریم کورٹ کے اس سوال پر کپل سبل نے کہا کہ وہ اس کا جواب کورٹ سے رجوع کرنے کے بعد دیں گے۔ اس کیس کی سماعت کے آخری روز بورڈ کے وکیل کپل سبل نے بورڈ کی جانب سے ایک حلف نامہ دائر کردیا جس میں کہا گیا ہے کہ بورڈ اس بات کے لئے راضی ہے کہ نکاح نامہ میں یہ شق ڈالی جائے کہ لڑکی کو یہ حق ہوگا کہ وہ اپنے ہونے والے شوہر سے اس بات پر رضامندی حاصل کرلے کہ وہ اس کو تین طلاق کے ذریعہ کبھی طلاق نہیں دے گا۔
اس سلسلہ میں بورڈ نے سپریم کورٹ کو یہ بھی آگاہ کیا کہ وہ ملک بھر کے تمام قاضیوں اور علماء کو بھی آگاہ کریں گے کہ وہ نکاح نامہ میں اس شق کو ضرور شامل کریں جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ لیکن مسلم پرسنل لا بورڈ کا یہ کہنا ہے کہ وہ ہر کام شریعت کے دائرے میں کرے گا۔
کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے! جی ہاں اگر نکاح نامہ میں وہ شق شامل کردی گئی جس کا ذکر ابھی ہوا ہے، تو پھر شوہر کو تین طلاق دینے کا حق بچے گا ہی نہیں۔ لیکن اگر اس بنیاد پر سپریم کورٹ نے مسلم پرسنل لا بورڈ کے نکاح نامہ کو نیا ڈرافٹ منظور کرلیا تو پھر سپریم کورٹ غالباً تین طلاق کو حتمی طور پر ختم کرنے کا بھی کوئی قدم نہیں اٹھائے گا۔ اس طرح سانپ بھی مرجائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔
یعنی وقت نکاح لڑکی کو یہ اختیار مل جائے گا کہ وہ تین طلاق سے اپنا پیچھا چھڑالے ،اور مسلم پرسنل لا بورڈ اور حکومت کو یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ اس نے مسلمانوں کے تین طلاق کا حق بچالیا۔ منھ دکھانے کیلئے بورڈ اور علماء کرام کی اس طرح عزت رہ جائے گی اور حکومت کو جو تین طلاق کا خاتمہ چاہیئے تھا اس کوبذریعہ نکاح نامہ وہ حق بھی حاصل ہوجائے گا۔
ظاہر ہے کہ اس معاملہ میں پسِ پردہ کچھ باتیں ضرور ہوئی ہوں گی، وہ کیا تھیں اور یہ حل کیسے نکلا ، آیا حکومت نے کچھ اور بھی حاصل کیا یا نہیں؟ ان تمام باتوں کی بھنک ابھی نہیں مل رہی ہے۔ لیکن آنے والا وقت یہ تمام راز بھی کھول دے گا۔
جو بھی ہو، یہ اب تقریباً طئے ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے مسلم پرسنل لا بورڈ کا نیا نکاح نامہ منظورکرکے تین طلاق کو پوری طرح ختم نہ کرنے کا کوئی فیصلہ سنایا تو یوں سمجھیئے کہ بورڈ نے آخر کار تین طلاق کو خود طلاق دے دی۔اور پھر دیر آید درست آید! جی ہاں، یہ کام بہت پہلے ہوجانا چاہیئے تھا کیونکہ خود بورڈ نے سپریم کورٹ میں جو اس سلسلہ میں حلف نامہ داخل کیا ہے اس میں یہ کہا ہے کہ ’’ تین طلاق ایک گناہ ہے مگر ( مسلمانوں ) کو اس کا قانونی حق حاصل ہے‘‘۔
اگر ایک شئے گناہ ہے تو وہ شرعی اعتبار سے بھی ممنوع ہونی چاہیئے لیکن ہم اپنی خو نہ چھوڑیں گے والی بات تھی کہ بورڈ تین طلاق کو حتمی طور پر ختم کرنے کو راضی نہیں تھا۔ لیکن شاہ بانو کیس کے بعد سے اب تک پورے ملک میں تین طلاق کے خلاف ایسی فضاء بن گئی تھی کہ اب بورڈ کے لئے بھی تین طلاق کو بچانا بہت مشکل ہورہا تھا۔ غالباً سپریم کورٹ نے اس طرح دونوں فریقین کو ایک بہترین راستہ دے دیا کہ دونوں کی بات بھی رہ جائے اور مسئلہ بھی حل ہوجائے۔ اب کیا ہوتا ہے یہ تو جلد ہی سپریم کورٹ کے فیصلہ سے پتہ چل جائے گا۔
الغرض! سپریم کورٹ میں تین طلاق کے معاملہ میں سماعت کے بعد دو باتیں طئے ہوگئیں۔پہلی بات تو یہ کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کیلئے اب یہ بات تقریباً ناممکن ہے کہ وہ تین طلاق کی لڑائی کو اور بڑھائے۔ دوسری بات یہ کہ جس طرح بورڈ نے نکاح نامہ میں تبدیلی کا آفر دیا ہے اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ بورڈ اب تین طلاق کے مسئلہ کو دفن کرنا چاہتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر یہ مسلمانوں کیلئے بہت بہتر ہوگا۔
تین طلاق کے مسئلہ نے ہندوستانی مسلمانوں کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ اس سے سارے ملک میں یہ فضاء بن گئی کہ مسلمان نہ صرف پسماندہ ہیں بلکہ وہ اپنی عورتوں کو کوئی حق بھی نہیں دینا چاہتے، یہ بڑی افسوسناک بات ہے کیونکہ اسلام وہ بہترین دین ہے جس نے دنیا کو حقوق نسواں کا تصور دیا۔
چلیئے اگر اس طرح معاملہ سلجھ گیا تو بہت اچھا ہے کیونکہ اس میں نہ کسی کی ہار ہوگی اور نہ کسی کی جیت، اور تین طلاق ایک ’ سلو ڈ پتھر‘ کا شکار ہوجائے گا۔
روزنامہ سیاست، حیدرآباد انڈیا