سید امجد حسین
ان دنوں انڈیا کے کئی خطوں ، بالخصوص مہاراشٹر میں گنیش چترتھی کا تہوار بڑے جوش خروش کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ چاروں طرف ہنستے اور کھلکھلاتے چہرے، رنگ، گلال، ڈھول تاشوں کی آواز سے پوری فضا شرابور ہوچکی ہے۔
جگہ جگہ جگمگاتے پوجا پنڈال اور ان میں قد آدم گنیش جی کی مورتیاں سجی ہوئی ہیں، جو انسانی ہاتھوں کی کلاکاری کے انمول نمونے ہیں۔ آرتی چل رہی ہے، منتر جاپ ہورہے ہیں اور عقیدت مندوں کی بھیڑ ہے کہ آدھی رات گذرنے کے باوجود یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
گنیش جی ایک دیومالائی کردار ہیں اور ہر مذہب کی طرح یہاں بھی محیر العقول کہانیوں کی کثرت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گنیش جی پاروتی کے بیٹے ہیں ۔ پاروتی شیو جی کی پتنی ہیں۔
ایک دن جب شیوجی موجود نہیں تھے، پاروتی نے مٹی سے گنیش جی کی تخلیق کی۔ پھر محترمہ نے گنیش جی کو غسل خانے کے دروازے پر پہرہ دینے پر تعینات کردیا، جب وہ نہا رہی تھیں۔ گنیش جی اپنی والدہ اور تخلیق کار کے حکم کی تعمیل میں بڑی خلوص نیتی کے ساتھ دروازے پر پہرہ دینے لگا۔
اتنے میں شیوجی وہاں آنکلے، ظاہر ہے وہ گنیش جی کو پہچانتے نہیں تھے اور نہ گنیش جی انھیں پہچانتے تھے۔ چنانچہ گنیش جی نے شیو جی کو غسل خانے میں داخل نہیں ہونے دیا۔ شیو جی غصے سے آگ بگولا ہوگئے اور وہ دونوں ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوگئے، حتیٰ کہ شیو جی نے گنیش جی کا سر قلم کردیا۔
پاروتی کو جب اس حادثے کا علم ہوا تو وہ شیو جی پر بھڑک اٹھیں اور انھیں لعنت ملامت کرنے لگیں۔ شیوجی نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ ان کا بچہ واپس لائیں گے۔ انھوں نے اپنے لوگوں کو کسی مردے کا سر لانے کے لیے بھیجا لیکن افسوس انھیں صرف ایک ہاتھی کا ہی سر ملا۔ شیوجی نے اس سر کو گنیش جی کے مردہ جسم پر لگادیا اور اس طرح گنیش جی دوبارہ زندہ ہوگئے۔ شیوجی نے اس دن یہ بھی اعلان کردیا کہ آج سے وہ گنیش کے نام سے جانے جائیں گے۔
اس واقعے کو بطور ایک عوامی تہوار بنا کر پیش کرنے والے مراٹھا شیواجی (1630-1680) تھے۔ یہ تہوار مہاراشٹر کے علاوہ کرناٹک، تلنگانہ، تمل ناڈو، کیرالا، آندھرا پردیش، گوا اور آڑیسہ میں بھی منایا جاتا ہے۔
گذشتہ کچھ برسوں سے مسلمانوں نے اپنے ہم وطن ہندوبھائیوں سے خیر سگالی کی بنیاد پر اس تہوار میں دلچسپی لینی شروع کردی ہے، جو ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا اعلامیہ ہے۔ ذاتی طور پر مجھے بھی اس میں کوئی برائی نظر نہیں آتی۔ اب چاہے کسی گدھی کے جسم پر کسی عورت کا سر لگا کر اسے براق کا نام دے دیں یا کسی انسان کے دھڑ پر کسی ہاتھی کا سر لگا کر اسے گنیش جی بول دیں، کیا فرق پڑتا ہے؟
[نوٹ: پہلی تصویر میں ایک مسلم فیملی گنیش جی کی آرتی کررہی ہے، جب کہ دوسری تصویر میں معروف انڈین ایکٹر سلمان خان اپنی دونوں والدہ کے ساتھ گنیش جی کی مورتی کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے ہیں۔]