آصف جاوید
بھارتی شہری ڈاکٹر عظمیٰ تمام تر خیریت کے ساتھ بالآخر انڈیا واپس پہنچ گئی ہیں۔ ڈاکٹر عظمیٰ کے مطابق وہ پاکستان اپنے دوست طاہر علی اور اس کے اہلِ خانہ سے ملنے اور مستقبل کے رشتے استوار کرنے کے لئے حالات کا جائزہ لینے پاکستان آئی تھیں۔ جہاں طاہر نے ان سے زبردستی شادی کرلی ۔ انہوں نے الزام لگایا کہ طاہر نے ان کو تشدّد کا نشانہ بنایا، ڈرایا دھمکایا، اور ان کو حبسِ بے جا میں رکھا۔ ڈاکٹر عظمیٰ کا الزام ہے کہ طاہر نے ان کے ساتھ دھوکہ اور فراڈ کیا، طاہر پہلے سے شادی شدہ اور چار بچّوں کا باپ تھا۔ ڈاکٹر عظمیٰ کی پاکستانی نوجوان طاہر سے ملائیشیا میں ملاقات ہوئی تھی، جہاں ڈاکٹر عظمیٰ اپنے کاروبار کے سلسلے گئی تھیں۔
ڈاکٹر عظمیٰ کے بارے میں زیادہ معلومات میسّر نہیں ہیں۔ مگر میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ ڈاکٹر عظمی ‘انڈین شہری اور دہلی کی رہائشی ہیں۔ اور کچھ عرصہ پہلے تک ڈاکٹر عظمیٰ دہلی کے یمنا وِہار علاقے میں ایک بوتیک چلاتی تھیں، اور آس پڑوس کے لوگ انہیں ایک مہذّب اور شائستہ خاتون کے طور پر جانتے ہیں۔ ڈاکٹرعظمیٰ کی پہلی شادی ختم ہوچکی ہے اوراِس شادی سے ان کی ایک چھوٹی بچی بھی ہے جس کے نام پر انھوں نے بوتیک کھولا تھا ، پھر کچھ عرصہ بعد ڈاکٹر عظمیٰ بوتیک بند کر کے ملائشیا چلی گئی تھیں۔ جہاں ان کی ملاقات پاکستانی نوجوان طاہر علی کے ساتھ ہوئی جو ملائیشیا میں اپنے کاروبار کے سلسلے میں مقیم تھا۔
چند ملاقاتوں میں پاکستانی نوجوان طاہر کے ساتھ ڈاکٹر عظمیٰ کی انڈرسٹینڈنگ ، پسندیدگی اور سنجیدہ رشتے استوار کرنے کے درجے میں داخل ہوگئی تھی۔ اور دونوں نے (مبیّنہ طور پر)شادی کا فیصلہ کرلیا تھا۔ ڈاکٹر عظمیٰ اِس ہی سلسلے میں پاکستان آئی تھیں، اور طاہر نے ہی ڈاکٹر عظمیٰ کو ویزہ سپانسر کرنے میں مدد کی تھی۔
وہ یکم مئی کو واہگہ بارڈر کے راستے نئی دہلی سے پاکستان آئی تھیں۔ جہاں تین مئی کو پاکستانی نوجوان طاہر علی سے ان کی (مبیّنہ) شادی ہوئی۔ پانچ مئی کو ڈاکٹر عظمیٰ نے انڈین ہائی کمیشن میں پناہ لے لی اور اپنے پاکستانی شوہر طاہر علی پر الزام عائد کیا ہے ان کی شادی بندوق کی نوک پر کروائی گئی ہے جبکہ وہ شادی کی غرض سے پاکستان نہیں آئی تھیں۔ بلکہ اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے پاکستان آئی تھیں۔(تاہم ابھی تک پاکستان میں ڈاکٹر عظمی کے رشتہ دار سامنے نہیں آئے ہیں)۔
ڈاکٹر عظمیٰ نے اسلام آباد کی ضلعی عدالت کے جج حیدر علی کی عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ زبردستی کی شادی کے بعد انھیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا اور اس کے علاوہ ان کی امیگریشن کی دستاویزات بھی چھین لی گئیں۔ عدالت کو بیان دیتے ہوئے ڈاکٹر عظمیٰ نے موقّف اختیار کیا کہ انہیں ان کی مرضی کے بغیر حبسِ جا میں رکھا گیا تھا، اُنھوں نے اپنے (مبیّنہ) شوہر کے ساتھ جانے سے انکار کردیا اور کہا ہے کہ جب تک وہ بحفاظت اپنے وطن واپس نہیں پہنچ جاتیں اس وقت تک وہ اسلام آباد میں انڈین ہائی کمیشن سے باہر نکلنا نہیں چاہتی ہیں۔
اپنے قارئین کو واضح کرتے چلیں کہ طاہر علی ، ڈاکٹر عظمیٰ کے ہمراہ 5 مئی کو انڈین ویزے کی معلومات لینے کے لیے بھارتی ہائی کمیشن گیا تھا۔ اس موقع پر ڈاکٹر عظمیٰ ہائی کمیشن کے اندر چلی گئیں تھیں جبکہ طاہر علی کو باہر ہی روک لیا گیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں ڈاکٹرعظمیٰ اور طاہر علی کی درخواستوں کی سماعت کے دوران ، ڈاکٹر عظمیٰ نے عدالت میں موقّف اختیار کیا کہ زبردستی کی شادی کے بعد انہیں ان کی مرضی کے خلاف حبسِ بے جا میں قید رکھا گیا تھا، ان پر تشدّد کیا گیا تھا ، ان کی دستاویزات اور ذاتی سامان قبضے میں لے لیا گیا تھا اور وہ اپنے زبردستی کے شوہر طاہر علی کے ساتھ نہیں رہنا چاہتیں ، بلکہ انڈیا واپس جانا چاہتی ہیں جہاں ان کی پہلی شادی سے ہونے والی بیٹی بیمار ہے اور ان کی منتظر ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جناب محسن اختر کیانی نے ان کے موقّف کو قبول کرتے ہوئے نکاح کو فسخ قرار دے کر اپنے حکم میں ڈاکٹر عظمیٰ کو اپنے وطن واپس جانے کی اجازت دے دی تھی اور عدالت عالیہ نے وزارتِ داخلہ کو حکم دیا تھا کہ ڈاکٹر عظمٰی واہگہ بارڈر تک فول پروف سکیورٹی بھی فراہم کی جائے۔
ڈاکٹر عظمیٰ جمعرات 25 مئی ، 2017 کی دوپہر واہگہ بارڈر کے راستے سے انڈیا واپس پہنچ گئی ہیں۔ انڈیا واپس پہنچنے کے بعد انہوں نے انڈین وزیر خارجہ سشما سوراج اور پاکستان میں انڈیا کے ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ کے ساتھ ایک پریس کانفرنس بھی کی جس کے دوران سشما سوراج نے ڈاکٹر عظمیٰ کے پاکستانی وکیل بیرسٹر شاہ نواز نون اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جناب جسٹس کیانی کا بھی شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ بیرسٹر شاہنواز نون نے عظمیٰ کا کیس بالکل اپنی بیٹی کی طرح لڑا اور جسٹس کیانی نے کیس کا فیصلہ حقائق اور انسانیت کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا جس کے لیے وہ ان کی شکرگزار ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان موجودہ کشیدگی کے باوجود جس طرح پاکستانی وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ نے ان کی مدد کی اس کے لیے بھی وہ شکر گزار ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اسلام آباد میں انڈیا کے ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ کا بھی شکریہ ادا کیا۔
انڈیا واپس پہنچنے کے بعد ڈاکٹر عظمی نے پاکستان پر کچھ گھٹیا الزامات بھی لگائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان جانا بہت آسان ہے، ویزا آسانی سے مل جاتا ہے، لیکن وہاں سے بچ کر آنا بہت مشکل ہے۔ “پاکستان موت کا کنواں ہے“۔انہوں نے مزید کہا کہ انڈیا میں خاص طور پر مسلمانوں میں یہ تاثر ہے کہ پاکستان بہت اچھا ہے لیکن میں وہاں جو دیکھ کر آئی ہوں، ہر گھر میں دو دو تین تین بیویاں ہیں، عورتوں کے ساتھ جس طرح کا سلوک ہوتا ہے، ہمارا انڈیا جیسا بھی ہے، اچھا ہے۔ یہاں ہمیں ہر آزادی حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں کچھ اور دن وہاں رہ جاتی تو وہ یا تو مجھے مار دیتے یا مجھے آگے بیچ دیتے یا پھر کسی آپریشن میں میرا استعمال کرتے۔
ڈاکٹر عظمیٰ نے انڈیا واپس پہنچنے پر پاکستان پر جو بھی الزامات لگائے ہیں ہم ان کو درگزر کرتے ہوئے صرف اتنا ہی کہیں گے کہ بی بی کچھ غلطیاں آپ سے بھی ہوئی ہیں، ان پر بھی نظر ڈالیں۔ بہر حال ہم یہاں پاکستان کی وازرتِ خارجہ اور وزارتِ داخلہ کے مثبت اور ذمّہ دار رویّے ، عمدہ سفارت کاری، اور پاکستان کی عدالتِ عالیہ کے منصفانہ فیصلے کی بھرپور تعریف کرنا چاہیں گے۔ گذشتہ ستّر سالوں سے انڈیا اور پاکستان حالتِ جنگ میں ہیں۔
پاکستان، عالمی برادری میں پہلے ہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں ریاستی تشدّد، جبری اغوا، اور ماوارائے عدالت قتل اور عسکری اسٹیبلشمنٹ کے آئین سے بالا تر کردار کے معاملے میں بری طرح بدنام ہے۔ خارجہ امور اور سفارتی محاذوں پر پاکستان کو انڈیا کے ہاتھوں اکثر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا رہتا ہے۔ اِ س موقعہ پر انڈین شہری ڈاکٹر عظمیٰ کے معاملے میں کوئی سفارتی غفلت یا وزراتِ داخلہ کا کوئی غیر ذمّہ دارانہ رویّہ، پاکستان کے لئے مزید ذلّت اور رسوائی کا سبب بن سکتا تھا۔
اگر پاکستانی وزراتِ داخلہ اور فارن آفس ڈاکٹر عظمیٰ کےکیس میں انڈین ہائی کمیشن کے ساتھ پیشہ ورانہ تعلّقات ، ذمّہ دارانہ سفارتی آداب ، مثبت رویّے اور سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے ، عدالت عالیہ اسلام آباد ہائی کورٹ ، میرٹ پر کیس کی شنوائی نہیں کرتی، بین القوامی آداب کا لحاظ نہیں رکھا جاتا، انصاف و قانون کے تقاضے پورے نہیں کئے جاتے تو پاکستان کو بین الاقوامی طور پر شدید ذلّت کا سامنا کرنا پڑتا ، اور دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی کے عمل کو شدید دھچکا پہنچتا۔
ہم ذمّہ دارانہ سفارت کاری اور عدالتِ عالیہ کو انصاف کے تقاضے پورا کرکے پاکستان کو سرخ رُو کرنے پر وزارت داخلہ و خارجہ کے اہل کاروں اور عدالتِ عالیہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جناب جسٹِس کیانی کے شکر گزار ہیں۔ عدالتِ عالیہ کے فیصلے نے پاکستان کی لاج رکھ لی ہے۔ بین الاقوامی برادری میں پاکستان کا سر فخر سے بلند ہوگیاہے۔ پاکستان ہمارا وطن ہے۔ پاکستان کی عزّت اور وقار ہمار ے لئے نہایت محترم ہے۔
♦